سوال وجواب
یہ آیت بتلاتی ہے کہ مومنین پر حکم جہاد گراں تھا اوروہ دل سے اس کو نہ چاہتے تھے حالانکہ دوسرے مقا م پر مومنین کی جو مدح و ثنا کی گئی ہے اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ مومنین راہ خدامیں جان ومال بلکہ ہر قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرتے ہونگے جیسا کہ تاریخ کے صفحات اس امر کے شاہد ہیں اوراس کے تین جواب دیئے گئے ہیں:
(1) مومنین کے دوگروہ تھے ایک وہ جو اپنے ایمان میں صادق تھے اوراسلام کی حقانیت وصداقت ان کے دلوں کی گہراہیوں میں اتری ہوئی تھی وہ خداورسول کے ہر حکم پر مٹنے والے تھے اورقرآن مجید میں جہاں جہاں مومنین کی دقیع الفاظ میں مدح کی گئی ہے اس سے مراد یہی طبقہ ہے اوردوسرے وہ تھے جو ظاہر طور پر دعویٰ ایمان کرتے تھے لیکن ان کی زبان پر کلمہ حق کا جاری ہونا ان کی دل کی آواز نہیں تھا اوراکثر مقامات پرایسوں کی قدح بھی کی گئی ہے اوران کو عتابانہ خطاب سے بھی مخاطب کیا گیا ہے چنانچہ جنگ اُحد بدر خند ق کی آیات اس کی گواہ ہیں پس یہاں بھی جن کی طرف جہاد کی کراہت منسوب ہے وہ یہ گروہ ہے۔
(2) ابتدائے اسلام میں چونکہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی اسلحہ جنگ بھی ناکافی تھا اورکفار میں جنگی اسلحہ اورباقی فوجی طاقت کی کمی نہ تھی لہذااسلام کا حلقہ بگوش طبقہ دل سے اس امر کاخواہاں تھا کہ جنگ کو موخر کردیا جائے یہانتک کہ مسلمانوںکا حلقہ وسیع ہوجائے اورفوجی قوت دشمن کے مقابلہ میں درجہ کمال کو پہنچ جائے تاکہ مقابلہ کے بعدناکامی کی رسوائی سے دوچار نہ ہونا پڑے پس ان کااس وقت جنگ کوناپسند یدہ نگاہوں سے دیکھنا اسلام کی سربلندی کےلئے تھا تو خداوندکریم چونکہ انجام سے دانا بینا ہے اس نے ان کے اس نظریہ کی تردید اس لہجہ میں فرمائی کہ مجھے انجام معلوم ہے اورتمہیں معلوم نہیں اورگویاجس چیز کو تم ناپسند کررہے ہو یعنی فوری جہاد اسی میں تمہاری بھلائی کاراز مضمر ہے۔
(3) مومنین جہاد کے حکم کو بزدلی کی بنا پرناپسند نہیںکرتے تھے بلکہ ان کو وسعت اسلام محبوب تھی وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسا طریقہ نکل آئے کہ بجائے قتل وغارت کے ان کفار کو اپنے ساتھ ملالیا جائے تو نفوسِ انسانیہ ہلاکت سے بچ جائیں گے اوردوسری طرف اسلام کے دائرہ میں وسعت ہوجائے گی، پس خدوندکریم نے ان کو اس طرح سے ردّفرمایاکہ میں چونکہ راز ہائے دل سے واقف ہوں اورتمہیں پتہ نہیں ہے تم خواہ کتنی ہی کوششیں کرو خاک فائدہ نہ ہوگا کیونکہ وہ حسد وعناد کی بنا پر اسلام کے حلقہ بگوش ہر گز نہ ہوں گے اورہٹ دھرمی کو کسی قیمت پر نہ چھوڑیں گے اوردریں حالات چونکہ ان کاتخریبی پہلو نوع انسانی کےلئے وبال زندگی ہے اورامن عامہ کےلئے پیغام موت ہے لہذاافراد کو نوع پر قربان کرنا اس سے بہتر ہے کہ افراد کی خاطر نوع انسانی کو خطرہ میں ڈال دیا جائے اس کی مثال بدن انسانی کے اس عضو فاسد کی سی ہے جس میں کوئی علاج کار گر نہ ہواوربدن کی سلامتی کا دارومدار اس کے کاٹ دینے میں ہو لہذا ان سے ایمان کی تو قع رکھنا اوراصلاح کی امید کرنا فضول ہے بلکہ ان کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا ہی اسلام کی سربلندی اور دین خدا کی سرفرازی کا موجب ہے پس چونکہ وہ جہاد سے گریزاں اور صلح کے خواہاں تھے تو خدا نے ان کے ہر دو نظریوں کی اپنے علم اور ان کی لاعلمی کے حوالے سے تردید فرما دی اور اسی نکتہ کے پیش نظر لفظ ”عَسٰی“ کا تکرار بھی فرمایا ہے۔