التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تفسیر رکوع ۱ -- سورہ فاتحہ کے فضائل

سورہ فاتحہ کے فضائل
6 min read
سورہ فاتحہ کے فضائل
مجمع البیان ابی بن کعب سے مروی ہے کہ حضرت رسالتمآب نے فرمایا جو مسلمان سورئہ فاتحہ کو پڑھے اس کو دو تہائی قرآن پڑھنے کا ثواب ملے گا اور تمام مومنین و مومنات پر صدقہ کرنے کا اجر اس کو عطا ہوگا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ سورئہ فاتحہ کے پڑھنے کا ثواب پورے ختم قرآن کے ثواب کے برابر ہے (یعنی جو شخص قرآن پڑھا ہوا نہ ہو تو اس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ سورئہ فاتحہ کی تلاوت کرے خداوند متعال اس کو پورے قرآن کے پڑھنے کا اجر دے گا)
نیز ابی بن کعب سے مروی ہے کہ میں نے حضرت رسالتمآب کے حضور سورئہ فاتحہ پڑھی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ید ِقدرت میں میری جان ہے خدا وند کریم نے تورات، انجیل، زبور، بلکہ خود قرآن بھی اس کی مثل نازل نہیں کیا، یہ امّ الکتاب ہے اور یہی سبع مثانی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان تقسیم شدہ ہے اور ہر اس بندے کےلئے ہے جو بھی سوال کرے۔
نیز ایک روایت میں ہے کہ جابر بن عبداللہ انصاری کو حضور نے فرمایا کیا میں تجھے ایک ایسی سورہ کی تعلیم دوں جس سے بہتر خداوند کریم نے کوئی سورہ قرآن میں نازل نہ فرمایا ہو؟ جابر نے عرض کیا جی ہاں میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ، پس آپ نے اس کو سورئہ حمد تعلیم فرمائی، پھر آپ نے فرمایا اے جابر! اس کے متعلق میں تجھے کچھ بتاں؟جابر نے عرض کیا جی ہاں میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ نے فرمایا یہ موت کے سوا ہر مرض کےلئے شِفا ہے۔
حضرت امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ جو سورہ حمد سے تندرست نہیں ہوتا اس کو کوئی چیز تندرست نہیں کر سکتی۔
حضرت علی ؑ سے مروی ہے جناب رسالتمآب نے فرمایا کہ مجھے ارشاد خدا وندی ہوا ہے لَقَدْ اٰتَیْنَاکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْآنَ الْعَظِیْم ہم نے تجھے سبع مثانی اور قرآن عظیم عطا کیا۔
پس اللہ تعالیٰ نے مجھے فاتحہ کا احسان الگ جتلایا اور پورے قرآن کے مقابلہ میں اس کو ذکر فرمایا، اور تحقیق عرش کے تمام خزانوں میں سے فاتحہ زیادہ وزنی و قیمتی جوہر ہے اور اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفی کو اس کے ساتھ مختص فرمایا اور کسی نبی کو اس نعمت میں شریک نہیں کیا سوائے حضرت سلیمان ؑ کے کہ انہیں اس کی ایک آیت عطا کی، چنانچہ بلقیس کے قول کو بیان فرماتا ہے اِنِّی اُلْقِیَ اِلَیَّ کِتَاب کَرِیْم اِنَّہُ مِنْ سُلَیْمَانَ وَاِنَّہُ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ
پس جوشخص محمد و آلِ محمد ؑکی وِلا کا اعتقاد رکھتے ہوئے اور اس کے امر کی اطاعت کرتے ہوئے نیز اس کے ظاہر وباطن پر ایمان لاتے ہوئے اس کو پڑھے گا خداوندکریم ہرہر حرف کے بدلہ میں اس کو ایسی نیکی (نعمت) عطافرمائے گا جو دنیا اور اس کی تمام نعمتوں سے افضل ہو گی اور جو شخص سورہ فاتحہ کو کسی اور سے سُنے گاتو جس قدر پڑھنے والے کو ثواب ملے گا اس کا ایک تہائی ثواب سُننے والے کو عطا ہو گا، پس ہر ایک کویہ آسان نیکی زیادہ سے زیادہ حاصل کرنی چاہیے کیونکہ یہ غنیمت ہے ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے اور تمہارے دِلوں میں حسرت باقی ہو۔
