واقعاتِ بنی اسرائیل درسِ عبرت ہیں
بنی اسرائیل کے واقعات اُمت
اسلامیہ کے لئے درس عبرت ہیں-
اس میں شک نہیں کہ قرآن کا
ظاہر بھی ہے اورباطن بھی ہے، چنانچہ تفسیر
ہذا کی جلد اوّل [1] میں ہم نے
اس مطلب کو ایک مستقل عنوان کے تحت قدر ے تفصیل سے بیان کیا ہے اورابتدائےعنوان
میں کتاب ”الاتقان“ سے ایک روایت نقل کی ہے جو ابن مسعود سے مروی ہے:
اِنَّ
الْقُرْآنَ نَزَلَ عَلٰی سَبْعَةِ اَحْرُفٍ
مَا مِنْھَا حَرْفٌ
اِلَّا وَ لَہُ ظَھْرٌ
وَ بَطْنٌ
وَ اِنَّ عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ عِنْدَہُ مِنْہُ عِلْمُ الظَّاھِرِ وَ
الْبَاطِنِ-
قرآن سات قراٴتوں یا سات قسموں میں اُتراہے اوراُن میں سے ہر ایک کے لئے
ظاہر بھی ہے اورباطن بھی اورتحقیق حضرت علی بن ابی طالب کے پاس اس کے
ظاہر وباطن دونوں کا علم ہے-[2]
اس کی وضاحت بروایت عیاشی
حضرت امام محمد باقر نے یوں فرمائی ہے کہ آپ نےعمران کو فرمایا ظاہر قرآن سے وہ
لوگ مراد ہیں جن کے حق میں نازل ہوا اورباطن سے مرادوہ لوگ ہیں جو ان جیسے اعمال
کریں پس جو کچھ ظاہراً ان کے متعلق اُترا ہے وہ باطناًان میں جاری ہے-
اوراس کی دلیل بروایت
ابوبصیر حضرت امام جعفر صادق سے اس طرح مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :
وَ لَوْکانَتْ
اِذَا نَزَلَتْ اٰیَةٌ
عَلٰی رَجُلٍ ثُمَّ مَاتَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ مَاتَتِ الْاٰیَةُ لَمَاتَ الْکُتُبُ
وَ لٰکِنَّہُ حَیٌّ
یَّجْرِیْ فِیْمَابَقِیَ کَمَاجَرٰی فِیْمَنْ مَضٰی
اگرایسا ہوتاکہ جب ایک آیت
ایک شخص کے متعلق اُتری اوروہ شخص بعد میں مرگیا تواس کے ساتھ اگر وہ آیت بھی مردہ
ہوجاتی تو اس طرح تو پھر سب کتاب مردہ ہوگئی ہوتی حالانکہ وہ زندہ ہے اورآنے والوں
کو ایسے شامل ہے جیسے گزشتہ لوگوں پر شامل تھی-[3]
پس اس قدر عرض کرنے کے بعد
مقام غور ہے کہ اگر بنی اسرئیل کے واقعات صرف انہی تک محدود ہوتے تو اُن کا
تاقیامت ہدایت اورحجّت ہونا ساقط ہوجاتا حالانکہ جس طرح قرآن تاقیامت باعث ہدایت
ہے اسی طرح اس کی ہر آیت تاقیامت باعث ہدایت ہے اورقرآن اگر قیامت تک زندہ ہے تو
اس کی ہر آیت تاقیامت زندہ و باقی ہے، صرف فرق یہ ہے کہ جن لوگوں کے حق میں یہ
آیات اُتری ہیں وہ ان کا محل تنزیل اور ظاہر کے لحاظ سے تھا اور تا قیامت اُن کی نشانِ راہ پرچلنے والے ان آیات کا محل
تاویل وباطن کے لحاظ سے ہیں، پس قرآن میں جس قدر نیک لوگ ظاہر ی تنزیلی مصداق آیات
ہیں تو قیامت تک آنے والے نیک افراد انہی آیات کے باطنی وتاویلی مصداق ہوں گے
اورجتنے خدا کے نافرمان اورانبیاومومنین کے دشمن قرآن کی آیات کے ظاہری طور پر
محل تنزیل ہیں ان سے باطنی طور پر محل تاویل تاقیامت وہ لوگ ہیں جو انہی کی طر ح
خداوند اور رسولﷺ ومومنین سے عداوت رکھتے ہیں، امت اسلامیہ کے حالات کی تشبیہ بنی اسرئیل کے
