مسئلہ عدل اسلامی
چونکہ ازدواجی زندگی کی بنا اتحاد وتعاون
اور اصلاحِ تمدن پر ہے لہذا اس بارے میں تشدد اورزبردستی خواہ مرد کی طرف سے ہو یا
عورت کی جا نب سے ہو انسانیت پر ظلم عظیم ہے ابتدائے عقد میں اگر تشدد یازبردستی
کو عمل میں لایا گیا تو سرے سے عقد ہی فاسد ہے اورایسے عقود کو قرآنی عدلیہ قطعاً
ناقابل تسلیم قرار دیتی ہے اورعقد کے وقوع کے بعد باہمی ازدواجی دور میں اگر خلافِ
عدل کوئی بات مرد یاعورت کی جانب سے وقوع پذیر ہو تو شرعی طور پر جرم عظیم ہے، صرف
مرد کے لئے ضروری نہیں کہ وہ عدل کا مظاہرہ کرے بلکہ جس طرح مرد پر عورت کے حقوق
سے عہدہ برداری ضروری ہے اسی طرح عورت پر بھی مرد کے حقوق کی پاسداری واجب ہے،
جولوگ مرد کے لئے تعدد ازواج کے مسئلہ کی تردید کرتے ہیں وہ ظاہر اً یہی آڑلے کر
شرعی قانون سے نبرد آزماہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ مرد پر
عورتوں کے درمیان عدل کی حدود کیا کیا ہیں؟ اور یااس صورت میں عورتوں پر بھی کوئی
فریضہ عائد ہوتاہے یا نہیں؟
جہاں تک شرعی ذمہ داری کا تعلق ہے مرد پر
عورتوں کے نان ونفقہ اورمکان و رہائش کا انتظام ضروری ہے، مرد پر یہ ضروری نہیں کہ
اپنی تمام منکوحہ عورتوں کے نان ونفقہ اورمکان و رہائش میں بھی ہرحیثیت سے مساوات
رکھے البتہ اس پر مجموعی طور سے ان کی ضروریات کی تکمیل ضروری ہے جوان کے مناسب
حال ہواورسب کے لئے ایک صنف کا کپڑا ایک نوع کاکھانا اورایک قسم کامکان وغیرہ
خودساختہ مسائل میں سے ہے جس کی شریعت ذمہ دار نہیں ہے، اوراسی طرح مرد پر واجب ہے
کہ عورتوں پر شب باشی کو تقسیم کرے اوراس بارے میں کسی کی حق تلفی نہ کرے، البتہ
مباشرت وہمبستری کی مساوات ضروری نہیں نیز محبت وچاہت میں بھی برابری ضروری نہیں
کیونکہ یہ ایک قلبی چیز ہے اورہوسکتا ہے کہ ایک سے محبت زیادہ ہواوردوسری سے کم جس
طرح کہ حضرت عائشہ کے متعلق کہاجاتاہے کہ آنحضورکی ان سے زیادہ محبت تھی، ہاں
ظاہری حقوق واحکام ومعاملات میں شرعی متعینہ حدود سے باہر قدم نہ رکھا جائے، اسی
طرح عورتوں پر بھی لازم ہے کہ وہ ہر لحاظ سے مرد کی مرضی سے قدم آگے نہ بڑھائیں
اگر وہ مرد کوخواہ مخواہ تنگ کریں بات بات پرمرد سے نبرد آزمائی اپنا شیوہ بنالیں
معمولی معمولی باتوں میں اُلجھ کر جھگڑا کرنے کی عادت بنالیں ہرمعاملہ میں مرد کو
موردِطعن وتشنیع قرار دیں اور اس کی عدالت وانصاف پر نکتہ چینی کریں تو شرعی قانون
عورتوں کی اس قسم کی ہنگامہ آرائیوں اورشرپسندیوں سے ہرگز گردن زدنی نہیں ہوسکتا۔
عورت پر پردہ داری امور خانہ داری بچوں کی
پرورش ونگہداری وغیرہ کی ذمہ داری ہے جوکہ اس کی جسمانی و وضعی ساخت اورفطری پر
داخت سے عین موزوں ومناسب ہے اوراس کے مقابلہ میں مرد حاکمانہ حیثیت سے عورت کے
جملہ اخراجاتِ ضروریہ کاذمہ دار ہے، نیز محکومانہ حیثیت سے وہ عدل وانصاف کے پیش
نظر خانگی منافع سے بہرہ اندوز ہونے کا حق رکھتی ہے اورمرد حاکمانہ حیثیت سے خانگی
کلی وجزئی امور میں مالکانہ اختیارات کاحامل ہے۔
وقوعِ نکاح میں اگرچہ طرفین کی رضامندی
ضروری ملحوظ رکھی گئی ہے لیکن مرد کی حاکمانہ پوزیشن کے ماتحت ازدواجی سلسلے کے
توڑنے کا حق صرف مرد کو دیا گیا ہے کیونکہ مرد کی ذہنی صلاحیتیں عورت کی ذہنی
صلاحیتوں سے کہیں زیادہ ہیں اورازدواجی مصالح کو جس طرح مرد سمجھ سکتاہے عورت نہیں
سمجھ سکتی اسی لئے یہ فیصلہ مردکے ہاتھ میں دیا گیا ہے، ہاں بعض نااہل مردوں کی
طرف سے قانون شرع کی توہین کے مظاہرات قانون کی خرابی کے موجب نہیں ہوسکتے۔
وراثت میں عورت کو مرد سے نصف دیا جاتاہے
لیکن اس کے مقابلہ میں عورت کاخرچہ مرد پر عائدکیا گیاہے، طلاق کے بعد جس طرح مرد
کے لئے دوسری عورت سے نکاح جائز ہے اسی طرح عورت کےلئے دوسرا شوہر جائزہے۔