التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تفسیر رکوع ۴-- ذکرِخلقتِ آدم

تفسیر رکوع ۴-- ذکرِخلقتِ آدم
16 min read

تفسیر رکوع ۴-- ذکرِخلقتِ آدم

وَ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الأَرْضِ خَلِيْفَةً قَالُوْا أَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنّی أَعْلَمُ مَا لا تَعْلَمُوْنَ (30) وَ عَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلٰى الْمَلٰٓئِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِی بِأَسْمَآءِ هٰٓؤُلآءِ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِيْنَ (31) قَالُوْا سُبْحَانَكَ لا عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَآ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ (32) قَالَ يٰآدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَآئِهِمْ فَلَمَّآ أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَآئِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَّكُمْ إِنِّیٓ أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرْضِ وَ أَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا  كُنتُمْ تَكْتُمُوْنَ (33) وَ إِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِآدَمَ فَسَجَدُوْآ إِلاَّ إِبْلِيْسَ أَبٰى وَ اسْتَكْبَرَوَ كَانَ مِنْ الْكَافِرِينَ(34)
ترجمہ:
اور جب کہا تیرے ربّ نے ملائکہ کو تحقیق میں پیدا کرتا ہوں زمین میں خلیفہ تو انہوں نے کہا کیا پیدا کرتا ہے تو اس میں ایسے شخص کو جوفسادکرے گا اس میں اور خونریزی کرےگا؟ حالانکہ ہم تیری تسبیح حمد کرتے ہیں اور ہم تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں فرمایا تحقیق میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے (30) اور تعلیم کئے آدم کو نام سب ، پھر پیش کیا ان کو (جن کے نام آدم کو بتلائے تھے) فرشتوں پر، پس فرمایا مجھے بتاوٴنام ان کے اگر تم سچے ہو (31)تو انہوں نے عرض کیا تو پاک ہے ہمیں علم نہیں مگر اس قدر جو تو نے تعلیم فرمایا تحقیق تو جاننے والا ہے اور حکمت والا ہے (32) فرمایا اے آدم تو بتا ان کو نام ان کے پس جب اس (آدم) نے ان کو ان کے نام بتائے فرمایا کہ میں نے نہیں کہا تھا تم کو کہ تحقیق میں آسمانوں اورزمینوں کے غیبوں کو جانتا ہوں اور میں جانتا ہوں جس کو تم ظاہر کرتے ہواورچھپاتے ہو (33)اورجب ہم نے حکم دیا فرشتوں کو کہ سجدہ کر و آدم کا پس سب نےسجدہ کیا مگر ابلیس کہ اس نے انکار وتکبر کیا اورتھا کافروں میں سے (34)

تفسیر رکوع ۴

ذکرِخلقتِ آدم

وَاِذْ قَالَ : چونکہ اس سے پہلے انسان کی خلقت کا ذکر ہو ا لہذا سوال ہو سکتا تھا کہ کب ؟ تو یہاں اس کی وضاحت کا بیان ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو کہا تھا کہ میں زمین میں خلیفہ بناتا ہو ں-
