مطلقہ کی عدت کابیان
وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلثَةَ قُرُوٓئ وَلایَحِلُّ لَھُنَّ
اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیٓ اَرْحَامِھِنَّ اِنْ کُنَّ یُومِنَّ
بِااللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَبُعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِی
ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْآ اِصْلاحاً وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ
بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَة وَاللّٰہُ عَزِیْز حَکِیْم( 228 )ع
ترجمہ
اورطلاق شدہ عورتیں انتظار کریں تین طہر اوران کےلئے حلال نہیں کہ چھپائیں
وہ چیز جو پیدا کی ہے اللہ نے ان کے رحموں میں اگر ان کاایمان خداورقیامت کے دن پر
ہے اوران کے شوہر زیادہ حقدار ہیں ان کو پھیر لینے میں اس (عدت) میں اگر ارادہ
کریں اصلاح (درستی) کا اوران کا(مردوں پر حق ) ویسا ہی ہے جیسا ( مروں کاحق ) ان
پر ہے ساتھ نیکی کے اورمردوں کو ان پر درجہ ہے (فوقیت حاصل ہے) اوراللہ غالب حکمت
والاہے o
ثَلا ثَةَ قُرُوْئٍ: قروء جمع ہے قرء کی اوریہ لفظ لغاتِ اضدادہ میں شمار
ہوتا ہے یعنی اس کے دومعنی ایک دوسرے کی ضد ہیںقرء کامعنی حیض بھی ہے اوراس کامعنی
طہر بھی ہے۔
اس مقام پر علمائے امامیہ کا مذہب یہ ہے کہ قرء کا معنی طہر لیا جائے پس
طلاق شدہ عورت کی عدت تین طہر ہوگی، ایک طہر وہ بھی شمار ہوگا جس میں طلاق واقع
ہوئی ہو اوراس کے بعد دوطہر سالم جب گزریں گے اورتیسری مرتبہ اس کو حیض شروع ہوگا
تو پس عدت ختم ہوجائے گی اورآئمہ طاہرین علیہم السلام سے ایسا ہی مروی ہے، حنفیوں
کے نزدیک یہاں قرء سے مراد حیض ہے پس ان کے نزدیک طلاق کی عدت تین حیض ہے پس تیسرے
حیض کے ختم ہونے پر عورت کی عدت ختم ہوگی۔
فِیْ اَرْحَامِھِنَّ: جو کچھ ان کے رحم میںہے اس سے بعض نے مراد حیض لیاہے
اوربعض نے حمل مراد لیا ہے اورایک قول یہ ہے کہ مراد اس سے حیض اورحمل دونوں
ہیںاورلفظ کا عموم بھی اسی کاموید ہے اورحضرت امام جعفر صادقؑ سے بھی یہی مروی ہے
پس مطلب یہ ہے کہ طلاق کے بعد عورت کو اپنا حیض یاحمل چھپانا نہیں چاہیے (اگر اس
سے ان چیزوں کے بارے میں سوال کیاجائے تو اس کو صاف صاف بتا دینا چاہیے) اورحمل
یاحیض کی خبر میں عورت کاقول معتبر ہے اگر وہ اپنے آپ کو حائض بتلائے تو اس کو
حائض سمجھنا چاہیے اوراگر اپنے آپ کوحیض سے پاک بتلائے تو اس کو پاک سمجھنا چاہیے
اس پر اس سے مزید گواہ وغیرہ لینے کی ضرورت نہیں، اسی طرح اس کی اپنے متعلق حامل
ہونے یانہ ہونے کی خبر شریعت میں معتبر سمجھی گئی ہے پس طلاق شدہ عورت کوحیض یاحمل
