نکاتِ علمیہ
لَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُ ْنٰثی (جملہ معترضہ)
فرمانِ خدا ہے نہ کہ والدہ مریم ؑ کا مقولہ ہے کیونکہ اگر ان کا مقولہ ہوتا تو
چونکہ لڑکے کی خواہشمند تھیں اور بجائے اس کے لڑکی کی ماں بن بیٹھیں تو مقام حسرت
میں کہنا چاہے تھا لَیْسَ الْاُنْثٰی کَالذَّکَرِ یعنی یہ عطا شدہ لڑکی لڑکے کی
جگہ پُر نہیں کر سکتی کیونکہ ہر وہ مقام جہاں ایک اعلیٰ چیز کے طالب کو ناقص چیز ملے
تو اظہار میں ناقص کا نام لے کر کہا جاتا ہے کہ یہ اس کی مانند نہیں ہو سکتی جس کا
میں طالب تھا۔
اور اگر یہ جملہ فرمانِ خدا قرار دیا جائے
تو مقصد یہ ہو گا کہ والدہ حضرت مریمؑ چونکہ دل میں لڑکے کی متمنی تھیں اور ان کو
خیال تھا کہ میرے ہاں لڑکا پیدا ہو گا اور خدا وند کریم کے نزدیک مقدر یہ تھا کہ
ان کو حضرت مریمؑ عطا کرکے اس کے شکم اطہر سے لڑکا بغیر باپ کے عطا کروں جو رسول
ونبی ہو اور اولوالعزم پیغمبر ہو پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ لڑکا جس کا مادر
مریمؑ چاہتی تھی وہ اس کی لڑکی جیسا نہیں ہو سکتا تھا جوان کو بالفعل عطا ہوئی
کیونکہ وہ لڑکا یقینا ان خصوصیات کا حامل نہ ہوتا جو حضرت مریمؑ میں ان کے
فرزندحضرت عیسیٰ علیہ السلام میں تھیں اور جن مفسرین نے اس جملہ کو مادر مریمؑ کا
مقولہ قرار دیا ہے ان کو تصحیح معنی کے لئے تکلّفات کی ضروری محسو س ہوتی ہے۔
مادرمریمؑ
نے خدا سے دودعائیں طلب کیں:
پہلی دعا بچے کی مقبولیت کے لئے کہ میں نے
اس کو اپنی ولایت مادری سے آزاد کرکے تیری عبادت گزاری اورخدمت بیت المقدس کے لئے
نذر کی ہے پس تو اسے قبول فرما
اوردوسری دعا چونکہ ان کو بذریعہ پیشین گوئی
یاالہام یا ذاتی اندازے کے یقین تھاکہ مجھے لڑکا عطا ہوگا تو جب لڑکی عطا ہوئی تو
ان کا وہ نظریہ فوراً بدل گیا اورعلم سابق کے ذریعے سمجھیں کہ وہ معہود لڑکا اس
لڑکی کے بطن سے ہوگا لہذااس لڑکی کا نام مریمؑ تجویز کر کے دعا مانگی کہ میرے اللہ
اس بچی کو اوراس کی ذرّیت کو شیطانِ رجیم کے شرّ سے تیری پناہ میں دیتی ہوں
پس خداوند کریم نے ان کی
دونوں دعائیں قبول فرمائیں پہلی دعاکے جواب میں فرمایا فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا
بِقُبُوْلٍ حَسَنٍ جومریمؑ کے اصطفاکی طرف اشارہ ہے اوردوسری دعا کے جواب میں
فرمایا وَاَنْبَتَھَا نَبَاتًاحَسَنًا یعنی ان کی تربیت اورپرورش نہایت صاف
وپاکیزہ طریق سے فرمائی یہ شیطانِ رجیم سے حفاظت کا عہد ہے اورجو حضرت مریمؑ کی
طہارت کی طرف اشارہ ہے چنانچہ بعد میں اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰکِ وَطَھَّرَکِ اسی
امر کی تصریح ہے۔
ز اَلْمِحْرَابَ
مسجد یا گھر میں ایک مخصوص مقام عبادت کو کہتے تھے لیکن آج کل مسجد کی جانب قبلہ
کی دیوار کے وسط میں جو جگہ پیش نماز کے لئے مخصوص طور پر بنائی جاتی ہے اُسے
محراب کہا جاتاہے اس کی وجہ تسمیہ کے لئے چند قول ہیں:
(۱) چونکہ شیطان
اورخواہشاتِ نفسانیہ کے ساتھ یہ جگہ مقام حرب ہے اس لئے اس کو محراب کہتے ہیں
(۲) یہ حریب سے نکلاہے جس
کا معنی ہے لٹاہوا چونکہ انسان اس مقام پر دنیاوی مشاغل سے تہی دامن اورفارغ القلب
ہوکرآ تاہے تو گویا وہ ان چیزوں سے لٹا ہوا ہوتا ہے پس اس مقام کو محراب اسی
مناسبت سے کہتے ہیں
(۳) بعض کہتے ہیں کہ گھر
میں صدر مجلس کو محرابُ البیت کہا جاتاہے اور بعد میں جب مساجد کی بنا ہوئی تو ان
کے صدرمقام کوبھی محراب کا نام دیا گیا ہے
ان کے علاوہ اوروجوہ بھی بیان کئے گئے ہیں
بہرحال اس مقام پر وہ مقام مخصوص مرا دہے جو حضرت مریمؑ کی مخصوص عبادت گاہ تھا
اورحضرت مریمؑ تنہااس میں عبادت خداکیا کرتی تھیں۔