حالات سے آثار منقولہ میں کافی موجود ہے، چنانچہ سورہ مزمل میں خود قرآن کریم کا
ارشاد ہے:
اِنَّا
اَرْسَلْنَا اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَا اَرْسَلْنَا اِلٰی
فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنَاہُ اَخْذًا وَّبِیْلًا
فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانُ شِیْبًا الخ
تحقیق ہم نے تمہاری طرف رسول
بھیجا جو تمہارے اُوپر شاہد ہے جس طرح کہ ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا
پس نافرمانی کی تھی فرعون نے اس رسول (حضرت موسیٰ) کی پس ہم نے اس کی گرفت کی تھی سخت
طریقہ سے، پس تم کس طرح بچ سکوگے اگر تم نے کفر کیا اُس دن سے (جس کی سختی) بچوں
کو بوڑھا کردینے والی ہے-[4]
اِن آیاتِ مبارکہ میں ذاتِ
احدیت نے حضرت محمد مصطفیﷺ کو حضرت موسیٰ سے تشبیہ دے کر اس کے بعد خود فیصلہ
فرمایا کہ جس طرح فرعون نے حضرت موسیٰ کی مخالفت کی اورپھر ہماری سخت گرفت
میں آگیا اسی طرح اے امت محمد! اگر تم بھی کفر
وسرکشی کرو گے تو ہماری قیامت کی گرفت سے ہرگزنہ بچ سکو گے، گویا اُمت محمدی کا
اُمت موسیٰ سے مشابہ ہونا اگرچہ ان آیات کا مصداق صریح نہیں لیکن مفہوم ضمنی کے
طور پر مراد ہونا بھی بعید ازعقل نہیں اورپھر احادیث کی تائید سے تو یہ بات روزِ
روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے-
عَنْ
عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ لَیَاتِیَنَّ عَلٰی
اُمَّتِیْ مَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ حَذُوْا النَّعْلَ بِالنَّعْلِ حَتّٰی
اِنْ کانَ مِنْھُمْ مَنْ اَتٰی اُمُّہُ عَلانیَّةً لَکاَنَ فِیْ اُمَّتِیْ مَنْ
یَّصْنَعُ
ذٰلِکَ (الحدیث)
عبداللہ بن عمر سے مروی
ہے جناب رسالتمآبﷺ نے فرمایاکہ میری اُمت میں وہی کچھ ہوگا جو بنی اسرئیل میں ہوا، میری اُمت کا
کردار اُن سے اسی طرح برابر ہوگا جس طرح جوتے کے دوپیزار ایک دوسرے کے بالکل
برابرہوتے ہیں، یہاں تک کہ اگر ان میں سے اپنی سگی ماں کے ساتھ زناکرنے والے ہوں
گے تو میری امت میں بھی بعض افراد ایسے پیدا ہوں جو ایسا کریں گے-[5]
نیز ترمذی میں ایک باب مستقل
اس عنوان سے قائم ہے کہ آپ نے فرمایا لَتَرْکَبُنَّ
سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کہ اے میری امت ضرور تم انہی لوگوں کے
طریقہ پر چلو گے جو تم سے پہلے تھے-
اوراس کے ضمن میں ایک حدیث
نقل کی ہے کہ جناب رسالتمآبﷺ غزوہ حنین کی طرف جاتے ہوئے مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے گزرے جس کو وہ ذات
انواط کہتے تھے تو صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ ہمارے لئے بھی ایک ذات انواط
بنائیں جس طرح ان کا ہے، آپ نے فرمایا
سبحان اللہ تم ویسی باتیں کرتے ہو جس طرح قوم موسیٰ حضرت موسیٰ سے کرتی تھی
کہ انہوں نے بھی بت پرستوں کو دیکھ کر حضرت موسیٰ کو کہا تھا اِجْعَلْ
