حضرت ارمیا ؑ یا حضرت عزیر ؑ کی موت
جب بخت نصر بنی اسرائیل کو قتل کر چکا تو
نبی کی طرف پیغام بھیجا کہ تو اللہ کا نبی ہے اگر چاہے تو میرے ہاں قیام کرو اور
نہیں تو جہاں جاﺅ میری طرف سے کھلی اجازت ہے آپ ؑ نے وہاں سے
روانگی کو پسند فرمایا اس کے بعد قصہ وہی ہے جس کو قرآن مجید بیان فرما رہا ہے۔
قَالَ کَمْ لَبِثْت: حضرت ارمیا ؑ جب روانہ
ہوئے تھے تو گدھے پر سوار تھے اور ان کے ساتھ زادِ راہ انجیر و انگور اور شیرہ تھا
پس جب اس بستی سے ان کا گزر ہوا جس کو بخت نصر نے تباہ و برباد کر دیا تھا کشتوں
کے پشتے لگے ہوئے تھے، دل میں سوچا کہ خدا ان کو کیسے زندہ کرے گا؟ یعنی ان کی
زندگی کی خواہش کی تاکہ اپنی آنکھوں سے قدرت خدا کو ملاحظہ کریں پس خدا نے ان کو
موت دے دی اور ایک سو سال تک وہ وہاں مر کر سوئے رہے ۔
جب وہ پہلی دفعہ وہاں سوئے تھے تو دن چڑھا
ہوا تھا اور جب سو برس کے بعد خدا نے ان کو دوبارہ زندہ کیا تو سورج مغرب کی طرف
تھا پہلے پہل ان کی آنکھوں میں روح پلٹائی گئی اور سوال کیا گا کہ بتائیے تم یہاں
کس قدر ٹھہرے رہے ہو؟ جواب دیا کہ ایک دن کا مل پھر جب سورج کی طرف نگاہ کی تو
فوراً کہا بلکہ دن کا کچھ حصہ، پس ارشاد ہوا نہیں بلکہ تم تویہاں ایک سو سال ٹھہرے
رہے ہو اب اپنی یا اپنے گدھے کی ہڈیوں کو ملاحظہ کرو کہ ہم کس طرح ان کو آپس میں
جمع کرتے ہیں اور پھر ان پر گوشت پہناتے ہیں تو اس کے بعد حضرت ارمیا ؑ دیکھتے رہے
اور ان کے سامنے ان کے بقیہ بدن کی ہڈیاں جو خاکستر ہو چکی تھیں اکٹھی ہونی شروع
ہو گئیں اور آپس میں ملتی گئیں، جب سب اعضااپنے مقام پر آگئے تو اوپر گوشت پوست
پھر مکمل ہو گیا اور خود بھی اُٹھ بیٹھے اور ان کا گدھا بھی زندہ ہو کر کھڑا ہو
گیا پھر ارشاد ہوا کہ:
فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِک: یعنی اپنے
زادِراہ کو ملاحظہ کرو جو کہ بہت جلد خراب ہو جانے والی چیزیں ہےں لیکن بقدرت خدا
ابھی تک مثل تازہ کے ہیں اور باسی نہیں ہوئیں پس جب حضرت ارمیا ؑ نے اپنی آنکھوں
سے یہ سب کچھ ملاحظہ کیا کہنے لگے بےشک مجھے یقین ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
یہ واقعہ حضرت قائم آل محمد ؑ کی طویل زندگی
پر وارد ہونے والے تمام اعتراضات کا جواب ہے جو خدا یک بہت جلد خراب ہو جانے والے
عام میوہ جات کو ایک عرصہ دراز تک تر و تازہ رکھ سکتا ہے کیا وہ اپنے کسی خاص بندے
کو ایک طویل عرصہ تک زندہ رکھنے پر قادر نہیں؟ بےشک وہ قادر ہے اور اس نے اپنی
مصلحت سے ایساکیا ہے۔
یہ قصہ اگر چہ بعض روایات میں حضرت ارمیا ؑ
کی طرف منسوب ہے لیکن زیادہ مشہور حضرت عزیر ؑ کے متعلق ہے اور حضرت امیر المومنین
ؑ سے منقول ہے کہ جب حضرت اپنے گھر سے نکلے تھے تو ان کی زوجہ حاملہ تھی اور ان کی
عمر اس وقت پچاس برس کی تھی جب سو برس کے بعد دوبارہ زندہ ہوئے تو ان کی عمر وہی
پچاس برس ہی تھی جب گھر تشریف لائے اور ان کا فرزند اس وقت سو برس کا تھا اور عمر
میں حضرت عزیر ؑ سے پچاس برس بڑا تھا اور یہ اللہ کی آیات میں سے ہے؟
کہتے ہیں کہ بخت نصر نے تورات کو جلا دیا
تھا پس جب حضرت عزیرؑ واپس آئے تو انہوں نے تورات کو از سر نو اپنے حفظ سے لکھ دیا
بنی اسرائیل اس بات پر باور نہیں کرتے تھے کہ یہ وہی تورات ہے یا اس میں کمی یا
بیشی ہے؟ تو ان میں ایک شخص نے کہا کہ میرے دا دا نے اپنے باغ میں تورات کا نسخہ