بعض کہتے ہیں کہ تمام ملائکہ کو خطاب کیا تھا اورابن عباس سے منقول ہے کہ صرف زمین کے ملائکہ کو خطاب ہوا تھا جو قومِ جنّات کے بعد زمین پر ساکن کئے گئے تھے اور تفسیر برہان میں امام زین العابد ین سے منقول ہے کہ وہ عرش کے گرد رہنے والے ملائکہ تھے کیونکہ ان کے دلوں میں یہ خیال گزرا تھاکہ ہم اللہ کی مقرب ترین مخلوق ہیں ہم سے افضل مخلو ق اورکوئی نہ ہوگی پس انہی سے آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا مطالبہ ہو ا اورملائکہ کے جمع کے صیغے پر الف ولام کا ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ تمام ملائکہ کو سجدہ کا حکم ہوا ہے-
ابن عباس سے منقول ہے کہ ان کو بتا دیا گیا تھاکہ اولاد آدم میں سے ایسے لوگ ہوں گے جو فساد اور خونریزی کریں گے-
بعض کہتے ہیں کہ پہلے زمین پر جنّوں نے چونکہ فسادات وخونریزیاں کی تھیں اسی بناءپر ملائکہ نے اندازہ کر لیا کہ یہ بھی ایسا کریں گے ،چنانچہ بعض روایات آئمہ سے بھی اسی قول کی تائید موجود ہے، عیاشی سے تفسیر برہان میں منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایاکہ فرشتوں نے اس سے پہلے فساد وخونریزیاں کرنے والوں کو نہ دیکھا ہو تا تو ان کو یہ کیسے معلوم تھاکہ یہ بھی فسادوخونریزی کریں گے ؟فرشتوں کو خدا کی تعلیم سے یا سابق تجربہ سے جب یہ بات معلوم تھی کہ اولاد آدم زمین پر فساد وخونریزی کرے گی تو انہوں نے ازراہ تعجب نہ بصورت اعتراض سوال کیا کہ کیا تو ایسی مخلوق کو پیدا کرتا ہے اورزمین کا خلیفہ بنا تا ہے جو فساد وخونریزی کرے؟ اور اس کے بعد انہوں نے اپنی تسبیح وتقدیس کو بھی ظاہر کردیا کہ ہم تیرے تسبیح گزار اورتیری پاکیز گی کا ذکر کرنے والے ہیں-
 بعض تفاسیر میں امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ فرشتوں نے زمین کی خلافت اپنے لئے طلب کی تھی اوراسی بنا ءپر انہو ں نے اپنے تسبیح وتقدیس بھی جتلائی تھی اورجب اللہ نے فرمایاکہ تم اس مصلحت کو نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں تو انہوں نے فوراً توبہ کی اورعرش کی پناہ لی اوران کی توبہ منظور ہوئی-
 اورجب حضرت آدم سے ترک اَولیٰ ہوا تو انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا وران کی توبہ منظور ہوئی اورروایت میں ہے کہ حضرت آدم کو ندا آئی کہ تیری اولاد میں سے جو بھی اس مکان پر حاضر ہو کر اپنے گناہ سے توبہ کرے گا میں اس کی تو بہ قبول کروں گا-
اجمالی طور پر تو ملائکہ کو معلوم ہو گیا کہ آدم کی خلافت میں مصلحت ہے اورانہوں نے خلافِ مصلحت خدا لب کشائی کی اور توبہ بھی کر لی جو منظور ہو گئی لیکن اُن کو وجہ معلوم نہ ہو سکی جس سے وہ خود اعتراض کرتے کہ ہاں بے شک ہم غلطی پر تھے اورآدم ہم سے افضل ہے-