بعض روایات میں ہے کہ اگر سورہ فاتحہ کسی درد کے مقام پر سترّ(۰۷) مرتبہ پڑھی جائے تو وہ درد ختم ہو جائے گا، ایک روایت میں ہے کہ پانی کے پیالہ پر چالیس مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ کر مریض پر چھڑکا جائے تو اس کو شِفا ہو گی، بہرکیف سورہ فاتحہ کے فضائل اور اس کے خواص شیعہ و سنّی ہر دوفریق کی کتابوں میں بہت زیادہ منقول ہیں گویا یہ سورہ مجید ہ روحانی و جسمانی ہر دوبیماریوںکے لئے شِفا بخش ہے بشرطیکہ نیت صاف ہو۔
چنانچہ علامہ علی اکبر نہاوندی نے کتاب ”خزینة الجواہر صفحہ۵۸۲ ، ۲۷۵“ میں کتاب جامع النورین سے نقل فرمایا ہے کہ حضرت امیرالمومنین ؑ کے کسی صحابی کا ہاتھ ایک جنگ میں کٹ گیا پس وہ حضرت کی خدمت میں پہنچا تو آپ ؑ نے اس کا کٹا ہوا ہاتھ اپنے مقام پر جوڑ کر آہستہ سے کچھ پڑھاپس وہ تندرست ہو گیا اور خوشی سے چلا گیا، پھر دوسرے دن حضرت علی ؑکی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا حضور ؑ میرے دست بریدہ پر آپ ؑ نے کیا پڑھا تھا کہ وہ تندرست ہوگیا؟ آپ ؑ نے فرمایا میں نے سورہ فاتحہ پڑھا تھا، تو اس شخص نے حقارت آمیز لہجہ میں کہا اچھا آپ ؑ نے سورہ فاتحہ پڑھا تھا؟ بس یہ کہنا تھا کہ اس کا وہی ہاتھ اسی مقام سے دوبارہ جدا ہو کر گرِ گیا اور مرتے دم تک ویسے کا ویسا رہا۔
کلام خدا میں یہ برکت ہے کہ بیماری تو بجائے خود مردہ بھی اس سے زندہ ہو سکتا ہے جیسا کہ ایک مقام پرخداوند متعال ارشاد فرماتا ہے کہ اس کے ذریعہ سے پہاڑ چلائے جاسکتے ہیں زمینوں کی مسافتیں طے کی جاسکتی ہیں اور مُردوں سے کلام کیا جاسکتا ہے اور بعض احادیث میں ہے کہ قرآن میں جو کچھ ہے وہ سورہ فاتحہ میں موجود ہے بلکہ گذشتہ روایت میں بھی موجود ہے کہ سورہ فاتحہ باقی تمام سورتوں سے افضل ہے اور خداوندکریم نے بھی اس کو پورے قرآن کے مقابلہ میں ذکر فرمایا ہے، تو سورہ فاتحہ کے پڑھنے سے بیمار کی تندرستی تو درکنار اگر مردہ میں روح پلٹ آئے تو یہ بھی بعید نہیں، چنانچہ حضرت امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ اگر کسی مردہ پر ستر مرتبہ سورہ فاتحہ کی تلاوت کی جائے اور خداوند اس میں روح کو پلٹا دے تو تعجب کی بات نہیں۔
لطیفہ :        علامہ نہاوندی قدس سرہنے محدث نوری قدس سرہکی کتاب دارالسلام نے نقل فرمایا ہے کہ سید محمد موسوی نجفی ذکر کرتے ہیں میں بچپنے کے زمانہ میں بلید(کندذہن) تھا لیکن نوافل و تعقیبات کا دلدادہ تھا ایک دن مصباح کفعمی کا مطالعہ کیا تو اس میں حدیث نظر سے گزری جس کا مضمون یہ ہے کہ اگر میت پر چالیس مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھی جائے تواس کے زندہ ہو جانے میں کوئی تعجب نہیں! میں نے دل میں کہا کہ لوگوں پر تعجب ہے کہ اس بات کے ہوتے ہوئے اپنے مردوںکو دفن کردیتے ہیں اور سورہ فاتحہ پڑھ کر ان کوزندہ نہیں کرلیتے؟ پس ایک مکھی کو پکڑکر میں نے ایک حوض میں ڈبودیا اورعصر تک اسے ڈبوئے رکھا جب مجھے اُس کی موت کا یقین ہوگیا تو اس کو پانی سے باہر نکال کر خشک مقام پررکھا اوراس کے دوبارہ زندہ کرنے کی نیت سے اس پر سورہ فاتحہ پڑھنا شروع کیا اور اس پر دم کرتاگیا جب تیس مرتبہ پڑھ چکا تو اس کے بعد میں نے دیکھا کہ ا س مکھی نے اپنے پاںکو حرکت دی اووراپنے پروں کو مس کیا اور ابھی چالیس مرتبہ تک نہ پہنچنے پایا تھا کہ مکھی پروازکرکے چلی گئی، میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ مکھی شاید پہلے سے زندہ ہو؟ اوراس پر موت واقع نہ ہوئی ہو؟اور مجھے اس کی موت کا اشتباہ ہواہو؟ پس دوسرے دن ایک اور مکھی پکڑلی اور اس کو صبح سے لے کر ظہر تک برابر پانی میں ڈبوئے رکھا اورپھر نکال کرعصر تک زمین پر اسے ڈال دیا اس میں کوئی حس وحرکت نہ تھی جس سے مجھے یقین ہوگیا کہ وہ مر چکی ہے پس میں نے سورہ فاتحہ پڑھنا شروع کردیا اور اس مرتبہ بھی چالیس تک نہ پہنچا تھا کہ مکھی باذنِ خدازندہ ہوکر ہوامیں پروازکرگئی۔

ایک تبصرہ شائع کریں