کی حالت کے چھپانے سے ممانعت ہے کیونکہ اس کی عدت کے باقی ہونے یاگزرنے کادارومدار
اسی چیز پر ہے اگر عورت غلط بیانی کرے تو اس میں مرد کی حق تلفی ہے کیونکہ مرد کو
عدت کے اندررجوع کرنے کا حق حاصل ہے اورعورت کی غلط بیانی اورحقیقت پر پر دہ پوشی
مرد کو اپنے جائز حق سے محروم رکھنے کے مترادف ہے۔
اِنْ اَرَادُوْا اِصْلاحاً: اس کامطلب یہ ہے کہ طلاق کے بعد عدت کے اندر
مرد کو بغیر عقد ثانی کے عورت کی طرف رجوع کرنے کاحق حاصل ہے خواہ عورت رضامند ہو
یانہ ہولیکن بشرطیکہ مرد کی نیت اصلاح (خانہ آبادی) کی ہو اوراگر مرد کی نیت
فاسدہو یعنی محض عورت کو تنگ کرنے کےلئے طلاق کے بعد رجوع کررہاہو تاکہ وہ کسی
اورجگہ نکاح کرنے کے قابل نہ رہے تو ایسی صورت میں مرد کے لئے رجوع کرنا ناجائز ہے
اوراگر بالفرض مرد اسی فاسد نیت سے رجوع کرے بھی تو رجوع کاحکم صادق آجائے گا
اوروہ عورت اس کی منکوحہ ٹھہری رہے گی اگرچہ مرد پر ایساکرنا حرام ہے۔
عورت ومرد کے حقوق
وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ: یعنی عورتوں کے مردوں پرویسے ہی حقوق ہیں جس
طرح مردوں کے عورتوں پر لیکن مردوں کو ان پردرجہ (فضیلت) حاصل ہے خداوندکریم نے اس
آیت میں امور خانگی کی اصلاح اورعورت ومرد کی حسن معاشرت کونہایت جامع طریقہ پر
بیان فرمایاہے۔
مجمع البیان میں منقول ہے کہ معاذ کی عورت نے جناب رسالتمآب سے مرد پر عورت
کے حقوق دریافت کئے تو آپ نے فرمایاکہ مرد پر عورت کاحق یہ ہے کہ اس کے منہ پر
تھپڑ نہ مارے اس کے ساتھ بدزبانی نہ کرے جو خود کھائے اس کو کھلائے جوخود پہنے اس
کوپہنائے اوراس سے یکسوئی نہ اختیار کرے۔
نیز آپ سے مردی ہے کہ فرمایا عورت کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو اللہ کی امانت
میں تم نے ان کو حاصل کیاہے اوراللہ کے فرمان سے تم نے ان کے پوشیدہ مقامات پر
تصرف کیاہے تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے غیر کو اپنے جسم پر تصرف نہ کرنے
دیں اورایساکرنے سے وہ سزا کی حقدار ہیں اوران کا تم پر حق یہ ہے کہ ان کو روٹی
کپڑا خوش اسلوبی سے دیتے رہو۔
کتاب من لایحضرہ الفقیہ میں حضرت امام محمد باقرؑ سے مروی ہے کہ ایک عورت
جناب رسالتمآب کی خدمت میں حاضر ہوئی اوردریافت کیاکہ مرد کے عورت پر کیا حقوق
ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اس پر مرد کی اطاعت واجب ہے مرد کے اذن کے بغیر وہ گھر سے
کسی کو صدقہ نہ دے اورنہ اس کی اجازت کے بغیر سنتی روزہ رکھے اورنہ اپنے جسم سے
مرد کو روکے اگرچہ پالان شتر پر ہی کیوں نہ ہو اوربغیر اجازت مردکے گھر سے باہر نہ
جائے اوراگر بغیر اجازت مرد کے گھر سے باہر جائے گی تو آسمان وزمین کے فرشتے