لَنَا اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَةٌ ہمارے لیے آپ ایسے معبود
بنائیں جس طرح ان کے معبود ہیں اورپھر فرمایا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ
قدرت میں میری جان ہے کہ تم گزشتہ لوگوں کے طریقوں پر ضرورچلوگے-[6]
اوربطریق اہل بیت ہم نے
دسویں رکوع کی تفسیر میں ثُمَّ
اَنْتُمْ ھٰوُلَآءِتَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَکُمْ کے ذیل میں ذکر کیا ہے
کہ جناب رسالتمآبﷺ نے جب بنی اسرائیل کا نبیوں کی تکذیب کرنا اوراولیاءُ اللہ کا قتل کرنا ذکر
کیا تو بعد میں فرمایا کہ میری اُمت میں بعض لوگ ایسے ہوں گے جو بنی اسرائیل کے
یہودیوں کے مشابہ ہوں گے میری اُمت کہلوائیں گے اورمیری شریعت وسنت کو تبدیل اور
میرے شہزادوں امام حسن و امام حسینکو قتل کردیں گے جس طرح ان یہودیوں نے حضرت زکریا اور حضرت یحیی کو قتل کیا تھا، پس جس طرح اُن پر
خدا کی لعنت تھی اِن پر بھی خدا کی لعنت ہو گی اور پھر قیامت سے پہلے حسین کی اولاد سے
حضرت مہدی تشریف لاکر اُن سے انتقام لیں گے اور
ان کوو اصل جہنم کریں گے، پوری حدیث اپنے مقام پر گزر چکی ہے -[7]
اور ترمذی میں افتراق امت
والی گزشتہ حدیث کے آخری الفاظ جن کا ترجمہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل بہتّر گرہوں میں
تقسیم ہوگئے اور میری اُمت کا تہتّر فرقہ ہو گا جن میں سے سب جہنمی ہو ں گے سوائے
ایک کے، لوگوں نے دریافت کیا یا رسول اللہﷺ وہ کونسا فرقہ ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا کہ جومیرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر
ہوگا-
حدیث کے آخری الفاظ عام
لوگوں میں اشتباہ کاموجب ہیں لیکن بنی اسرائیل اورحضرت موسیٰ سے تشبیہ پر غور کرنے سے نتیجہ
نکالنے میں منصف طبائع قطعاً دھوکا نہیں کھا سکتیں اوّلاًتو یہ دیکھنا ہوگا کہ
حضرت موسیٰکے ساتھیوں سے کون لوگ مراد ہیں؟ کیا وہ سب لوگ حضرت موسیٰ کے صحابہ
میں داخل ہوں گے جو چھ لاکھ یا اس سے کم وبیش حضرت موسیٰ کے ساتھ چل کر پانی سے پار ہوئے تھے؟
یعنی اگر حضرت موسیٰ وصیت فرمائیں کہ میری امت کے بہتّر
فرقوں میں سے صرف ایک ناجی ہوگا اوراکہتّر ناری ہونگے اورپھر کوئی سوال کرے کہ
ناجی فرقہ کونسا ہوگا ؟ تو وہ یہی فرمائیں کہ جو میرے اورمیرے ساتھیوں کے طریق پر
ہوگا تو اس کا یہی مطلب ہے کہ حضرت موسیٰ کے چھ لاکھ صحابہ میں سے ہر ایک کی
سنت پر عمل جائز ہے اوران سب کا طریق صحیح ہے ؟ تو قرآن کی رُو سے ماننا پڑے گا کہ
اس صورت میں حضرت موسیٰ کے صحابہ سے مراد صرف وہی لوگ ہوں گے
جو حضرت موسیٰکے صحیح پیرو تھے ورنہ گوسالہ پرست بھی حضرت موسیٰ کے صحابہ سے تھے، عمالقہ سے جنگ کا
انکار کرنے والے بھی ان کے صحابہ تھے، خدا کے دیکھنے کے شیدائی بھی ان کے صحابہ
تھے، بات بات پر حضرت موسیٰ کو ٹوکنے والے بھی ان کے صحابہ میں
سے ہی تھے، اگر یہ سب واجب الاتباع ہوتے تو قرآن کریم ان کی اس قدر مذمت نہ فرماتا
