التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

سورہ فاتحہ کے مقدّم ہونے کی وجہ

سورہ فاتحہ کے مقدّم ہونے کی وجہ
6 min read

سورہ فاتحہ کے مقدّم ہونے کی وجہ

حضرت امیر المومنین کا ایک مشہور فرمان جسے علامہ نہاوند ی vنے نقل فرمایا ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا کہ تمام آسمانی کتابوں کا علم قرآن مجید میں ہے اورتمام قرآن کا علم سورہ فاتحہ میں موجود ہے اورجو کچھ سورہ فاتحہ میں موجود ہے وہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم میں ہے اور جوکچھ بسم اللہ میں ہے وہ بائے بسم اللہ میں ہے اور جو کچھ بائے بسم اللہ میں ہے وہ اس نقطہ میں ہے جوبا کے نیچے ہے اورمیں وہی نقطہ ہوں-[1]
اسی ذیل میں علامہ موصوفv فرماتے ہیں کہ منجملہ باقی وجوہ کے سورہ فاتحہ کے باقی قرآنی سورتوں پرمقدم ہونے کی یہ بھی ایک وجہ ہے کہ سورہ فاتحہ کوباقی قرآن کے ساتھ اجمال وتفصیل کی نسبت حاصل ہے یعنی قرآن میں جو کچھ تفصیل کے ساتھ درج ہے وہ سورہ فاتحہ میں اجمالاً موجودہے-
اَلْحَمْدُ:  قرآن میں خداوند کریم کی تمجید ،تحمید، تسبیح ،تقدیس، تہلیل، تکبیر، شکر و رضا ، جس قدر تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں لفظ ”اَلْحَمْدُ“ ان کا اجمالی خاکہ ہے-
لِلّٰہِ:     قرآن میں جس قدر صفاتِ جلال و کمال ذاتِ احدیت بیان ہوئے ہیں لفظ ”لِلّٰہِ“ ان سب کا اجمال ہے-
رَبِّ:   قرآن مجید میں جہاں جہاں ربوبیت کا تفصیلی ذکر ہے لفظ ”رَبّ“ میں وہ سب کچھ موجودہے-
اَلعَالَمِیْنَ: کتاب مجیدمیں آسمانوں، زمینوں، جنوں، انسانوں، وحوش، طیور، انبیا ، اولیا ، نیکوں اوربروں بلکہ جمیع مصنوعات کی جس قدر تفصیل ہے وہ لفظ ”اَلعَالَمِین“ میں بندہے -
اَلرَّحْمٰنِ: قرآن میں جس قدر رزق، انعام، احسان و اکرام وغیرہ مذکورہیں لفظ ”اَلرَّحْمٰن“ ان سب پر مشتمل ہے -
اَلرَّحِیْمِ: کلام مجید میں جہاں کہیں وسعت ِرحمت اورگناہوں کی مغفرت کا ذکرہے لفظ ”اَلرَّحِیْم“ سب کو شامل ہے -
مَالِکِ: قرآن شریف میں خداوند کی قدرت وعظمت، اس کی بقا وسرمدیت اوراس کا بے مثل وبے مثال اور لاشریک ہونایہ سب کچھ لفظ”مَالِک“ میں جمع ہیں -
یَوْمِ الدِّیْنِ: پورے قرآن میں جس قدرقیامت، مواقف، حساب، نعمات وجملہ احوال بہشت و درکات وخطرات جہنم، میزان وصراط وغیرہ کے تفصیلی تذکرے ہیں وہ لفظ ”یَوْمِ الدِّیْن“ میں سمائے ہوئے ہیں-
اِیَّاکَ نَعْبُدُ:  جملہ عبادات جن کا قرآن میں ذکر ہے ”اِیَّاکَ نَعْبُدُ“ کے اندرموجودہیں-
وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ: قرآن میں ذکراستعانت، توکل وطلب مدد جہاں بھی مذکور ہے وہ ”اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن“ میں مندرج ہیں -
اِھْدِنَا: قرآن کریم  میں ہدایت وارشاد، دُعا وسوال اورتضرع وغیرہ کا جہاں ذکرہے ”اِھْدِنَا“ اس کا جامع ہے -
اَلصِّرَاطَ المُسْتَقِیمَ: قرآن پاک میں جملہ حلال وحرام، اَوامرونواہی اِسی اجمال کی تفصیل ہیں -
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنعَمْتَ عَلَیْھِمْ: کتاب پاک میں جس قدر نیک لوگوں کے حالات، ان کے طریقے، ان کی سنتیں اور سیرتیں، ان کا سبب نجات اور بلندی درجات وغیرہ کی تفصیل اِن الفاظ میں مختصر ہے -
غَیْرِالمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ: بنی اسرائیل کے حالات وقصص، کفرانِ نعمت، تکذیب وقتل انبیا ،اِن گناہوں پر اصراراور اُن پر غضب خداوعذاب کا نزول قرآن میں جتنی تفصیل سے مذکور ہے وہ ”غَیرِالمَغضُوبِ عَلَیھِم “ میں سمایا ہوا ہے-
وَلا الضَّآلِّین: فراعنہ ، جابر بادشاہ، نصرانیوں، مشرکوں اور گمراہوں کی قرآنی تفصیل کا یہ اجمالی عنوان ہے-
پس اسی لئے سورہ فاتحہ کو تمام قرآنی سورتو ں پر مقدم کیا گیا ہے کیونکہ یہ قرآن کا اجمال ہے اور اجمال تفصیل سے پہلے ہوا کرتا ہے -