اورغضب اوررحمت کے فرشتے اس پر لعنت کرتے رہیں گے جب تک کہ وہ گھر واپس نہ پہنچ
جائے۔
پھر اس عورت نے سوال کیا یارسول اللہ! لوگوں میں سے عورت پر زیادہ سے زیادہ
حق کس کا ہے؟ تو آپ نے فرمایاکہ شوہر کا، پھر اس نے پوچھا کہ کیا میرا حق بھی اس
پر ویسا ہی ہے جس طرح اس کامجھ پر ہے؟ آپ نے فرمایاکہ ایسا نہیں بلکہ اس کے مقابلہ
میں ایک سومیں سے ایک بھی نہیں پس یہ سنتے ہی عورت نے آپ کی نبوت کی قسم کھاتے
ہوئے کہا کہ میں ہر گز شادی نہ کروں گی ایک روایت میں کہ حضور نے فرمایا اگر مجھے
کسی کو سجدہ کرنے کاحکم دینا ہوتا تو البتہ میںعورت کوشوہر کے سجدہ کاحکم دیتا۔
دورِ حاضر میںعورت کی آزادی کاتصور
زمانِ حاضر میں مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر عورتیں اسلامی تعلیمات پر عمل
پیرا ہونے کو اپنے لئے توہین خیال کرتی ہیں کیونکہ مغرب کی اسلام کش مسموم
اورتندہوا ان کو مردوں کے دوش بدوش چلنے کی طرف مسلسل دھکیلے جارہی ہے اوراسلامی
تعلیمات سے برسر پیکار ہونے والے مرد بھی صرف اپنی خواہشاتِ نفسانیہ اورجذباتِ
شہوانیہ کی تسکین کی سہولت کی خاطر اسی قسم کے نعرے بلندکرتے نظر آتے ہیں حالانکہ
خداوندکریم نے عورت ومرد کو جوعلیحدہ علیحدہ خصوصیات عطافرمائی ہیں ان سے آگے قدم
بڑھانے کی جرات کرنا خدائی فیصلہ کوچیلنج کرنے کے مترادف ہے، اس نے اپنی حکمت
کاملہ سے عورت کے وجود کو ایسے سانچے میں ڈھالاہے کہ وہ گھر کے اندورنی کاروبار کو
سنبھالنے کی ذمہ داری کابوجھ ہی برداشت کرسکتی ہے اوراپنی چاردیواری کے اندر اپنے
فرائض کی ادائیگی ہی اس کے نمایاں مقام پر فائز ہونے کی دلیل ہے برخلاف اس کے مرد
کی ساخت اس نے ایسی رکھی ہے کہ وہ گھر یلوزندگی کے سنوار نے کے علاوہ بیر ونی میل
جول سے اپنے نمایاں کردارکے ذریعے اپنی خداداد استعدادکو عمل میں لاکر اپنے لئے
ایک بلند مقام حاصل کرے اورتعمیر اخلاق وکردار سے صحیفہ انسانیت سے حیوانیت
ودرندگی کے بدنماداغ دھوکر عالم میں امن وسکون کاعلَم بلند کرے۔
مولائے کائنات حلّالِ مشکلات حضرت امیرا لمومنین ؑ نے عورت ومرد کی پوزیشن
کو ایک مختصر سے جملہ میں یوں واضح فرمایاکہ حُسْنُ الرِّجَالِ فِیْ عُقُوْلِھِمْ
وَعُقُوْلُ النِّسَائِ فِیْ حُسْنِھِنَّ یعنی مردوں کاحسن ان کی عقلوں میں مضمر ہے
اور عورتوں کی عقلیں ان کے حسن کے پردہ میں ہیں (بحارالانوار ج۱)
اس جملہ کی کئی توجہیں ہوسکتی ہیں:
(1) مرد کے لئے جو ہر انتخاب جو اس کی امتیازی حیثیت کانشان
ہے وہ عقل ہے یعنی مرد عقل وخردسے ہی اپنی محبوبیت کاسکہ جماسکتا ہے اوراس کی
دانائی وعقلمندی ہی اس کاطرّہ کمال اورزیورِ حسن ہے لیکن بخلاف اس کے عورت کاجوہر