بلکہ تمام امتوں کو متنبہ فرمارہاہے اورآیندہ کے بنی اسرائیل کو بھی نصیحت
فرمارہاہے کہ خبردار ان کے پیچھے نہ جاوٴ-
پس حضرت موسیٰ اوران کے
صحیح صحابہ کا راستہ ہی وہی بہتّرمیں سے ایک ممتاز راستہ ہےجو آیندہ کے تمام بنی
اسرائیل کے لئے راہِ نجات ہے، آپ جب کوہ ِطور پر تشریف لے گئے تو حضرت ہارون کو خلیفہ
بناکرگئے اوراُمت کو اُن کی پیروی کی تاکید فرماگئے لیکن باوجود انتہائی تاکید کے
اکثریت گوسالہ پرست ہوئی اورتھوڑے بندے حضرت ہارون کے ہمنوا رہے اورحضرت موسیٰ کے چلے جانے
کے بعد حضرت یوشع بن نون ان کے نامزد وصی وخلیفہ تھے لیکن اکثریت
منحرف رہی اوراقلیت ہی ان کے ساتھ رہی، یعنی ۷۱ فرقہ نافرمان رہااورصرف ایک فرقہ
حضرت موسیٰ کی وصیت پر رہا جس طرح کہ حدیث مذکور
صریح طور پر بتا رہی ہے-
بنابریں اُمت اسلامیہ کے
تہتّر فرقوں میں سے ناجی صرف ایک فرقہ ہے
جو جناب محمد مصطفیﷺ اور آپ کے صحابہ کا ہے لیکن بنی اسرائیل کے واقعات وحالات کی تشبیہ کے اعتبار
سے صحابہ رسول سے بھی وہی صحابہ مراد ہوں گے جو جناب رسالتمآبﷺ کے حین حیات ان کے صحیح پیرو تھے اوران کے بعد ان کے نامزد وصی وخلیفہ کے
مطیع فرمان رہے-
اس مقام پر چند احادیث جن کو
علامہ نے ”نہج الحق“ میں کتب معتبرہ عامہ سے نقل کیا ہے ذکر کرتا ہوں:
مِنَ
الْمُسْنَدِ عَنْ سَلْمَان قَالَ قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَنْ وَصِیُّکَ قَالَ
یَا سَلْمَانُ مَنْ کَانَ وَصِیُّ اَخِیْ مُوْسٰی؟ قَالَ یُوْشَعُ بْنُ نُوْنٍ
قَالَ فَاِنَّ وَصِیِّیْ وَ وَارِثِیْ یَقْضِیْ دَیْنِیْ وَ یُنْجِزُ وَعْدِیْ
عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ
مسند احمد بن حنبل میں جناب
سلمان سے مروی ہے کہ اُنہوں نے جناب رسالتمآبﷺ سے دریافت کیا آپ کا وصی کون ہوگا ؟ حضورﷺ نے فرمایا اے سلمان میرے بھائی موسیٰ کا وصی کون تھا؟ جواب دیاکہ حضرت
یوشع بن نون ان کا وصی تھا، تو آپ نے فرمایا کہ
میرا وصی اوروارث جو میرے قرضے ادا کرے گا اور میرے وعدے وفاکرے گا وہ علی بن ابی
طالب ہے -
عَنْ مُسْنَدِ
اَحْمَدَ وَ الْبُخَارِی وَ الْمُسْلِمِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ لِعَلِیٍّ اَمَا
تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَہ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّا اَنَّہُ
لَاْ نَبِیَّ بَعْدِیْ
مسند احمد بن حنبل، صحیح
بخاری اورصحیح مسلم میں مروی ہے کہ جناب رسالتمآبﷺ نے حضرت علی کو فرمایاکہ کیا تیرے لئے کافی نہیں
کہ تیری مجھ سے وہ نسبت ہے جو حضرت ہارون کو حضرت موسیٰ سے تھی فرق صرف یہ ہے کہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ کے خلیفہ
تھے اورنبی بھی تھے لیکن میرے بعد نبی کوئی نہیں یعنی تو صرف میرا خلیفہ ہے-[8]
یہ روایت جناب رسالتمآبﷺ کے بعد حضرت علی کی خلافت پر
نص صریح ہے -
