فَھَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَقَتَلَ دَاودُ جَالُوْتَ وَاٰ تٰہُ اللّٰہُ
الْمُلْکَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَہ مِمَّا یَشَآئُ وَلَوْلا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ
بِبَعْضٍ لا لَفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْفَضْلٍ عَلٰی
الْعٰلَمِیْنَ(251) تِلْکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتْلُوْھَا عَلَیْکَ بِالْحَقِّط وَ
اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ (252)
ترجمہ:
پس انہوں نے ان کو شکست دے دی باذنِ خدا
اورقتل کردیا داﺅد نے جالوت کو اورعطا کیا اس کو اللہ نے ملک
اورعلم شریعت اور اس کو سکھایا جو چاہا اوراگر نہ ہوتا خداکادفع کرنا بعض (مفسد)
لوگوں کا بذریعہ بعض دوسرے لوگوں کے تو زمین فساد سے بھر جاتی لیکن اللہ صاحب فضل
ہے اوپر عالمین کے oیہ اللہ کی آیات ہیں جن
کو ہم آپ پر حق کے ساتھ بیان کرتے ہیں اورآپ یقینا رسولوں میں سے ہیں o
حضرت
داﺅد ؑکی شجاعت
وَ قَتَلَ دَاودَ جَالُوْتَ: حضرت امام جعفر
صادقؑ سے منقول ہے کہ بنی اسرئیل کے نبی کو یہ وحی ہوئی تھی کہ جالوت کو وہ شخص
قتل کرے گا جس پر حضرت موسیٰؑ کی زرّہ فٹ ہوگی اوروہ شخص لاوی بن یعقوب کی اولاد
سے ہے جس کا نام داﺅد ؑ ہے اوردنبیاں چراتا ہے اوراس کے باپ کانام
ایشا ہے (اسی ) ایشا کے دس فرزند تھے اورحضرت داﺅد ؑ سب سے چھوٹے تھے، پس
جب طالوت کے پاس لشکر جمع ہوا تو انہوں نے ایشا کو کہلا بھیجاکہ آپ اپنے بیٹوں کو
لائیں پس جب وہ حاضر ہوئے تو حضرت موسیٰؑ کی زرّہ باری باری ہر ایک کوپہنائی لیکن
وہ کسی پر فٹ نہ آئی بلکہ کسی سے بڑی اورکسی سے چھوٹی ہوتی تھی تو طالوت نے دریافت
کیا کہ ان کے علاوہ آپ کا کوئی فرزند بھی ہے؟ انہوں نے جواب دیاکہ ہاں ان سب سے
چھوٹا ایک ہے جس کو دُنبیوں کی حفاظت کے لئے ہم پیچھے چھو ڑ آئے ہیں پس ان کو طلب
کیا گیا جب ان کو پیغام پہنچا تو وہ غلیل مارنے کی ایک کمان (فلاخن یاگوپھن) اپنے
ساتھ لئے وہاں سے روانہ ہوئے راستہ میں تین پتھروں نے یکے بعد دیگرے آواز دی کہ
ہمیں اے داﺅد ؑ اپنے ساتھ لیتے جایئے کہ تیرے کام آئیں گے پس انہوں نے ان کواپنے توبرہ
میں رکھ لیا اوروہ فیروزہ کے پتھر کی قسم سے تھے اورحضرت داﺅد ؑ تن ومند بہادر اورقوی ہیکل جوان تھے، پس جب طالوت کے پاس پہنچے تو
انہوں نے ان کو حضرت موسیٰؑ کی زرّہ پہنائی جوان کو پوری طرح فٹ آئی۔
القصّہ: پس جب طالوت کالشکر جالوت کے لشکر
کے مقابلہ میں آیا تو جالوت کی شجاعت کا بڑا چرچا سنا، حضرت داﺅد ؑ نے ان سے کہا کہ جس کے بارے میں اتنی بڑی بڑی باتیں کررہے ہو خداکی قسم
ایک بار مجھے دکھا دو اسے ضرور قتل کروں گا حضرت داﺅد ؑ کا کہنا تھا کہ پورے
