تورات اوریہودیت
حضر ت موسیٰؑ کے بعد حضرت یوشعؑ یہودیوں کے
مذہبی پیشوا تھے اوران کے بعد یہودکی قیادت قاضیوں کے ہاتھ میں ایک عرصہ تک رہی
اورپھر بادشاہت نے اس کی جگہ لے لی چنانچہ ان کا پہلا بادشاہ طالوت تھا جس کا قرآن
مجید میں ذکر ہے اورپھر حضرت داﺅد ؑ
حضرت سلیمان ؑ یکے بعد دیگرے بادشاہ ہوئے اورحضرت سلیمان ؑ کے بعد ان میں اختلاف
شدید پیدا ہوگیا جس سے ان میں کمزوری روز افزوں پیدا ہوتی گئی اورتقریباً تیس
(۰۳)تک ان میں بادشاہ ہوئے۔
بخت نصر
اس کی وجہ تسمیہ کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے
کتیا کے دودھ سے پرورش پائی تھی جس کانام بخت تھا اوراس کتیا کے مالک کا نام نصر
تھا پس اس بنا پر اس کانام بھی بخت نصر مشہور ہوگیا اوربعض روایات میں سورنی کے
دودھ سے اس کا پرورش پانا بھی ملتا ہے نیز بعض نے کہا ہے کہ بخت کا معنی بیٹا
اورنصر اس بت کا نام تھا جس کا یہ پجاری تھا اس وجہ سے اس کانام بخت نصر یعنی نصر
کابیٹا مشہور ہوگیا۔
جب بابل کا بادشاہ ہوا تو اس نے یروشلم (بیت
المقدس) کو فتح کرلیا اوریہودیوںپر اس کی حکومت کا سکہ جم گیا لیکن تھوڑے ہی عرصہ
میں انہوں نے اس کی اطاعت سے سرکشی کی تو اس نے لشکر جرار بھیج کر ان کو بری طرح
ذلیل کیا ان کے خزانے لوٹ لئے مسجد اقصیٰ کو خراب کیا اور ان کے قریباً دس ہزار
سربر آوردہ افراد کو اسیر کر لیا اور ان پر انہی میں سے ایک شخص صدقیا کو بادشاہ
مقرر کیا جس سے اپنی اطاعت کا عہد لے لیا لیکن دس سال کے عرصہ میں فرعون مصر سے
ساز باز کر کے اس نے پھر بخت نصر کی ماتحتی سے بغاوت کا اعلان کیا جس کے نتیجہ میں
اس نے دوبارہ ان پر فوج کشی کی اور تقریباً ڈیڑھ سال تک ان کا محاصرہ جاری رکھا
اور آخر کار فتح کر لیا اور اس دفع اس نے ان کوپوری طرح تباہ برباد کر ڈالا بروایت
چھ لاکھ کی فوج سپاہ کے ساتھ حملہ آور ہوا تھا (سفینہ)
اس واقعہ میں بخت نصر نے یہودیوں کی تمام
عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں کو ختم کر ڈالا تھا اور اس کے پچاس سال بعد تک
یہودیوں کے پاس نہ کوئی کتاب تھی نہ کوئی دوسری مذہبی نشانی باقی رہی تھی آخر
حکومت نے پلٹا کھایا بنی اسرائیل بابل کے قید خانہ سے آزاد ہوئے ان میں سے ایک شخص
عزرا جو بادشاہ وقت کا مقرب ہو گیا تھا اس کو بنی اسرائیل کا امیر مقرر کیا گیا
اور اس کو تورات کے لکھنے اور عبادت گاہوں کی از سر نو تعمیر کی اجازت دی گئی۔
پس یہ لوگ واپس بیت المقدس کی طرف پلٹے اور
عزرا نے پرانی کتابوں کی تلاش کر کے تورات کو از سر نو لکھا اور یہودیوں کے پاس اب
تک وہی تورات موجود ہے۔
یہ واقعہ صاف بتلاتا ہے کہ تورات موجودہ کی
سند حضرت موسیٰؑ سے متصل نہیں ہے اور نیز کتاب تورات کا جامع عزرا نامی شخص بھی
ایک غیر معلوم آدمی ہے لہذا نسخہ تورات کی پوزیشن کافی مخدوش ہے اور اس کے بعد اس
پر تحریف اور تحریف کا استبدادی دور تو اس کو اپنی اصلی صورت سے کہیں کا کہیں دور
لے گیا تاہم قرآن مجید کی اقتباسات سے اس قدر پتہ ضرور چلتا ہے کہ دو رنبوت کی
موجودہ تورات میں بعض احکام اپنی اصل پر باقی بھی تھے جن کی طرف رجوع کرنے کا بعض
اوقات ان کو حکم دیا جاتا تھا (ملخّص از میزان)