التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

نمازِ وسطیٰ کی تاویل

نمازِ وسطیٰ کی تاویل
7 min read
نمازِ وسطیٰ کی تاویل
ہم نے تفسیر ہذا کی جلد اوّل یعنی مقد مہ تفسیر میں کئی عنوانات کے تحت اشارةً وصراحتًا اس مطلب کو ظاہر کیا ہے کہ تمام اعمال کی اصل معرفت ہے اورمعرفت کے بغیر اعمال شرف قبولیت کو نہیں پہنچ سکتے۔
چنانچہ مفضل بن عمر کی روایت کے آخری فقرات یہ ہیں کہ حضرت امام جعفر صادقؑ نے فرمایا معرفت امام اصل ہے اورجملہ عبادات اس کی فرع ہیں یایوں سمجھئے کہ معرفت امام باطن اورتمام عبادات اس کا ظاہر ہیں، پس فرع اورظاہر کے بغیر اصل اورباطن سے تمسک پکڑنا سراسر غلط بلکہ شرک ہےاور دشمنی نبی وامام کی تمام برائیوں کی اصل ہے اورتمام برائیاں اس کی فرع ہے، پس جو شخص اصل سے نفرت کرتا ہو اوربرائیوں سے نفرت نہ کرے جو اس کی فروعات اوراس کی پیداوار ہیں تو وہ جھوٹا ہے کیونکہ دشمن امام سے نفرت کرنا اصل اورباطن ہے اورتمام برائیوں سے نفرت کرنا اس کی فرع اورظاہر ہے اوراصل کی پہچان فرع سے ہی ہوا کرتی ہے ہاں یہ بات کہ معرفت حاصل کرلو اورجو جی چاہے کرو درست ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ امام کی معرفت حاصل کرلینے کے بعد جتنی نیکی کرو مقبول ہے خواہ کم ہو یازیادہ اوربجز معرفت کے کوئی نیکی نیکی ہی نہیں انتہی
پس جب معلوم ہوا کہ معرفت ہر عباد ت اورعمل خیر کی روح ہے اوربغیر اس کے کوئی عباد ت عباد ت ہی نہیں خواہ وہ نماز ہو یا کوئی اورشئے ہو تو اس بنا پر قرآن مجید میں جس قدر اعمالِ خیر کا ذکر ہے ان کا باطن اہل بیت ؑ اطہار کی محبت قرار دینا بالکل درست ہے۔
چنانچہ مقدمہ تفسیر مراة الانوار میں بصائر الدرجات سے منقول ہے کہ حضرت امیر المومنین ؑ نے فرمایا کہ قرآن کی دوتہائی ہمارے اورہمارے شیعوں کے حق میں ہے پس جہاں بھی خیر کاذکر ہے وہ ہمارے اورہمارے شیعوں کےلئے ہے اورباقی تہائی میں دوسرے لوگ ہمارے ساتھ شریک ہیں اورجہاں بھی شرّ کا ذکر ہے وہ ہمارے دشمنوں کےلئے ہے۔
اوراسی کتاب میں کافی سے منقول ہے کہ حضرت امام محمد باقرؑ سے دریافت کیا گیا کہ کیا قرآن بولتا بھی ہے؟ آپ ؑ نے سائل سے فرمایاکہ ہاں نمازبھی بولتی ہے اس کی شکل وصورت بھی ہے وہ امر بھی کرتی ہے اورنہی بھی کرتی ہے، سعد خفاف راوی حدیث کہتا ہے کہ یہ سنتے ہی میرا رنگ فک ہو گیا پس میں نے عرض کیا کہ آپ ؑ نے ایسی بات فرمائی ہے جس کااظہا ر میں لوگوں میں نہیں کرسکتا آپ ؑ نے فرمایالوگ تو ہمارے شیعہ ہی ہیں پس جو شخص نماز کی معرفت نہیں رکھتا وہ ہمارے حق کامنکر ہے پھر فرمایااے سعد! خداوند کریم ارشاد فرماتا ہے اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُاللّٰہِ اَکْبَرُ تحقیق نماز نہی کرتی ہے فحشا اورمنکر سے اوراللہ کا ذکر اکبر ہے (پارہ نمبر۱۲)