لشکر میں ان کے جرات مند انہ کلام کی آواز مشہور ہوئی اوران کو طالوت کے سامنے
لایا گیا طالوت نے دریافت کیا کہ آپ کی قوت بازو کی کیا حد ہے؟ اورآپ نے کس حدتک
اپنی طاقت کو آزمایا ہے؟ ( کہ اس قدر جرات آمیز دعویٰ کرتے ہو) تو انہوں نے جواب
دیا کہ میری قوت بازو یہ ہے کہ شیر جب میری دنبیوں پر حملہ آور ہوتاتھا تو میں اس
کو پکڑ لیتا تھااوراس کے سرکو قابوکرکے اس کی داڑھیں کھول کر اپنی دنبی وغیرہ اس
کے منہ سے چھڑالیتا تھا تب طالوت اورلشکریوں کواطمینان حاصل ہوا۔
پس جب صبح کودونوں لشکر ایک دوسرے کے
بالمقابل ہوئے تو جالوت اپنے ہتھیار لگا کر میدان میں آیا، بقولِ صاحب عمدةُ
البیان تقریباً انیس من لوہا وزنِ ہندی کے برابر اس کے جسم پر ہتھیار تھے
اورتقریباً چھ من وزن کا اس کے سر پر خود تھا ہاتھی پر سوار تھا اورا س کے سر پر
ایک تاج تھا اورپشانی پر ایک یاقوت تھا جو چمکتا تھا، اس کا لشکر اس کے سامنے کھڑا
تھا۔
حضرت داﺅد ؑ نے فلاخن میں ان تین
پتھروں سے ایک پتھر رکھ کر لشکر جالوت کے میمنہ (دائیں حصہ) پر مارا جب وہ پتھر ان
پر گراتو وہ بھاگ گئے پھر دوسرا پتھر لشکر جالوت کے میسرہ (بائیں حصہ) پر مارا تو
پتھر کے پڑنے سے وہ بھی بھاگ کھڑے ہوئے پس تیسرا پتھر سید ھا جالو ت کو نشانہ بنا
کرمارا تو وہ پتھر اس کی پیشانی پر ٹھیک اسی یاقوت والے مقام پر پڑا جو اس کے سر
کو پھوڑ کر دماغ تک جاپہنچا اورہاتھی کی پشت سے دھڑم زمین پر گر پڑا۔
لوگوں میں حضرت داﺅد ؑ کی شجاعت کا ڈنکا بج
گیا اوراس واقعہ کے بعد حضرت داﺅد ؑ کوبادشاہت کےلئے منتخب کیا گیا اوربنی اسرائیل
نے ان کی حکومت کے سامنے سرتسلیم خم کرلیا اہل تفسیر نے اس واقعہ کو اسی طرح ہی
بیان کیا ہے اگرچہ کئی تفسیر وں کے مختلف بیانات کو میں نے یکجاکردیا ہے۔
وَلَوْلا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ: اس فقرہ
کا ایک معنی تو وہ ہے جو تحت اللفظ موجود ہے اورحضرت امیرالمومنین ؑ سے اس کامعنی
یوں منقول ہے کہ اگرنہ ہوتاخدا کا معاف کرنا اوردرگزر کرنا بعض گنہگار لوگوں سے
بتصدق دوسرے بعض نیک لوگوںکے تو تمام اہل ارض عذابِ خداوندی کی وجہ سے سرہم برہم
ہوچکے ہوتے لیکن اللہ تمام جہانوں پر صاحب فضل وکرم ہے، چنانچہ حضرت امام جعفر
صادقؑ سے بطرق مختلفہ مروی ہے کہ خداہمارے نماز گزارشیعوںکی وجہ سے بے نماز شیعوں
سے درگزر فرمالیتاہے ورنہ اگر سب بے نماز ہوتے تو یقیناہلاک ہوجاتے اورہمارے روزہ
دار شیعوں کی بدولت بے روزہ شیعوں سے عذاب ٹال دیتا ہے ورنہ اگر سب بے روزہ ہوجاتے
تو معذب کردیئے جاتے اورہمارے زکوٰة دینے والے شیعوں کی وجہ سے بے زکوٰة شیعوں سے
درگزر کرتا ہے ورنہ اگر سب تارک زکوٰة ہوجاتے تو ہلا ک ہوجاتے اور ہمارے حاجی