دفن کروایاتھا مجھے وہاں لے چلو تاکہ اسے وہاں سے نکال کر مقابلہ کر کے دیکھیں، جب
تو رات کا وہ نسخہ برآمد کر کے لائے اور اس کے ساتھ اس کا مقابلہ کرایا گیا تو ایک
حرف تک کا فرق نہ آیا تو لوگوں نے حضرت عزیر ؑ کو خداکا بیٹا کہنا شروع کر دیا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت محمد باقرؑ کو جب
ہشام بن عبد الملک نے دمشق میں طلب کیا تھا تو واپسی پر مجلس نصاریٰ میں نصرانی پا
دری نے منجملہ دیگر سوالات کے آپ ؑ سے ایک سوال یہ بھی کیا تھا کہ وہ کو ن دو
بھائی ہیں جو ایک دن پیدا ہو ئے؟ اور ایک ہی دن ان کا انتقال ہو ا؟لیکن ایک کی عمر
پچاس برس کی تھی اور دوسرے کی عمر ایک سو پچاس برس تھی؟ تو آپ ؑ نے ارشاد فرما یا
تھا کہ وہ دو بھائی حضرت عزیر ؑ اور ان کا بھائی تھے کہ دونوں ایک ہی دن پیدا ہو ئے
اور تیس۰۳ برس کی عمر میں حضرت عزیر ؑ کے گھر سے نکلے تھے اور ایک سو سال مر کر
پھرزندہ ہوئے تو ویسے ہی تیس برس کی عمر میں واپس گھر تشریف لائے اس وقت ان کے
بھائی کی عمر ایک سو تیس برس تھی، پھر بیس برس دونوں بھائی اکٹھے رہے اور ایک ہی
دن دونو ں کا انتقال ہو اتو حضرت عزیر ؑ کی عمر پچاس برس تھی اور ان کے بھائی کی
عمر اس وقت ایک سو پچاس برس تھی۔
کہتے ہیں کہ حضرت عزیر ؑجب گھر تشریف لائے
اور کہا کہ میں عزیر ؑ ہو ں تو ان کی بات پر کو ئی باور نہیں کرتا تھا، آخر کار جب
انہوں نے تورات کو اپنے حفظ سے تلاوت فرمایا اور انہوں نے اپنے پاس محفوظ تو رات
سے اس کا مقا بلہ کیا تو یقین کیا کہ واقعی عزیر ؑ ہیں۔
حضرت عزیر ؑ جب واپس آئے تو ان کے گھر کی
ہیئت پہلے سے تبدیل تھی جب دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک بوڑھی کنیزباہر آئی جو بوقت
روانگی حضرت عزیر ؑ بیس برس کی تھی اور اب وہ ایک سو بیس برس کی ہو کر اندھی ہو
چکی تھی، آپ ؑ نے پوچھا کہ عزیر ؑ کا گھر یہی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں؟ لیکن تو
عزیر ؑ کو کیسے پہچانتا ہے؟ وہ تو ایک سو بیس برس سے عدم پتہ ہیں؟ آپ ؑ نے فرمایا
میں خود عزیر ؑ ہوں مجھے خدا نے ایک سو برس مردہ رکھنے کے بعد اب دوبارہ زندہ کیا
ہے، اس کنیز نے باور نہ کیاحضرت عزیر ؑ نے ان کے حق میں دعا کی کہ وہ بینا ہوگئی
اور حضرت عزیر ؑ کو اس نے پہچان لیا اور بنی اسرائیل کو خبر دی(ملخص از
تفاسیرامامیہ)
بہر کیف اس بارہ میں روایات مختلف ہیںاس قدر
یقینی صورت ہے کہ وہ ایک سو سال مردہ رہے اور پھر زندہ ہوئے خواہ وہ حضرت عزیر ؑ
ہوں یا حضرت ارمیا ؑ خواہ وہ پچاس سال کی عمر میں گھر سے نکلے تھے یا تیس برس کی
عمر میں تشریف لے گئے اور خدا وند کریم کو قدرت ہے کہ ایک عرصہ طویل تک مردہ رکھنے
کے بعد کسی کو زندہ کرے، جو خدا ابتداً تمام کائنات کو بغیر مادہ کے پیدا کرنے پر
قادر ہے تو اس کے لئے دوبارہ کسی کو زندہ کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے، اور اس قسم
کے واقعات سے رجعت کے اعتقاد کو بھی تقویت ملتی ہے کہ جب حضرت حجت ؑ تشریف لائیں
گے تو تمام خالص مومن اور خالص دشمن دوبارہ زندہ ہوں گے اور آنحضرت ؑ دشمنوں سے
انتقام لیں گے اور پھر دوبارہ زندہ ہونے والے مومنین ان کے ظلِّ عا طفت میں ایک
وقت تک پر امن زندگی بسر کر کے دنیا سے رخصت ہوں گے اور خدا ایسا کرنے پر قادر ہے۔