اقول

جس طرح سورہ فاتحہ پورے کلامُ اللہ کا اجمال ہے اسی طرح آیہ کریمہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پورے سورہ فاتحہ کی اجمالی تصویر ہے-
بِسْمِ اللّٰہِ: لفظ ”اَللّٰہ“ علم ہے اس ذات کا جوواجب ُالوجود اور جامع جمیع صفات ِکمال ہے لہذا اس لفظ میں جملہ صفات جلال و کمال اور تمام صفات ثبوتیہ وسلبیہ اجمالاً درج ہیں پس تمجیدوتسبیح وتہلیل وعبادت واستعانت وغیرہ کا سزاوار ہونااسی سے سمجھاجاسکتاہے -
اَلرَّحْمٰنِ: تمام نعماتِ دنیاویہ ودینیہ کا بیان اسی مختصرسے لفظ میں سمویا ہواہے-
اَلرَّحِیْمِ: چونکہ یہ لفظ خصوصی انعامات کےلئے ہے جوقیامت کے روزمومنین پرکئے جائیں گے اور دشمنانِ خدا ان سے محروم ہوں گے لہذا قیامت کے حالات، اُخروی انعامات اورکفارکی بری بازگشت وغیرہ کےلئے لفظ ”اَلرَّحِیم“ کو جامع کیا جاسکتاہے-
روایت گزشتہ میں بیان ہوچکا ہے کہ ذاتِ ربُّ العزت نے جناب رسالتمآب پر قرآن مجید کے ساتھ سورہ فاتحہ کا بالخصوص امتنان فرمایا وَ لَقَد اٰتَینَاکَ سَبعًا مِّنَ المَثَانِی وَالقُراٰنَ العَظِیم  ہم نے تجھے سبع مثانی (فاتحہ) اور قرآن عظیم عطاکیا-[2]
 پس سورہ فاتحہ کا قرآن مجید کے مقابلہ میں ذکر کرنا بھی غالباً اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن مجید میں جوکچھ تفصیل سے بیان ہواہے سورہ فاتحہ میں وہ اجمالاً درج ہے-
 یہ سورہ مجیدہ اصول دین (توحید، عدل، نبوت، امامت ،قیامت) کے بیان کوجس طرح متضمن ہے اسی طرح جملہ فروع دین (نماز، روزہ، حج، زکواة ،خمس، جہاد، تولّی، تبرّی، امر بالمعروف، نہی عن المنکر)کو اجمالاً اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے، گویا اس سورہ کے ہرہرلفظ میں علوم قرآنیہ ومطالب شرعیہ کے دفترپنہاں ہیں جن کوکما حقہ سوائے راسخون فی العلم کے اورکوئی نہیں پاسکتا-
چنانچہ مولائے کائنات حلّالِ مشکلات حضرت امیرالمومنین نے ابن عباس کے سامنے تفسیر بائے بسم اللہ بیان کرنا شروع کی حتی کہ صبح نمودار ہوگئی-[3]
 اورایک مقام پر مولا علی نے ارشاد فرمایا کہ اگر صرف سورہ فاتحہ کی تفسیر بیان کرتا جاوٴں تواس سے ستر اونٹ بارہوسکتے ہیں -[4]
 اسی وجہ سے توابن عباس فرماتے تھے کہ میرا اور جناب رسالتمآب کے تمام صحابہ کا علم حضرت علی کے علم کے مقابلہ میں اس طرح ہے جس طرح ایک قطرہ آب سات سمندروں کے مقابلہ میں-
ہم نے یہ حدیث اور اس باب کی اکثراحادیث بمعہ حوالہ جاتِ کتب اِسی تفسیر کی پہلی جلد یعنی مقدمہ تفسیر میں اصل عبارتوں کے ساتھ مختلف عناوین کے تحت بیان کردی ہیں -[5]
کورِباطن یہ سمجھ بیٹھتاہے کہ سورہ فاتحہ کی آیات آپس میں بالکل بے جوڑہیں لہذا اس سے ایک مسلسل مضمون حاصل نہیں ہوسکتا، حالانکہ چشم بصیرت سے لمحاتِ حقیقت پر نظر ڈالنے سے یہ اَمر روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتاہے کہ جو لطافت ِبیان سورہ مجیدہ فاتحہ میں پائی جاتی ہے اورجس حسنِ انداز سے علوم قرآنیہ کواس مختصرسورہ میں سمو دیا گیا ہے وہ صرف اسی کلام پاک کا حصہ ہے جو اس کی اعجازی حیثیت کی واضح دلیل ہے، گویا پورے قرآن مجید کے تفصیلی بیان کے لیے سورہ فاتحہ ایک موضوع کی حیثیت رکھتاہے اورسورہ فاتحہ کے لئے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم موضوعِ بیان ہے، تو پس آیت بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پورے قرآن مجید کا موضوع ٹھہری اورسورہ فاتحہ اس کا ایک سرسری ترجمہ ہے اور ا  ل م سے لے کر والنّاس تک پورا کلام پاک اِنہی مطالب کا تفصیلی بیان ہے-
اب یہ کہنا بالکل درست اورقرین عقل ہے کہ کتب سماویہ کے تمام علوم قرآن میں ہیں اورقرآن کے تمام علوم سورہ فاتحہ میں ہیں اورسورہ فاتحہ کے تمام علوم بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم میں ہیں اب رہایہ کہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کے جمیع علوم بائے بسم اللہ اوربائے بسم اللہ کے جملہ علوم اُسی نقطہ میں ہیں جوبائے بسم اللہ کے نیچے ہے تواس میں اشکال تب ہوسکتاہے کہ با سے مراد یہی حرف لیا جائے جوحروفِ تہجی میں دوسرے نمبر لکھا جاتاہے؟ اورنقظہ سے مراد وہی ظاہری نقطہ لیا جائے جو حرف با کے ساتھ لازم کی حیثیت رکھتاہے؟ لیکن حضرت امیر المومنین نے اپنے بیان کے اخیرمیں اس خیال کی تردیدفرمادی ہے کہ نقطہ سے مرادمیں ہوں، تواس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ با سے مراد باطناً وجودِ ذیجود جناب رسالتمآب ہے کیونکہ یہ دونوں ایک حقیقت نوری کے دوحصے ہیں (اَنَاوَعَلِیٌّ مِّنْ نُّورٍوَّاحِدٍ[6]) اب مطلب صاف ہے کہ وہ تمام علوم جوبسم اللہ میں ہیں وہ جناب رسالتمآبکے  پاس ہیں اوروہ تمام علوم جوجناب رسالتمآب کے پاس تھے وہ حضرت علی کے پاس ہیں، چنانچہ خود رسالتمآب کا ارشادہے اَنَامَدِیْنَةُ العِلْمِ وَعَلِیٌّ باَبُھَا [7] ، عَلِیٌّ خَازِنُ عِلْمِی[8] ، عَلِیٌّ وِعَاءُ عِلْمِیْ [9]
یہ حدیثیں باختلافِ عبارات بمعہ حوالہ جات کتب اسی تفسیر کی پہلی جلد میں بیان کی جاچکی ہیں-[10]


