وَ
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ
ھُوَ اَذًیلا فَاعْتَزِلُوا النِّسَآئَ
فِی الْمَحِیْضِ وَ لا تَقْرَبُوْھُنَّ
حَتّٰی یَطْھُرْن فَاِذَا تَطَھَّرْنَ
فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ
اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ
التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ
(222)
ترجمہ:
آپ
سے پوچھتے ہیں حیض کے متعلق فرما دیجئے
کہ وہ نجس ہے پس علیحدہ رہو عورتوں سے
اثنائے حیض اور نہ نزدیک جاﺅ
ان کے یہاں تک کہ پاک ہو لیں پس جب پاک ہو
لیں تو آﺅ
ان پر جہاں سے امر کیا تم کو خدا تعالیٰ
نے تحقیق خدا دوست رکھتا ہے توبہ کرنے
والوں کو اور دوست رکھتا ہے پاک بازوں کو
o
رکوع
نمبر12
حیض
کابیان
یَسْئَلُوْنَکَ:
اس
کے شانِ نزول کے متعلق ہے کہ ایام جاہلیت
میں یہ دستور تھا کہ لوگ اپنی عورتوں سے
حیض کے دنوں میں بالکل علیحدہ ہوجایا کرتے
تھے اوران کے ساتھ کھانا پینا بیٹھنا ترک
کردیتے تھے پس انہوں نے جناب رسالتمآب سے
اس بارے میں سوال کیا تو یہ آیت اتری۔
فَاعْتَزِلُوْا:
ایام
حیض میں عورت کے ساتھ جماع کرنا حرام ہے
اگر کوئی شخص عمداًایساکرے تو اس پر کفارہ
واجب ہے، اگر حیض کے پہلے حصہ میں مجامعت
کرے تو اس کاکفارہ ایک دینار اوراگر درمیان
میں کرے تو اس کاکفارہ نصف دینار اوراگر
آخر حصہ میں کرے تو اس کاکفارہ دینار
کاچوتھا حصہ ہے۔
مسئلہ
ایام
حیض میں مجامعت کے علاوہ عورت سے بوس
وکناروغیرہ جائز ہے البتہ زیر ناف اس سے
استمتاع حاصل کرنا مکروہ ہے یعنی اس کو
ہاتھ لگانے سے بھی گریز کرے۔
حَتّٰی
یَطْھُرْنَ:
اس
لفظ کو بعض قاریوں نے یَطَّھَّرْنَ شدّ
کے ساتھ پڑھا ہے اگر بغیر شدّ کے پڑھا جائے
تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ عورتوں سے مقاربت
نہ کرو جب تک کہ خون سے پاک نہ ہوجائیں اور
شدّ کے ساتھ پڑھنے کی صورت میں معنی ہو گا
کہ عورتوں سے مجامعت نہ کرو جب تک کہ خون
ختم ہونے کے بعد غسل نہ کرلیں۔
مسئلہ
خونِ
حیض ختم ہوجانے کے بعد اورغسل سے پہلے
عورت کے ساتھ مجامعت کرناجائز ہے لیکن
غسل سے پہلے مکروہ ہے لہذ ا بہتر ہے کہ غسل
سے پہلے مجامعت نہ کرے اور بعض علماکے
نزدیک غسل سے پہلے عورت کے ساتھ مجامعت
کرنا حرام ہے فَاِذَا تَطَھَّرْنَ یعنی
جب خون سے پاک ہوجائیں یاغسل کرلیں تو ان
کے پاس آﺅ
یعنی مجامعت کرو اوران کے پاس آنے کا امر
وجوب کے لئے نہیں ہے بلکہ اباحت کےلئے ہے