 پس اس تفصیل کو یوں پیش فرمایا جیسا کہ تفسیر برہان میں حضرت امام حسن عسکری سے ایک حدیث میں مروی ہے کہ خداوند کریم نے حضرت آدم کو تمام انبیاءکے نام اورحضرت محمد مصطفی،حضرت علی،حضرت فاطمہ،حضرت امام حسن، حضرت امام حسین، اور ان کی ذریت طاہرہ﷨ اوران کے مخصوص شیعوں اورسرکش دشمنوں کے نام تعلیم فرمائے اورپھر عالم اشباح میں چہاردہ معصومینکے انوار کو ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا کہ اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو ان کے ناموں کی تفصیل وار خبر دو؟ پس ملائکہ نے عاجزی کا اظہار  کیا اورکہا کہ:
لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا الایہ: یعنی ہمیں صرف اتناہی معلوم ہے جتنا تو نے ہمیں تعلیم فرمایا اوربس، اس کے بعد آدم کو خدانے حکم دیا کہ تو اِن کو اُن یعنی انبیاءوآئمہ کے ناموں کی خبردے، پس جب حضرت آدم نے نام بتلائے تو خدانے ملائکہ سے انبیاءو آئمہپر ایما ن لانے اوران کو اپنے سے افضل ماننے کا عہد وپیمان لیا (یعنی ملائکہ نے تسلیم کرلیا کہ واقعی گروہِ انبیاءوآئمہ ہم سے افضل وبرتر ہیں( اورپھر ارشاد ہو اکہ کیا میں نے تم کو کہا نہیں تھا کہ میں آسمانوں اورزمینوں چکے غیبوں کو جانتا ہوں اور میں ا س چیز کو بھی جانتا ہو ں جس کو تم ظاہر کرتے ہو اوراس کو بھی جانتا ہوں جس کو تم پوشیدہ رکھتے ہو (ملخصاًترجمہ)
 اسی مضمون کی ایک اورروایت حضرت امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ خداوند کریم نے حضرت آدم کو اپنے تمام ہونے والے حُحج (یعنی انبیاء وآئمہ﷨) کے نام تعلیم فرمائے اورعالم اَرواح میں ان کو ملائکہ کے سامنے ظاہرکیا اورفرمایاکہ اگر تم اپنی تسبیح وتقدیس کے بل بوتے پر زمین کی خلافت سے استحقاق کے دعویٰ میں سچے ہو تو ان ناموں کی خبر دوتو انہوں نے عرض کیا ہم تو صرف وہی جانتے ہیں جو تو نے ہمیں بتلایا ہے اوربس اورہر چیز کا دانا وبینا صرف تو ہی ہے، پس ارشاد قدرت ہو ا اے آدم! تو ان کو ان کے ناموں کی خبر دے پس جب آدم نے ان کو ان کے نام بتلائے تو ملائکہ کو ان کے اللہ کے نزدیک عظیم المرتبت ہونے کا علم ہوا  اورجان گئے کہ واقعی زمین کی خلافت اورمخلوق میں حجۃُ اللہ ہونے کے یہی حقدار ہیں پس خدانے ان کو ملائکہ کی آنکھوں سے اوجھل کردیا اوران سے ان کی ولایت ومحبت کا اقرار لیا اورفرمایا کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اورزمینوں کے غیبوں اورتمہاری ظاہر وپوشیدہ باتوں کو جانتا ہوں؟
بروایت مجمع البیان ابن عباس سے منقول ہے کہ خداوند کریم نے حضرت آدم کو تمام نام اور کاریگریاں، زمینوں کی آبادکاری، اشیائےخوردنی، ادویہ، معدنیات، درخت لگانا اوران کے منافع بلکہ دین ودنیا کی آبادی کےلئے جتنے اُمور کی ضرورت تھی سب تعلیم فرمائے تھے-
بعض نے کہا ہے کہ  دنیا کی تمام موجودہ وغیر موجود ہ اشیاءکے ہر زبان میں نام سکھائے تھے-
حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے زمینوں، پہاڑوں، وادیوں اورگھاٹیوں کے نام بھی آدم کو تعلیم کئے گئے تھے یہاںتک کہ آپ نے اپنی بساط کی طرف جو نیچے بچھی تھی اشارہ کرکے فرمایاکہ خدانے حضرت آدم کو اس کا نام بھی بتایا تھا-
بعض نے کہا ہے کہ تمام ملائکہ اورقیامت تک کی اپنی نسل کے نام بتلائے تھے-