امتیاز جواس کی قدر وقیمت کاموجب ہے وہ حسن ہے یعنی عورت کی خوبصورتی ہی اس کی
محبوبیت کی علمبر دار ہے اور اس کاحسن وجمال ہی اس کی دلآویزی کی جان اوراس کی
برتری کانشان ہے
(2) مرد کے لئے مایہ ناز اورسرمایہافتخار عقل ہے اوراسی عقل
ودانش کے بل بوتہ پر ہی مرد دوسروں پر سبقت لے جانے کے اہل ہوتا ہے لیکن بخلاف اس
کے عورت کا معیارِ سبقت اورمدارِ رفعت حسن ہوتا ہے اوروہ صرف حسن وصورت کی بنا پر
ہی معرضِ افتخار میں قدم رکھ سکتی ہے
(3) مرد کے عقل ودانش سے اس کی حسن وخوبی منظر عام پر آتی ہے
لیکن عورت کے حسن منظر سے متاثر ہو کر اس کے عقل وخرد سے چشم پوشی کی جاتی ہے
(4) مرد کی دانشمندی اس کو اپنے فرائض سے روشناس کراتی ہے
اورعورت کاحسن اس کو اپنے فرائض سے غافل کرنے کاموجب بنتاہے
(5) مرد عقل کو اپنے مقبول عام ہونے کاذریعہ قرار دیتاہے
اورعورت کی عقل اس کو صرف اپنے حسن ظاہری کے اضافہ کی دعوت دیتی ہے، یعنی مرد کی
سوچ بچار اپنی دنیوی یااخروی فلاح وبہبود میں ہوا کرتی ہے جو اس کاحقیقی حسن ہے
اورعورت کی تمام تر غور وفکر اپنے بناﺅ سنگار
میں صرف ہوتی ہے جو اس کی ظاہری چاہت کاہی ذریعہ ہے
پس ہر دوفریقین کو اپنے اپنے مقام پر رہنا ہی زیبائش دیتاہے لہذا عورت کا
اپنے مخصو ص فرائض کی ذمہ داری سے عہدہ برآہونا ہی اس کی شرافت اورفطری خوبی ہے،
لہذا اُسے غلامی سے تعبیر کرنا نااندیشی ہے بلکہ اس کااپنی حدود متعینہ سے گزر کر
مردوںکے دوش بدوش رہنے کاجذنہ اس کی فطرت سے کھلی ہوئی بغاوت اورنافرض شناسی ہے،
اوراس کے اس خیال کو نظر یہ آزادی قرار دینا انتہائی کورِباطنی ہے جومرد عورتوں کو
اس نام نہاد نظر یہ آزادی کی طرف لانے کی فکر میںہیں وہ صرف اپنی خواہشات کاا
ُلّوسیدھاکرنے کےلئے ان کی بھولی بھالی عقلوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے درپے ہیں
اورجوعورتیں اس دام تزویر میں پھنس کر اس غلط نظرئیے کو اپنی آزادی کاپیش خیمہ سمجھتی
ہیں انہیں صرف دھوکا ہی دھوکا ہے۔
مردوں کو چاہیے کہ وہ عورتوں کو اپنے جائز اوراسلامی حقوق سے محروم نہ کریں
اورانہیں اپنی شرعی حدود میں رہ کر اپنے فرائض نسوانی سے روشناس کرائیں مردوں
کاعورتوں پر بے جاتشدد اورناقابل برداشت رویہ ہی ان کو خدا و رسول کے احکام سے
باغی ہونے پر آمادہ کرتا ہے مرد چونکہ بہت سے امور خانگی سے فارغ ہوتا ہے اس لئے
اگر جسمانی قوت اورمالی وسعت اُسے اجازت دے تو ایک سے زیادہ بیویاںکرسکتاہے جن کی
حد چار تک ہے بشرطیکہ وہ اپنے عادلانہ رویہ سے ان کی حق تلفی نہ کرے، لیکن عورت
امور خانہ داری اور بال بچوں کی تربیت میں گھر کر اس قدر مشغول الذمہ ہوجاتی ہے کہ