مقصد یہ ہے کہ اب تمہارے لئے جائز ہے کہ
ان کے ساتھ مجامعت کرو۔
مسئلہ
خونِ
حیض کم از کم تین اورزیادہ سے زیادہ دس دن
آتا ہے اورہر تندرست عورت کو ایک ماہ میں
ایک دفعہ آتاہے اورایک حیض سے دوسرے حیض
تک کم ازکم مدت دس دن ہے اگر ایک حیض کے
بعد دس دن گزرنے سے پہلے کوئی خون آجائے
تو وہ یقینا استحاضہ کا خون ہوگا اورحائض
عورت کے احکام یہ ہےں:
(1) وہ
عبادات جن میں طہارت شرط ہے مثلاًنماز
روزہ وغیرہ حیض والی عورت پر ان کابجالانا
حرام ہے
(2) اللہ
تعالیٰ کے اسماطاہرہ کو مس کرنااس پر حرام
ہے بلکہ انبیائے طاہرین اورآئمہ معصومین
کے ناموں کو مس کرنے سے بھی پرہیز کرے نیز
قرآن مجید کے حروف حرکات سکنات وغیرہ
کوبھی مس نہیں کرسکتی
(3) وہ
آیات جن میں سجدہ واجب ہے حائض عورت پر ان
کاپڑھنا حرام ہے بلکہ سورہسجدہ کے پڑھنے
سے بھی اجتناب کرے
(4) مساجد
میں ٹھہرنا اس کےلئے حرام ہے
(5) کوئی
چیر مسجد میں رکھنا اس کےلئے حرام ہے جبکہ
مستلزم دخول مسجد ہو
(6) مسجدالحرام
اورمسجد نبی ان دومسجدوں سے گزرنا بھی
حیض والی عورت پر حرام ہے
(7) حیض
والی عورت سے مجامعت کرنا حرام ہے اور
بصورت مجامعت کفارہ واجب ہے
(8) حیض
والی عورت کوطلاق دینا ناجائز ہے بشرطیکہ
مدخولہ ہو ، حاملہ نہ ہو، مرد حاضر ہو یعنی
عورت کے حالات سے مطلع ہونا اس کےلئے آسان
ہو اوران شرائط کے نہ پائے جانے کی صورت
میں حیض والی عورت کوطلاق دی جاسکتی ہے
یعنی اگر عورت مدخولہ نہ ہو یامدخولہ
حاملہ ہو یایہ کہ مرد کےلئے اس کے حالات
سے مطلع ہونادشوار ہو ان حالتوں میں عورت
کو طلاق دینا جائز ہے خواہ ایام حیض ہی
میں کیوں نہ ہو
(9) خون
کے اختتام کے بعد غسل حیض عباداتِ مشروطہ
باطہارت کےلئے واجب ہوا کرتاہے۔
مسئلہ
غسل
حیض کی کیفیت مثل غسل جنابت کے ہے یعنی
اگر ارتماسی ہو تو نجاست دور کرنے کے بعد
نیت کرکے ایک دفعہ غوطہ لگانا کافی ہے
اوراگر غسل ترتیبی ہے تو نجاست دور کرنے
کے بعد نیت کرکے پہلے سراورپھر دایاں حصہ
اورپھر بایاں حصہ بدن پر پانی کو جاری کرے
اس طرح کہ کوئی جگہ خشک نہ رہ جائے۔
مسئلہ
عورت
کے وہ زیوارت جو چمڑے تک پانی پہنچنے سے
مانع ہیں غسل کے وقت ان کااُتارنا واجب
ہے تاکہ پانی چمڑے تک پہنچ جائے ورنہ غسل
باطل ہوگا۔
مسئلہ
ناخن
پالش جس کاعورتوں میں آج کل عام رواج ہے
اس کی موجودگی میں غسل کی صحت مشکل ہے
کیونکہ ناخن کے اوپر ایک علیحدہ پردہ
ساہوتا ہے جوناخن تک پانی پہنچنے سے مانع
ہے۔