بعض کہتے ہیں کہ تمام چیزوں کے القاب معانی اورخواص تعلیم فرمائے تھے اورقرآن مجید کے یہ الفاظ وَ عَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَاءَکُلّھَا (یعنی حضرت آدم کو تمام نام تعلیم کئے) اسی عموم پر دلالت کرتے ہیں -
سوال:  کیا ان تمام چیزوں کو ملائکہ پر پیش کیا گیا اورملائکہ سے ان تمام کے نام بتلانے کا سوال کیا؟توقرآن کے ظاہری الفاظ یہ ہر گز نہیں بتلاتے کیونکہ ارشاد ہے ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلٰی المَلٰٓئِکَةِ (یعنی پھر پیش کیا ان کو فرشتوں پر) اورھُمْ کی ضمیر صرف ذوی العقول کے لئے ہی استعمال ہوتی ہے؟
جواب:  تو اس کا جواب یہ دیا جاتاہے کہ چونکہ ذوی العقول زیادہ تھے اورغیر ذوی العقول کم تھے اس لئے غلبہ ذوی العقول کو حاصل تھا پس ذکر ذوی العقول کا کیا گیا اورمراد سب چیزیں ہیں -
لیکن میرے خیال میں اس تکّلف کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ آدم کو تمام چیزوں کے نام بتلانا اوراس کو اس نعمت علم سے سرفراز فرمانا شانِ الوہیت ہے جس کو وہ نبی بنا کر بھیجے ا س کی علمی کمزوری شانِ اَقدسِ الہٰی کے انتخاب پر نقص کی موجب ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ امتحان ومقابلہ کے مقام پر یاکسی کی امتیازی شان کو اُجاگر کرنے کے لئے اُس کی ساری علمی پونجی کو حرف بحرف معرض ظہور میں لایا جائے بلکہ ایسے مقامات پر صرف چند خصوصی نکات کا دریافت کرلینا ہی کافی ہوا کرتا ہے جس سے مدّمقابل پر اس کی برتری واضح ہوجاتی ہے اوراس مقام پر چونکہ معیار خلافت کو ظاہر کر نا تھا لہذا باقی دنیاوی منافع کی اشیاءکے نام یا ان کے خواص کے متعلق سوال وجواب ایسا ہے جس طرح کسی سکول کے ماسٹر کے انتخاب کے لئے اُمیدواروں میں ہل چلانایا باغ لگانا یا کوئی دوسرا اِس قسم کا پہلو معیارِ کامیابی قرار دیا جائے، بلکہ اس جگہ تو اسی موضو ع کے متعلق سوالات ہی موزوں ہو ں گے مثلاًکیفیت تدریس یا ماہر مدرسین کی خصوصیات وحالات اوران کاطرز ِعمل موضوع امتحان ہو گا اوراس میں سبقت معیار انتخاب ہو گی اسی طرح ڈاکٹر ی امتحان میں تجارتی سوالات کا آنا نا موزوں ہے بلکہ اسی ہی موضوع سے متعلق سوالات مناسب ہیں  وعلی ھٰذالقیاس
 یعنی بالمقابل اُمیدوارں میں سے انتخاب کے لئے موزوں وکامیاب وہی قرار دیا جاتا ہے جو اسی مقام ونشست کےلئے زیادہ اہل ہو اوراس کی اہلیت تب ہی معلوم ہو گی کہ اسی مقام ونشست کی نوعیت کے سوالات اس سے کئے جائیں اوروہ ان کو حل کردے اس مقام پر ملائکہ خواہشمند تھے کہ خلافت ہم میں ہو اورخداکی مصلحت آدم کی خلافت میں تھی پس فرشتوں نے اپنی تسبیح وتقدیس جتلائی اوروہ یہ سمجھے کہ شاید تسبیح وتقدیس ہی معیار خلافت ہو گی اورحضرت آدم کی اولاد سے چونکہ فساد وخونریزی متوقع ہے لہذا ایسی مخلوق خلافت کے اہل نہیں ہوگی-