پس نہی کرنا کلام ہی ہے اورفحشا ومنکر سے مراد کئی لوگ ہیں اورہم ذکرُ اللہ ہیں اورہم اکبر ہیں نیز اسی کتاب میں کتاب عِلل سے منقول ہے کہ حضرت امیر المومنین ؑ ایک مرتبہ صحن کعبہ سے گزر فرمارہے تھے کہ ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اوراس کی نماز کو اچھا پایا پس فرمانے لگے اے شخص! کیا تو اپنی نماز کی تاویل کو جانتا ہے؟  اس نے عرض کیا اے سید کائنات کے برادر! کیا عبادت گزاری کے علاوہ نماز کی کوئی دوسری تاویل بھی ہے؟ آپ ؑ نے فرمایااے شخص! جان تحقیق اللہ تبارک وتعالیٰ نے جناب رسالتمآب کو مبعوث نہیں فرمایا ساتھ کسی ایسے امرکے جس کی شبیہتاویل اورتنزیل نہ ہو اوریہ سب کچھ اطاعت کے ماتحت ہے، پس جو شخص اپنی نماز کی تاویل کو نہیں سمجھتا تو اس کی نماز ناقص اورنامکمل ہے (صاحب مقدمہ اس کی توجیہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ تاویل سے مراد باطن اورتنزیل سے مراد ظاہر ہے) مقصد یہ ہے کہ جناب رسالتمآب جس قدر اَوامر ظاہر یہ لائے ہیں ان کی شبیہ اورمثال ضرور ہے جو باطن کے لحاظ سے مامور اورواجب العمل ہے اوران ہر دو پر ایمان لانا ضروری ہے پس جو شخص نماز کے باطن کو نہ پہچانتا ہو جس سے مراد امام اوراس کی اطاعت ہے تو اس کی نماز ظاہر یہ ناقص ہے۔
باقی تمام عباداتِ بدنیہ میں سے نماز افضل عبادت سے اوراس اہم عبادت کو محمد و آل محمد کے علاوہ کسی نے بھی کامل طریقہ پر ادا نہیں کیا کیونکہ نماز ان کی جان تھی اوریہ نماز کی جان تھے شب وروز میں ایک ہزار رکعت نافلہ کاادا کرنا انہی کا کام تھا نما زمیں مشغول ہو کر اس قدر محو ہوجانا کہ لوگ سمجھیں دنیاسے گزر گئے گویا نماز اوریہ کالب وجان تھے اوران کے خدوخال ان کے رنگ ڈھنگ ان کے گفتار وکردار اوران کی رگ وپے میں نماز کے آثار ظاہر وہویداتھے ان کے جسم کابال بال خون کا قطرہ قطرہ بدن کی رگ رگ نماز وجملہ عباداتِ الٰہیہ کا مجسمہ تھا، ابتداءً دنیا میں تشریف لائے تو گودِ مادر میں مقام نہ کیا جب تک پہلے سر سجود نہ ہولئے اورجب دنیا کو آخری الوداع کہا تو نماز کے لباس میں پس اس کمال قرب کی وجہ سے گویا یہ نماز کا وجود تھے اورنماز ان کاوجود تھی۔
نیز نماز بلکہ جملہ عبادات کی مقبولیت کےلئے ان کی وِلاومحبت شرط ہے اوراس کے بغیر اعمال کی مقبولیت مشکل بلکہ محال ہے کیونکہ انہی کی وِلادرحقیقت نماز کادرس دیتی ہے اورنماز کاطریقہ سکھاتی ہے، اس مطلب کو میں نے جلد اوّل میں ایک مستقل عنوان کے ماتحت قدرے تفصیل سے بیان کیاہے پس انہی وجوہات کی بنا پر باطن قرآن میں نماز سے مراد یہی ہےں۔
مقدمہ تفسیر میں باب الصاد میں بعض کتب امامیہ سے منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادقؑ نے راوی حدیث دادبن کثیر سے فرمایا اے داود! اللہ کی کتاب میں نماز ہم ہیں زکوة ہم ہیں روزہ ہم ہیں حج ہم ہیں شہرحرام ہم ہیں بلدُالحرام ہیں کعبةُ اللہ ہم ہیں قبلةُ اللہ ہم ہیں اور وجہُ اللہ ہم ہیں الخبر