[1] خزینة الجواہر ص۶۳۴،۴۷۵
[2] سورہ حجر آیہ ۸۷
[3] منتخب التواریخ
[4] عوالی اللئالی ج ۴ ص۱۰۲،  احیاء العلوم الغزالی ج ۱ ص۲۸۹،  بحار الانوار ج ۸۹ کتاب القرآن باب ۸ ص۱۰۳
[5] تفسیرانوار النجف فی اسرار المصحف ج۱
[6] مسند احمد بن حنبل ،  مناقب بن مغازلی ،  مودۃ القربی سید علی ہمدانی شافعی ص۸۲
[7] مسند الفردوس عن جابر بن عبد الله ج۱ص ۴۴ ،   میزان الاعتدال ج ۱ ص ۲۴۹ ،  النص و الاجتھاد سید شرف الدین ص ۵۶۸ ،  تاریخ دمشق ابن عساکر ج۲ ص ۴۶۴ ،  البدایۃ والنھایۃ ج۷ص ۳۵۸ ،  مناقب علی بن ابیطالب ابن مغازلی ص۸۱ ،  ذخائر العقبی ص ۷۷ ،  تذکرۃ الخواص ۴۷ ،  ینابیع المودۃ ص۷۲
[8] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ج ۲ ص ۴۴۸
[9] شمس الاخبار ص۳۹ ،  کفایۃ الکنجی ص ۷۰
[10] تفسیرانوار النجف  فی اسرار المصحف ج۱

ایک تبصرہ شائع کریں