شیعوںکے صدقہ سے تارکِ حج شیعوں سے درگزر کرتا ہے ورنہ اگر سب تارک حج ہوجاتے تو
ہلاک ہوجاتے اورفرمایاکہ خداکی قسم یہ آیت تمہارے ہی حق میں اُتری ہے اوراس سے تم
ہی مراد ہواورتمہارے غیر مراد نہیں ہیں (تفسیر برہان )
ربیع الابرار زمخشری سے بروایت ابن عمر مروی
ہے کہ جناب رسالتمآب نے فرمایاکہ خداوندکریم ایک نیک مسلمان کی بدولت اس کے قریب
بسنے والے ایک لاکھ گھر انوں سے مصیبت کو دفع فرمایا ہے اورپھر آپ نے یہی آیت
پڑھی۔
مجمع البیان میں جابربن عبداللہ انصاری سے
منقول ہے کہ جناب رسول خدا نے ارشاد فرمایاکہ ایک مرد مسلمان جو نیک اورصالح ہو کی
بدولت خداوندکریم اس کی اولاد اس کی اولاد کی اولاد اورپھر ان کی اولاد اوراس
کاباقی خاندان اوراس کے جوار میں بسنے والے خاندانوں کی حالتوں کو سنوار دیتا ہے
اوراس نیک مرد مسلمان کی بدولت وہ سب حفظ وامانِ خدامیں آجاتے ہیں۔
پس طالوت کے انتخاب اورحضرت داﺅد ؑ کی شجاعت کی بدولت بنی اسرائیل کو دشمن پر کامیابی نصیب ہوئی اور ہر
قسم کی مصیبتوں سے چھٹکارا حاصل ہوا اور اس تجربہ کے بعد بنی اسرائیل کو اپنے
سابقہ اعترضات کی غلطی کا علم ہوگیا اورانہیں معلوم ہوگیا کہ واقعی خدائی انتخاب
ہی امن وسلامتی کا مژدہ لاسکتاہے اورعلم وجسمانی طاقت ہی معیار انتخاب ہوسکتی ہے
اس معاملہ میں خاندانی جاہ وجلال زرودولت اورفراوانی مال پر نازاں ہونا صرف حماقت
اورناعاقبت اندیشی ہے اوریہ بھی واضح ہوگیا کہ اعلانِ قدرت کے بعد اجماعی پروگرام
کی ترتیب مفت کی ہنگامہ آرائی ہے۔
بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ
حضرت علی ؑ کی خلافت کے متعلق قرآن مجید میں کوئی نص نہیں ہے لیکن یہ بات صرف ان
کی قرآنی مطالب سے چشم پوشی اورپہلو تہی بلکہ حسد اورتعصب کی آئینہ دار ہے، قرآن
مجید میں امم سابقہ کے واقعات صرف قصہ خوانی کے طور پر نہیں ہیں بلکہ وہ تو
تاقیامت انسانی فلاح وبہبود کاایک معیار بیان کرتاہے خواہ اس کاتعلق اخروی مفاد سے
ہو یا دنیوی فلاح سے ہوخواہ تدبیر منزل کے متعلق ہویا سیاست عامہ کے متعلق ہو جب
ایک امت کےلئے ایک معیار قائم کیا گیا اورقرآن نے اسے بیان کرکے اس کے نتائج سے
بھی روشناس کرادیا تو تاقیامت وہ معیار تمام امتوں کےلئے ایک نص کی حیثیت رکھتاہے
پس امت اسلامیہ میں اگر جنا ب رسالتمآب کے بعد انتخاب خلافت ضروری ہے اورہے بھی
ضروری تو جو بھی اس معیار پر پو را اُترے وہی اہل ہے کہ خلیفةُاللہ اسے کہا جائے
اور ظاہر ہے کہ حضرت علی ؑ کے علاوہ اس معیار انتخاب پر کوئی بھی پورا نہیں
اترسکا، تو قرآنی مذکور ہ با لاآیات حضرت علی ؑ کی خلافت پر نص نہیں تو کیا ہے؟ نص
اور معیار کے درمیان فرق اور اس کی ضروری وضاحت ہماری کتاب اسلامی سیاست میں
ملاحظہ فرمائیے۔