فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ
بِالْجُنُوْدِ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَھَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ
فَلَیْسَ مِنِّی وَ مَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ
فَاِنَّہ مِنِّیٓ اِلَّامَنِ اغْتَرَفَ غُرَفَةً بِیَدِہ فَشَرِبُوْا مِنْہُ
اِلَّا قَلِیْلاً مِنْھُمْ فَلَمَّا
جَاوَزَہ ھُوَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ قَالُوْا لا طَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ
بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہ قَالَ الَّذِیْنَ
یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُلقُوا اللّٰہِ کَم مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ
فِئَةً کَثِیْرَةً بِاِذْنِ اللّٰہ ِ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (249) وَ
لَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہ قَالُوْا رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا
صَبْرًا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلٰی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ
(250)ط
ترجمہ:
پس جب روانہ ہو اطالوت فوج لے کر توکہا کہ
تحقیق اللہ تمہارا امتحان کرنے والاہے ایک نہرسے پس جو اس سے پئے گا وہ میرا نہ
ہوگا اورجو اس سے نہ پئے گا وہ میرا ہوگا مگر وہ ہواپنے ہاتھ سے ایک چلُّو لے لے
(اس پر حرج نہیں) پس سب نے اس سے پیا سوائے ان کے تھوڑے آدمیوں کے پس وہ جب وہاں
سے گزر گئے بمعہ ان لوگوں کے جواس کے ساتھ ایمان لائے تھے وہ کہنے لگے کہ آج ہماری
طاقت نہیں کہ جالوت اوراس کے لشکر کامقابلہ کریں ان لوگوں نے کہا جو یہ سمجھتے تھے
کہ ہم اللہ سے ملنے والے ہیں کہ بسااوقات تھوڑی جماعتیں فتح پالیا کرتی ہیں بڑی
جماعتوں پر بحکم خدا اوراللہ صبر کرنے والوںکاساتھی ہے oاورجب نکلے جالوت اوراس کے لشکر کے سامنے تو یہ دعامانگی اے ہمارے ربّ ہمیں
صبر کی توفیق دے اورہمیں ثابت قدمی عطا کراور کافر قوم پر ہماری نصرت فرما o
طالوت
وجالوت کی لڑائی کا قصہ
فَلَمَّا فَصَلَ: گویا بنی اسرئیل نے نشانی
طلب کی اوروہ تابوت اسی بیان کردہ صفت کے ساتھ ان کے پاس آیا تو انہوں نے طالوت کو
اپنا حکمران تسلیم کرلیا اوراسی ۰۸ہزار یا ستر ۰۷ہزار کی تعداد میں باختلاف روایت
فوج کے پاس لے کر جہاد کے لئے روانہ ہوئے پس خدانے ان کے صبر کا امتحان لیا تاکہ
سچے ایماندار اورجھوٹے کا فرق معلوم ہوجائے جب نہر کے کنارے پہنچے تو طالوت نے ان
کو امتحان کی حقیقت سے آگاہ کیا، کہتے ہیں کہ وہ نہر اُردن اورفلسطین کے درمیان
تھی اوربعض کا خیال ہے کہ وہ نہرِ فلسطین تھی۔
احتجاج سے مروی ہے کہ طاﺅوس یمانی نے حضرت امام محمد باقرؑ سے دریافت کیا کہ وہ کون سی چیز ہے جس کا
تھوڑا حلال ہے اورزیادہ حرام ہے؟ آپ ؑ نے فرمایا وہ نہر طالوت ہے جس کاایک چلو
حلال اورزیادہ پینا حرام ہے۔
اِلَّاقَلِیْلاً: امام محمد باقرؑ سے مروی
ہے کہ وہ تین سوتیرہ تھے کہ بعض نے ایک چلو پیاتھا اوربعض نے کچھ بھی نہ پیا تھا
اوربعض کہتے ہیںوہ کل چار ہزار تھے لیکن ان میں سے باقی منافق ہوگئے اورصرف تین سو
تیرہ ثابت قدم رہے، اورکہتے ہیںطالوت نے نافرمانوںکو واپس کر دیا اورصرف ایمان
والوں کے ساتھ نہر کو عبور کیا جیسا کہ قرآن مجید میں بصراحت موجود ہے۔
حضرت امام محمد باقرؑ سے مروی ہے کہ جنہوں
نے چلوپیا تھا وہ سیر ہوگئے اورجنہوں نے حرص زیادہ کیا ان کی پیاس بڑھ گئی اورہونٹ
بھی سیاہ ہوگئے (حاشیہ مقبول)
قَالُوْا لاطَاقَةَ لَنَا: چونکہ ان کی
تعداد کم تھی اور اُدھر جالوت کے پاس کافی فوج تھی اس لئے بعض لوگ گھبرا کر یہ بات
کہنے لگے جو قرآن میں ہے۔
طالوت کا ایمان
قرآن مجید کے الفاظ سے طالوت کامومن یاکافر
ہونا واضح نہیں ہوتا لیکن اشارات وکنا یات کی رو سے ان کے مومن ہونے کا پہلوزیادہ
روشن ہے چنانچہ بعض نے ان کی نبوت کا قول بھی کہا ہے جیساکہ ص۸۲۱ پر گزر چکا ہے،
البتہ تاریخ سے اس کے مومن نہ ہونے کے قول کو تقویت پہنچتی ہے چنانچہ طبری نے لکھا
ہے کہ اعلان جنگ کے بعد طالوت نے اپنی فوج میںاعلان کیا تھاکہ جو شخص جالوت کو قتل
کرے گا میں اس کو اپنی لڑکی کا رشتہ بھی دوں گا اوراس کے نام کا سکہ بھی جاری کروں
گا جب حضرت داﺅد ؑ نے جالوت کو قتل کیا تو اس نے حسب وعدہ داﺅد ؑ کو لڑکی بیاہ دی اور
ان کے نام کا سکہ بھی جاری کردیا اورحضرت داﺅد ؑ نے اپنی خداداد استعداد
سے جب لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیا تو ان کی مقبولیت عامہ سے گھبرا کرطالوت نے
اپنے اقتدارکی بحالی کے لئے ان کو اپنے راستہ سے ہٹانے کی ٹھان لی اوراسی قلبی قوت
کو عمل میں لانے کے لئے اس نے بنی اسرائیل کے کافی علمامروا ڈالے تاکہ اس بہانہ سے
کسی وقت حضرت داﺅد ؑکو بھی قتل کروادیا جائے لیکن اللہ نے اس کے
ارادہ سفاسدہ کو پنپنے نہ دیا، چنانچہ ایک آنے والی جنگ میں طالوت خود دشمن کے
ہاتھوں مارا گیا اورحضرت داﺅد ؑ جو نائبُ السلطنت کے عہدہ پرپہلے فائز تھے
حکومت کاتاج ان کے سر پر رکھاگیا اوروہ طالوت کے بعد مملکت اسرائیل کے مطلق
فرمانروا ہو گئے۔