وہ صرف ایک ہی مرد کی ذمہ داریوں کا بوجھ بمشکل اٹھا سکتی ہے لہذا اس کےلئے بیک
وقت صرف ایک ہی مرد سے نکاح کرنے کی پابندی ہے تو مرد کےلئے متعددازواج کا جواز
اورعورت کےلئے صرف ایک مرد کی پابندی ایک فطری تقسیم ہے اس کومرد کی آزادی اورعورت
کی قید سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا، اگر نظر غائر سے دیکھا جائے اورعورت ومرد ہردوکے
فرائض کاجائزہ لیاجائے تو ہر دواپنے اپنے مقام پر آزاد ہیں اوراگر فرائض وذمہ
داریوں کو بالائے طاق رکھ دیا جائے تو دونوں مقیّد ہیں۔
اگر عورت کےلئے یہی قید ہے کہ وہ صرف ایک ہی مرد سے نکاح کرسکتی ہے تو کیا
مرد اس امر کامقید نہیںکہ وہ عورت کے تمام لوازماتِ زندگی مہیا کرے؟ جہاں مرد ایک
نکاح کی قید سے آزاد ہے وہاں عورت اپنے لوازماتِ زندگی کی فکر سے آزاد ہے اگر عورت
کےلئے بچوں کی پرورش قید ہے تو مرد کےلئے تمام تراخرجات کی ادائیگی کی قید بھی
توہےاگر عورت پر پردہ کی پابندی ہے تو مرد پر اس کے مناسب مکان ورہائش کابندوبست
اورپردہ داری کے جملہ اسباب کی فراہمی کی پابندی ہے پس عورت کی پابندی عور ت کی
شان کے مطابق ہے اورمرد کی پابندی مرد کے رتبہ کے ماتحت ہے اوردونوں پابندیاں اپنے
اپنے مقام پر موزوں ہیں جو پابندی عورت پر عائد ہے اس سے مراد آزاد ہے اور جو قید
مرد کےلئے ہے اس سے عورت کوآزادی حاصل ہے۔
عورت چونکہ صرف اپنی پابندی کومدّ نظر رکھتی ہے اورمرد کی پابندیوں کا اسے
احساس نہیں ہوتا اسلئے وہ سمجھتی ہے کہ مرد آزاد ہے اوربخلاف اس کے مرد عورتوں کو
آزاد سمجھتے ہیں لہذا عورتیں اپنے حدود پھلانگ کر مردوں کے فرائض سنبھالنے میں
خوشی محسوس کرتی ہیں اورمرد اپنے فرائض کو بارِ خاطر قرار دے کر عورتوںکے نام نہاد
نظریہ آزادی کی تائید کرتے ہیں، اس میں ان کودوفائدے نظر آتے ہیں:
٭ ایک توعورت کے اپنے
اخراجات سنبھال لینا ان کےلئے غنیمت ہے
٭ دوسرے جذبہ شہوانیت
کی تسکین اس سے اچھی طرح ہوسکتی ہے
بہر کیف عورت کےلئے یہ نام نہاد آزادی صرف عورت ہی کےلئے قید درقید ہے
کیونکہ امورخانہ داری اوربچوں کی نگہداری کابوجھ تو ویسے کا ویسا ان کے سر پر رہتا
ہے اورمزید براں جو اخراجات مرد پر عائد تھے وہ بھی اب اس کے اپنے اوپر آجاتے ہیں۔
پس خداکاقانون وہ قانون ہے جس کوتاقیامت غلط ثابت نہیںکہا جاسکتا اور قرآن
میں خدانے مردوں اورعورتوں کو اپنے جن جن حدود کے اندر پابند رہنے کاحکم دیا ہے
وہی ہر دوکی دنیاوآخرت کی کامیابی وبھلائی کی ضامن ہیں۔
مطلقہ کی عدت کابیان ، مرد و عورت کے حقوق ، دور حاضر میں عورت کی آزادی کا تصور
مطلقہ کی عدت کابیان ، مرد و عورت کے حقوق ، دور حاضر میں عورت کی آزادی کا تصور
10 min read