پس چونکہ ہر دوطرف اُمیدواران خلافت تھے لہذا امتحان بھی اسی نوعیت سے مناسب تھا چنانچہ پہلی دونوں روایتوں کے مضمون کے مطابق تمام خلفاءُاللہ (جن کے افضل وسردار محمد وآل محمد﷨ تھے) کے نام پیش کئے گئے جس کے جواب سے ملائکہ قاصر رہے اورآدم نے بتاکر فرشتوں سے اپنی علمی برتری کا لوہا منوالیا-
سوال: یہ عجیب مقابلہ ہےآدم کو خدا نے نام بتلادئیے تھے  چنانچہ خود فرماتا ہے کہ اس کو اللہ نے بتلائےاور فرشتوں کو نہیں بتلا ئے تھے تو اس مقابلہ میں فرشتو ں نے خواہ مخواہ ہارکھانی ہی تھی اور عدل خدا وندی کا تقاضا یہی ہے کہ فریقین کو تعلیم برابر دے کر مقابلہ کر واتا حالانکہ ایسا نہیں ہوا؟
جواب )۱(: مثال کے طور پر اگر ایک استاد اپنے دو شاگروں سے ان کی استعداد یا رحجانِ طبع کے ماتحت ایک کو ایک فن کی تعلیم دے کر اس کی ڈیوٹی اسی فن کے ماتحت متعین کر دے اور دوسرے کو کوئی دوسرافن دے کر اس کو اسی نوعیت کی ڈیوٹی سپرد کرنا چاہے اور پہلا شاگرد اپنے فن کے بل بوتے پر دوسری ڈیوٹی کے سنبھالنے کی خواہش کرے تو استاد اُسے اپنی غلطی تسلیم کرانے کے لئے دوسرے فن کے متعلق اس سے سوال کر کے اس کو خاموش کرا دے تا کہ وہ خود بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ واقعی میری خواہش نادرست ہے اور میرا فن صرف میری اپنی ڈیوٹی کے لئے کار آمد ہے اور اس دوسری ڈیوٹی کے لئے وہی موزوں ہے جو اس کا صاحب فن ہے تو اس صور ت میں پہلے شاگرد کویہ کہنے کی مجال نہیں کہ مجھے وہ فن کیوں نہ سکھایا گیا؟ پس اس میں نہ پہلے شاگرد پر تشدّد ظلم لازم آتا ہے اور نہ استاد کی جنبہ دار ی کا سوال پیدا ہوتا ہے کیونکہ استاد ان مصالح کو خود بہتر جانتا ہے-
یا حکومت وقت ایک شخص کو کسی ملک کے سفارت کےلئے نامزد کر کے اس کو اسی عہدہ کے متعلق امور ضرور یہ کی تعلیم دے کر دفترسفارت کے کاغذات اس کے سپرد کر دے اور پھر دوسرے شخص کو عدلیہ کا محکمہ سپرد کرنے کےلئے اس کو اس نوعیت کی تعلیم دلوا کر عہدہ سپرد کرنا چاہے اور پھر سفیر اپنے علم سفارت  کے پیش نظر عدلیہ کے عہدہ کی خواہش کرے اور بصورت ناکامی اپنی غلطی تسلیم کرے تو اُسے یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ مجھے پہلے سے وہ تعلیم کیوں نہ دلوائی گئی؟ پس اس میں نہ دل آزاری ہے اور نہ جنبہ دار ی-
جب ظاہری دنیا کا یہ حال ہے کہ انتخاب کرنے والے کے طرزِ عمل کو مناسب مصلحت سمجھ کر ایک فن کا نااہل اپنی نا اہلیت کا اعتراف کر لیا کرتا ہے اور یہ نہیں کہتا کہ مجھے اس فن کا اہل کیوں نہیں کہا گیا؟ تو چونکہ ملائکہ کو پیدا ہی تسبیح و تقدیس کےلئے کیا گیا تھا اور ان کی ڈیوٹی بھی وہی تھی اور حضرت آدم کو پیدا ہی خلافت زمین کےلئے کیا گیا تھالہذا علم خلافت اُن کو عطا کیا گیا اب اگر ملائکہ اپنی تسبیح و تقدیس کے بل بوتہ پر عہدہ خلافت کےلئے بھی اپنا نام پیش کریں اور علوم خلافت سے اپنے آپ کو نا اہل پا کر اپنی درخواست واپس لے لیں اور اپنے کئے کی معافی مانگ لیں تو بعید از عقل ہر گز نہیں اس میں ان پر تشدد و ظلم کا سوال ہی نہیں آتا اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حضرت آدم کی بر تری مان لی اور سر تسلیم جھکالیا اور سمجھ گئے کہ ہم جس عہدہ پر ہیں اسی کے اہل ہیں اور حضرت آدم کو جو عہدہ دیا گیا ہے وہ اسی کے اہل ہے-