اورایک حدیث میں حضورﷺ نے حضرت علی کو حضرت عیسیٰ کے مثل قرار دیا ، یہ روایت مستدرک
حاکم اورخصائص نسائی اوراستیعاب سے بھی نقل کی گئی ہے:
عَنْ مُسْنَدِ
اَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لِعَلِیٍّ اِنَّ فِیْکَ
مَثَلًا مِنْ عِیْسٰی اَبْغَضَہُ الْیَھُوْدُ حَتّٰی اِتَّھَمُوْا اُمَّہُ وَ
اَحَبَّہُ النَّصٰرٰی حَتّٰی اَنْزَلُوْہُ الْمَنْزِلَ الَّذِیْ لَیْسَ لَہُ
بِاَھْلٍ
مسند احمد بن حنبل سے مروی
ہے کہ تحقیق جناب رسالتمآبﷺ نے حضرت علی سے فرمایا کہ تحقیق تجھ میں حضرت
عیسیٰ کی سی مثال ہے ان سے یہودیوں نے بغض
رکھا کہ اُن کی مادرگرامی پر تہمت لگائی اور نصاریٰ نے اُن سے حدسے زیادہ محبت کی
کہ ان کو ایسی منزل پر لے گئے جس کے وہ اہل نہیں تھے (یعنی ان کو خدا کا بیٹا کہنا
شروع کردیا)
اس مقام پر حضرت
امیرالمومنینکے جملہ فضائل کا ذکر کرنا مطلوب نہیں ورنہ کتاب موضوع سے خارج ہوجائے گی صرف
مناسبت مقام کے لئے یہ حدیثیں کتب صحاح اہل سنت سے نقل کی ہیں جن کو فضل بن
روزبہان جیسے متعصّب نے بھی اپنی کتاب” ابطال الباطل “ میں تسلیم کیا ہے، ہاں اسی
مناسبت کی ایک اورحدیث بھی پیش کرتا ہوں جس کو مسند احمد بن حنبل سے علامہ نے نقل
کیا ہے:
اِنَّ
النَّبِیَّ قَالَ مَنْ اَذٰی عَلِیًّا فَقَدْ اَذَانِیْ اَیُّھَاالنَّاسُ مَنْ
اَذٰی عَلِیًّا بَعَثَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَھُوْدِیًّا اَوْ نَصْرَانِیًّا
حضورﷺ نے فرمایا جس نے علی کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی، اے
لوگوجو علی کو اذیت دے گا وہ بروز محشر یہودی
یانصرانی ہو کر اُٹھے گا، یہ حدیث دلائل الصدق میں متعدد کتب معتبرہ سے منقول ہے-
سابقہ روایات میں حضرت علی کو حضرت ہارون وحضرت یوشع وحضرت عیسیٰ سے تشبیہ دی گئی ہے اورآخری روایت میں حضرت علیکے رنجیدہ کرنے والوں کو یہودی ونصرانی کہاگیا ہے اوراس سے قبل ایک روایت میں
امام حسن وامام حسین کے قاتلین کو اُمت محمدیہ کے یہودی
کہاگیا ہے اوریہ کہ حضرت امام حسین کی اولاد سے حضرت مہدی ظاہر ہو کر اُن سے انتقام لیں گے-
اورتفسیر برہان میں اَمْ
تُرِیْدُوْنَ الخ رکوع نمبر ۱۳ کی تفسیر میں جناب رسالتمآبﷺ نے حضرت علی کو حضرت آدم کے جلال، حضرت شیث کی حکمت،
حضرت ادریس کی ہیبت، حضرت نوح کے شکروعبادت، حضرت ابراہیم کی وفاوخلت، حضرت موسیٰ کی دشمنان خدا سے عداوت اورحضرت
عیسیٰ کی مومنین سے حسن معاشرت سے تشبیہ دی
ہے )حدیث اختصار کے پیش نظر ترک کردی ہے (
پس ان روایات وآثار سے صاف
طور پر معلوم ہوا کہ حضرت رسالتمآبﷺ کے بعد حضرت علی سے لے کر حضرت مہدی تک کے بارہ امام جناب رسول خداﷺکے صحیح جانشین اورقائم مقام ہیں جن کی مخالفت وعداوت کرنے والے اس اُمت کے
یہودی ہیں-
اورجس طرح بنی اسرئیل حضرت
موسیٰ کے خلیفہ حضرت ہارون سے کنارہ
کشی کرکے سامری کی اطاعت میں گوسالہ پرست و مشرک ہوگئے تھے اسی طرح حضرت علی سے روگردانی