نیز حضرت امیر المومنین ؑسے اِسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلْٰوةِ وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَة اِلاَّعَلَی الْخَاشِعِیْنَ کی تاویل میں منقول ہے کہ صبرسےمرادجناب رسالتمآب ہیں اور صلوة (نماز )سےمرادمیری ولایت کاقائم کرناہے۔
اسی بنا پر تو خدا نے نمازکے متعلق فرمایا ہے کہ یہ بھاری ہے اوراس کی طاقت صرف خشوع کرنے والوں کو ہوگی اورخاشعین ہمارے شیعہ ہی ہیں اورصبر کو بھاری نہیں کہا گیا ( کیونکہ رسالت کا قائل تو ہر مسلمان ہے)
بروایت عیاشی حضرت امام محمد باقرؑ سے منقول ہے کہ لَاتَجْھَرْ بِصَلٰوتِکَ کی تاویل یہ ہے کہ علی ؑ کی وِلاکا ابھی اعلانیہ بیان نہ کرو یہانتک کہ میر احکم آئے اورلاتُخَافِتْ بِھَا کی تاویل یہ ہے کہ اس کو بالکل چھپا نہیں بلکہ علی ؑ کو اس کی خبردے دو۔
نیز امام علیہ السلام سے آیت زیر بحث کی تاویل یوں منقول ہے کہ حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ میں صلوات سے مراد حضرت رسالتمآب حضرت امیر المومنین ؑحضرت فاطمہ ؑ حضرت حسن ؑ اورحضر ت حسین ؑ ہیں اورنماز وسطیٰ سے مراد صر ف حضرت امیرالمومنین ؑ ہیں اورقَانِتِیْن سے مراد ہے آئمہ کی اطاعت کرنے والے مقصد باطنی طور پر یہ ہوا کہ محمد وآل محمد کی وِلااورمحبت کو اپنے پاس محفوظ رکھو خصو صاً وِلائے علی ؑ اوراللہ کے سامنے ان کی اطاعت کرتے ہوئے اوران کے نقش قدم پر گامزن ہوتے ہوئے پیش ہوا کرو۔
اقول: حضرت علی ؑ کے متعلق زیادہ تاکید کامطلب یہ ہے کہ چونکہ مسلمانوں میں اختلاف اسی بزرگوار کی وجہ سے پیدا ہوتا تھا اس لئے خدانے اس کو خصوصیت سے بیان فرمایا ورنہ ان سب کی محبت ووِلا ایک دوسرے سے جدانہیں ہے۔
نیز امام جعفر صادقؑ سے لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْن جہنمیوں کا جواب کہ ہم نمازی نہیںتھے کی تاویل میں ہے کہ آپ ؑ نے فرمایاکہ وہ کہیں گے چونکہ ہم آئمہ کی اطاعت نہیں کرتے تھے اس لئے جہنم میں ڈال دیئے گئے ہیں۔
پس ان تمام احادیث کے نقل کرنے کامطلب یہ ہے کہ آئمہ طاہرین عباداتِ ظاہریہ کا باطن ہیں اورنماز وسطیٰ جس کی تاکید کی گئی ہے ظاہرسے گونماز ظہر ہے لیکن باطن کے لحاظ سے وِلائے امیر المومنین ؑ مراد ہے اوراسی پر چونکہ تمام نمازوں کی مقبولیت کا دارومدارہے لہذا س کو خصوصی تاکید کے ساتھ ذکر فرمایا لیکن ابتدامیں نے حضرت امام جعفر صادقؑ کے فرمان سے نقل کیا ہے کہ صرف وِلائے اہل بیت ؑ کا دعوےٰ کرکے عباداتِ ظاہر یہ سے منہ پھیر نا ناجائز ہے وِلااہل بیت ؑ اصل ہے اورعبادات اس کی فرع ہیں اوراصل بغیر فرع کے نہیں ہوتی اورظاہر وباطن ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے اوراس مطلب کی مزید تفصیل تفسیر ہذا کی جلد اوّل میں قرآن کے ظاہر وباطن کے عنوان میں اورتاویل قرآن اورعباداتِ ظاہریہ کے بیان میں موجودہے ملاحظہ فرمائیے۔

ایک تبصرہ شائع کریں