جواب (۲): ممکن ہے یہ نام ملائکہ کو پہلے سے معلوم ہوں جس طرح کی جناب رسالتمآب اور ان کی آلِ طاہرین کی خلقت ِنوری کی احادیث میں کثرت سے اس کا ذکر موجود ہے، حتی کہ ملائکہ نے تسبیح و تہلیل کا طریقہ بھی انہی کی تسبیح و تہلیل سے سیکھا تھا اور ان میں بعض احادیث ہم نے تفسیرہذا کی جلد اوّل یعنی مقدمہ میں ذکر کی ہیں اور حضرت ا ٓدم چونکہ نووارد تھے اس لئے ان کو اب تعلیم کئے گئے نام تو ہر دو کو معلوم ہو گئے اب ان ناموںوالے جب عالم انوار میں ملائکہ کے سامنے پیش ہوئے تو ملائکہ کو گو نام معلوم تھے لیکن ہر نام کی نام والے کے ساتھ تطبیق نہ دے سکے کہ یہ فلاں ہے اور وہ فلاں ہے اور جب حضرت آدم سے سوال ہواتو انہوں نے ہر ایک نا م کو اپنےمسمّٰی  پر منطبق کر دیا، ملائکہ چونکہ مجرّدات سے ہیں لہذا ان میں علم اسی حد تک محدود رہتا ہے جتنا کو ان کو تعلیم کیا جائے اور مادہ بشریہ اور قوائے بدنیہ کا خاصہ ہے کہ عقل ان کی معیت میں اپنی تحصیل میں ترقی کر سکتی ہے، پس حضرت آدم نے علائم و خصوصیات کے پیش نظر اپنے غور و فکر یا اجتہاد سے ہر صاحب نام کا ملائکہ سے تعارف کرایا اور ملائکہ نے بھی اپنی معذرت میں خود اس چیز کا اظہار کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے:
قَالُوْا سُبْحَانَکَ لاعِلْمَ لَنَا اِلَّامَاعَلَّمْتَنَا : انہوں نے کہا تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی معلوم ہے جتنا تو نے ہمیں تعلیم فرمایا )یعنی اس سے آگے قدم ہم نہیں رکھ سکتے( یہ نہیں کہا کہ تو نے ہمیں بتا یا تو ہے لیکن جتنا بتایا ہے ہم اُسے دہرا سکتے ہیں اُس سےآگے نہیں چل سکتے، پس معلوم ہو ا کہ تعلیم مساوی تھی لیکن اس سے ترقی کرنا خاصہ بشریت تھا جس سے فرشتے عاجز تھے اورفرشتوں نے اس مرحلہ پر پہنچ کر یہ نتیجے حاصل کئے:
   خداوند﷯کا حضرت آدم کو خلافتِ ارضیہ کے لئے نامز د فرمانا عینِ مصلحت ہے جس سے ہم غافل تھے لہذا اپنے بے جاسوال پر اللہ سے توبہ کی اورمعافی مانگ لی جو قبول ہوئی-
   ان کے دلوں میں جو گھمنڈ تھا)کہ ہم عابد وتسبیح گزار ہیں اوراسی پر اِترا کریہ خیال کر لیا کہ ہم تمام مخلوق سے افضل ہیں( وہ ختم ہو گیا اورسمجھ لیا کہ ہم سے افضل وہ مخلوق ہے جو خلافت ارضیہ کے لئے نامزد کی گئی ہے-
   یہ بھی سمجھ لیا کہ خلافت الہٰیہ کا معیار صرف تسبیح وتقدیس نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کا فی استعداد علمیہ کی ضرورت ہے-
   ان کی نظر جو صرف بنی آدم کے فسادات وخونریزیوں پر مرکو ز تھی جس کی بنا پر وہ ان کو خلافت ارضیہ کےلئے ناموزوں سمجھتے تھے اب ان کے فضائل وکمالات کا پہلو بھی ان کے سامنے آگیا-
    حضرت آدم کا علمی کمال دیکھ کر ان کا استحقاق خلافت تسلیم کر لیا اوربحکم خدا اُن کو ان کے سامنے سر تسلیم جھکانا پڑا-