مسئلہ سر
کے بال اگر گندھے ہوں اورپانی جسم تک
پہنچنے سے مانع ہوں تو ان کاکھولنا بوقت
غسل واجب ہے۔
مسئلہ غسل
حیض سے پہلے یابعد وضو کرنا عبادت کےلئے
ضروی ہوا کرتاہے اوربہتر ہے کہ وضو بقصد
قربت پہلے کیا جائے۔
مسئلہ غسل
کے بعد عورت پر وہ سب چیزیں حلال ہو جائیں
گی جو بوجہ حیض کے اس پر حرام تھیں سوائے
ان عبادات کے جو مشروط باطہارت ہیں کیونکہ
ان کےلئے وضو بھی ضروری ہے خواہ غسل سے
پہلے کرے یابعد کرے لیکن پہلے کرنا بہتر
ہے۔
مسئلہ اگر
غسل کرنا کسی وجہ سے ممکن نہ ہوتو تیمم
بدلے غسل کے کرنا چاہیے اوراگر وضو بھی
ناممکن ہو تو دوسرا تیمم بدلے وضوکے کرنا
ضروری ہے۔
(10) ایام
حیض میں عورت سے جو نمازیں ترک ہوئی ہیں
ان کی قضاواجب نہیں لیکن جوروزے قضا ہوئے
ہوں ان کی قضا واجب ہے۔
(11) جو
عورت طہارت ونجاست کی پرواہ کرنے والی نہ
ہو اور ایام حیض میں اپنے لباس وبدن وغیرہ
کو آلودگی سے بچانے میں احتیاط نہ کرتی
ہو ایسی عورت کی جوٹھی چیز (پس
خوردہ)
استعمال
کرنا مکروہ ہے، اسی طرح حیض والی عورت
کےلئے مہندی لگانا سجدہ والی سورتوں کے
علاوہ اورقرآن کے حروف کے علاوہ اوراق کی
خالی جگہوں کو یاجلد کو مس کرنا مکروہ ہے۔
مسئلہ اگر
ایام حیض میں عورت مرجائے تو اس کوغسل حیض
دینے کے بعد غسل میت دیا جائے۔
مسئلہ اگر
وقت نماز داخل ہونے کے بعد اتنی مقدار گزر
جائے کہ وہ باشرائط نماز پڑھ سکتی ہو اوراس
کے بعد اس کو حیض شروع ہوجائے تو اس پر اس
نماز کی قضاواجب ہے اسی طرح اگر آخروقت
میں حیض ختم ہوجائے اوراتنا وقت باقی ہو
کہ غسل اورباقی نماز کی شرائط حاصل کرنے
کے بعد ایک رکعت نماز وقت کے اندر ادا
کرسکتی ہو لیکن نہ کرے تو اس پر اس نماز
قضا واجب ہے۔
مسئلہ منجملہ
علاماتِ بلوغ کے عورت کو حیض کاآنابھی
ایک علامت ِبلوغ ہے۔
مسئلہ ایام
حیض میں اگر چہ عورت پر نماز معاف ہے لیکن
اس کےلئے مستحب ہے کہ وقت نماز وضوبقصد
قربت کرکے مصلائے عبادت پر بیٹھ کرنماز
کی مقدار کے برابر ذکر خداکرتی رہے۔
مسئلہ ہر
عورت بالغہ پر واجب ہے کہ مسائل حیض سیکھے
اور ان پر عمل کرے۔
مسئلہ حیض
کے دنوں میں عورت پر روزہ رکھنا حرام ہے
مگر اس کی قضا واجب ہے۔
مسئلہ
اگر
روزہ دار عورت کو غروب آفتاب سے پہلے حیض
شروع ہو جائے تو اس کاروزہ باطل ہوجائے
گااوراس کی قضالازم ہوگی۔
مسئلہ حیض
والی عورت بیت اللہ کاطواف نہیں کرسکتی
کیونکہ بیت اللہ مسجد الحرام کے اندر ہے
اورمسجد میں اس کاداخل ہونا ممنوع ہے۔