مومن کاکافر سے رشتہ ناجائز ہے
وَ
لا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی
یُومِنَّ وَلَاَمَة مُوْمِنَة خَیْر
مِّن مُّشْرِکَةٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْکُمْوَلا
تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی
یُومِنُوا وَلَعَبْد مُّوْمِن خَیْر
مِّن مُّشْرِکٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکُمْ
اُوْلٰٓئِکَ یَدْعُوْنَ اِلٰی النَّارِصلے
وَاللّٰہُ یَدْعُوْآ اِلٰی الْجَنَّةِ
وَالْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِہ وَ یُبَیِّنُ
اٰیٰتِہ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ
یَتَذَکَّرُوْنَ (221)
ع
ترجمہ:
اورنہ
نکاح کرو مشرکہ عورتوں سے یہانتک کہ ایمان
لائیں اورالبتہ مومنہ لونڈی بہتر ہے مشرکہ
آزاد عورت سے اگرچہ وہ تمہیں بھلی معلوم
ہو اورنہ نکاح کرو مشرکوں کو (
مومنہ
عورتیں )
یہانتک
کہ وہ ایمان لائیں اورالبتہ غلام مومن
بہتر ہے (آزاد)
مشترک
سے اگرچہ وہ تم کو پسند بھی ہو (کیونکہ)
وہ
لوگ وعوت دیںگے طرف دوزخ کے اورخدا دعوت
دیتاہے طرف جنت اوربخشش کے ساتھ اپنے اذن
کے اوربیان فرماتا ہے اپنی آیات کو لوگوں
کےلئے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریںo
مومن
کاکافر سے رشتہ ناجائز ہے
وَلا
تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ:
اس
آیت کے شانِ نزول کے متعلق صاحب مجمع
البیان نے تحریرفرمایا ہے کہ ایک شخص مرثد
ابن ابی مرثد غنوی کو جناب رسالتمآب نے
مکہ روانہ کیا تاکہ وہاں سے مسلمانوں کو
نکال کر مدینہ منورہ کی طرف لائے اوریہ
طاقتور اوربہادر آدمی تھا پس جب یہ مکہ
میں پہنچا تو اس نے اپنا کام شروع کردیا
وہاں ایک عورت تھی جس کانام عناق تھا زمانِ
کفر وجاہلیت میں مرثد بن ابی مرثد کے اس
عورت سے ناجائز تعلقات تھے جب اس عورت کو
مرثد کے مکہ میں پہنچنے کی خبر ہوئی تو وہ
اس کے پاس آئی اوراس سے فعل بد کے ارتکاب
کی خواہش کی لیکن اس نے زناکرنے سے انکار
کردیا پھر اس عورت نے خواہش کی کہ میرے
ساتھ نکاح کرلو مرثد نے جواب دیاکہ جب تک
میں جناب رسالتمآب سے اجازت نہ لوں گا
تیرے ساتھ نکاح بھی نہیں کرسکتا پس جب
وہاں سے فارغ ہو کر واپس مدینہ آیا تو جناب
رسالتمآب سے اس عورت سے نکاح کرنے کی اجازت
طلب کی تب یہ آیت نازل ہوئی کہ مشرکہ
عورتوںکے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں ہے
خواہ آزاد مشرکہ عورت خوبصورت ہی ہو
اورتمہیں پسند بھی ہو۔
مسئلہ
مذہب
شیعہ کا متفقہ فتوےٰ ہے کہ کافرہ عورت
خواہ اہل کتاب سے ہو یا مشرکین سے اس کے
ساتھ نکاحِ دائمی کرناقطعاً نا جائز ہے
البتہ کافرہ کتابیہ کے ساتھ متعہ کرنا
جائزہے۔
وَ
لا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ:
مطلب
یہ ہے کہ مومنوں کےلئے جائز نہیں کہ مومنہ
عورتوں کو مشرکوں کے نکاح میں دیں تو گویا
مومنہ عورت کا نکاح کافر مرد سے خواہ اہل
کتا ب سے ہو نا جائز ہے اوریہ مذہب امامیہ
کا متفقہ فیصلہ ہے۔
اُوْلٰٓئِکَ
یَدْعُوْنَ اِلٰی النَّارِ:
مشرکوں
کافروں سے مومنہ عورت کے نکاح کے ناجائز
ہونے کی وجہ بیان فرمائی کہ چونکہ مرد
عورت پر غالب اورحاکم ہوتے ہیں جب مومنہ
عورت ان غیر مومن مردوں کے نکاح میں چلی
جائے گی تو غیر مومن مرد اپنی فطرتِ فاسدہ
اورطینت خبیثہ کے ماتحت اپنی زوجہ مومنہ
کودین حق کے ترک کرنے پر مجبور کریں گے
اور اگر وہ بالفرض مجبور نہ بھی کریں تو
چونکہ عورت نے محکومی کی زندگی بسر کرنی
ہے لہذا رفتہ رفتہ مرد کے اثرات قبول کرتے
کرتے اسی کے اعتقادات کو اپنالے گی اوردین
حق سے برگشتہ ہوجائے گی یایہ کہ مرد کی
خوشامد کےلئے اور اپنی زندگی کو راحت
وآرام سے بسر کرنے کےلئے دین حق کے ترک
کرنے پر مجبور ہوجائے گی جبکہ اس کو علم
ہو جائے کہ مرد کی محبت سوائے اس کے حاصل
ہوہی نہیں سکتی، پس ان وجوہات کے پیش نظر
خداوند کریم نے مومنہ عورت کانکاح کافر
اورغیر مومن مرد سے ناجائز قرار دے دیا
ہے اور وجہ یہ بیان فرمائی کہ وہ کافر
اورغیر مومن دوزخ کی طرف دعوت دیں گے
اورمیں اللہ جنت اوربخشش کی دعوت دیتا
ہوں لہذا ایسا رشتہ جس سے کفر کی دعوت میں
قبولیت کو تقویت پہنچتی ہو ترک کردیا جائے
اورمومنہ عورت کے ماں باپ غیر مومن مرد
سے اس کانکاح کرنے کی جسارت کریں گے تو اس
کاوبال اُخروی ماں باپ کے سر پر ہوگا اوراس
حکم کی وضاحت کے بعد قیامت کے دن ان کاکوئی
عذر نہ سناجائے گا اگر مومنہ عورت غیر
مومن مرد کے نکاح کی وجہ سے دین حق کو ترک
کرنے پر مجبور ہوگئی تو بروز محشر عذر
کرسکے گی کہ مجھے ماں باپ نے اس مصیبت میں
پھنسادیا تھا اورمیں مجبور تھی تو اس قسم
کے والدین کو قیامت کے دن جواب دہی کےلئے
تیار رہنا چاہیے۔
وجہِ
ربط آیات
احکامِ
فرعیہ میں سے پہلے اوامر کابیان فرمایا
مثلاًنماز روزہ زکوة حج جہاد وصیت قصاص
وغیرہ اوران احکام کے بعد نواہی کابیان
شروع کیا یعنی وہ چیزیں جن سے بچنے کاحکم
ہے پس ان میں سے زیادہ اہم امور کاذکر
فرمایا مثلاًشراب نوشی جوابازی یتیموں
کامال کھانااورمشرکوں کافروں (غیر
مومن لوگوں کے ساتھ)
رشتہ
ناطہ کرنا ان سب سے مومنوں کو بچنا واجب
ہے، ان مسائل کے بعد امور خانہ داری کی
طرف متوجہ فرماتے ہوئے مسائل زوجیت کوبیان
فرمایا۔