    ابلیس جو مدتوں ملائکہ کے ساتھ شریک عبادت رہا اس سرتابی سے اس کا خبثِ باطن بھی ان کو معلوم ہو گیا اورسمجھ گئے کہ نوریوں کی صحبت میں بھی ناری ناری ہوا کرتاہے اوربوقت امتحان اہل کمال کے سامنے جھک جانے سے قربِ بارگاہ نصیب ہو تا ہے اورجو اس مقام پر نکتہ چینی یا تکبّر کرے وہ راندہ بارگا ہ ہو کو مستحق لعنت ہو جایا کرتا ہے-
   ملائکہ کی نظر بنی آدم کے فسادی افراد پر تھی جو یقیناً عہدہ خلافت کیلئے اَن فٹ تھے لیکن جب عالم انوار میں حضرت آدم کی پشت سے ہونے والے حقیقی خلفا سے تعارف ہوا تو ان کے سامنے اپنی گردنیں خم کر دیں اور ان کی موالات و محبت کا عہد خدا سے کر لیا اور مان لیا کہ واقعی یہ لوگ زمین کی خلافت کے زیادہ حقدار ہیں جس طرح پہلے روایات میں گزر چکا ہے-
حضرت آدم کے بتا دینے کے بعد خداوند کریم نے ملائکہ کو تنبیہ مزید فرمائی کہ جس چیز کی حقیقت کا علم نہ ہو اس کے متعلق لب کشائی درست نہیں ہوتی چنانچہ فرمایا:
اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ الایہ: اس کی تفسیر میں امام حسن عسکری سے منقول ہے جیسا کہ تفسیر برہان میں پوری روایت مذکور ہے کہ جب تم اپنے ساتھ رہنے والے یعنی ابلیس کی بد باطنی سے مطلع نہیں ہو حالانکہ وہ تمہارے درمیان موجود ہے تو کسی غائب مخلوق کے متعلق جو ابھی آئی نہیں کس طرح ایک اٹل فیصلہ کر سکتے ہو؟ اور میں زمینوں و آسمانوں کے غیب کو اور تمہاری ظاہری و پوشیدہ سب باتوں کو جانتا ہوں-
 پس اس واقعہ سے صاف واضح ہوا کہ انسان کے جملہ اوصاف حمیدہ میں سے علم بلند و برتر صفت ہے اور یہی چیز خلافت الہٰیہ کا معیار ہے یہی وجہ ہے کہ مولائے کائنات حضرت امیرالمومنین مقام افتخار میں اپنے علم کو پیش فرماتے تھے جیساکہ ان کی طرف منسوب ہے کہ آپ نے فرمایا:
رَضِیْنَا قِسْمَةَ الْجَبَّارِ فِیْنَا               لَنَا عِلْمٌ وَ لِلْاَعْدَاءِ مَالُ
ہم اللہ کی تقسیم پر راضی ہیں کہ اس نے ہمیں علم دیا اوردشمنوں کو مال دیا
فَاِنَّ الْمَالَ یَفْنِیْ عَنْ قَرِیْبٍ    وَ اِنَّ الْعِلْمَ یَبْقٰی لا یَزَالُ
کیونکہ مال عنقریب فنا ہوجائے گا اورتحقیق علم باقی وغیر فانی دولت ہے
تفسیر برہان میں حضرت امیرالمومنین سے منقول ہے کہ جو مجھے چار خلیفوں میں سے چوتھا نہ کہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے، حسن بن زید کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق سے عرض کیا کہ آپ تو اس کے علاوہ کچھ اورفرماتے ہیں امامنے جواب دیا کہ یہ حدیث درست ہے کیونکہ خداوند کریم نے اپنی پاک کتاب میں حضرت آدم کو خلیفہ کہا پس وہ پہلا خلیفہ ہے اورحضرت داود کو بھی خلیفہ کہا پس وہ دوسرا خلیفہ ہے اورحضرت ہارون حضرت موسیٰ کا خلیفہ تھا وہ تیسرا ہے اورآپ (حضر ت علی) محمد مصطفی کے خلیفہ ہیں بنابریں ان کافرمان بجاہے کہ میں خلفائےاربعہ میں سے چوتھا ہوں -

ایک تبصرہ شائع کریں