اورغیر کی اطاعت اس امت کے لئے سامری کی اطاعت اورگوسالہ پرستی ہوگی-
اورجس طرح حضرت موسیٰ کے بعد ان کے وصی حضرت یوشع بن نون خلیفہ برحق تھے اور ان کی اطاعت
والاگروہ ہی ناجی اورباقی اکہتّر جہنمی اورقا بل نفرین تھے اسی طرح حضرت رسول خداﷺکے بعد حضرت علیمثل یوشع کے واجب الاتباع ہیں اورانہی کی پیروی باعث نجات ہوگی اوران کو چھوڑنے والے مستحق عذاب ہوں گے-
جس طرح حضرت موسیٰکے قائم مقام نبیوں کے قاتل جہنمی اورمستحق لعنت ہیں اسی طرح حضرت رسول خداﷺ کے قائم مقام خلفاومعصومین کے قاتل جہنمی اورمستحق لعنت ہیں، جیسا
کہ گزشتہ ایک حدیث میں حضور ﷺنے حسنین شریفین کے قاتلوں کو یہودی اورلعنتی کہاہے-
تفسیر برہان میں قَالَتِ
الْیَھُوْدُ لَیْسَتِ النَّصَارٰی کے تحت حضرت علی سے منقول
ہے:
فَھٰوُلَآءِ
بَنُوْا اِسْرَآئِیْلَ نُصِبَ لَھُمْ بَابُ حِطَّةٍ وَ اَنْتُمْ یَا مَعْشَرَ
اُمَّةَ مُحَمَّدٍ نُصِبَ لکُمْ بَابُ حِطَّةِ اَھْلِ بَیْتِ مُحَمَّدٍ وَ
اُمِرْتُمْ بِاِتِّبَاعِ ھُدَاھُمْ وَ لُزُوْمِ طَرِیْقِھِمْ لِیَغْفِرَلَکُمْ
بِذٰلِکَ خٰطٰیٰکُمْ وَ ذُنُوْبُکُمْ وَ لِیَذْدَادَ الْمُحْسِنُوْنَ مِنْکُمْ وَ
بَابُ حِطَّتِکُمْ اَفْضَلٌ
مِنْ بَابِ حِطَّتِھِمْ
ان بنی اسرائیل کے لئے باب حطہ نصب کیا گیا تھا
اور اے گروہِ اُمت محمد! تمہارے لئے اہل
بیت محمد بطورِ بابِ حطہ کے منسوب ہیں اورتمہیں انہی کی رہبری کے تحت اطاعت کرنے
کا حکم ہے اور ان کے طریقہ پر چلنے کا حکم ہے تاکہ ان کی بدولت خداتمہارے قصور
اورگناہ بخش دے اورتمہارے نیکوں کی جزائے
خیر میں اضافہ فرمائے اورنیز تمہارا باب حطہ اُن کے باب حطہ سے افضل ہے الخبر[9]
پس معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل
کا اس قدر طویل ذکر قرآن مجید میں اُمت اسلامیہ کے لئے درس ہے، اگرچہ تنزیلی
اورظاہری طور پر مراد وہ ہیں لیکن تاویلی اورباطنی صورت میں مراد اُمت محمد یہ ہے
اوربنی اسرائیل کے ذکر میں جہاں انبیااور ان کے اوصیا کی اطاعت کا حکم اوراطاعت
کرنے والوں کی مدح قرآن نے کی ہے ان سب سے باطنی اورتاویلی طور پر محمد وآل محمد کی اطاعت کا حکم اوران کی اطاعت کرنے والوں کی مدح ہے اورجہاں بنی اسرائیل کی
نافرماینوں اورسرکشیوں کا ذکر اوران کو غضب خدا کا مستحق کہا گیا ہے ان سے باطنی
طور پر محمد وآل محمد کے دشمنان مراد ہیں اورقرآن
قیامت تک زندہ ہے لہذا یہی تاویل قیامت تک جاری رہے
گی اورخداجسے چاہتاہے ہدایت فرماتا ہے-
[2] مجمع البیان ج۱، حلية الاولياء حافظ ابو نعیم ج۱ ص ۶۵، مفتاح السعادة ج۱ ص۴۰۰،ینابیع المودۃ سلمان
حنفی قندوزی،احیاء العلوم غزالی
[8] صحیح بخاری ج۶ص ۳ ، صحیح مسلم ج۷ ص
۱۲۰ ، مسند احمد بن حنبل ج۱ ص ۳۳۱، استیعاب
ج ۳ ص ۳۴، معانی الاخبار صدوق ص ۷۴ ، نیز یہی حدیث دلائل الصدق میں کنزالعمال جلد ۶ ص ۱۶۴ ،۳۹۵،۳۹۰اورج۵ ص۴۰اورخصائص نسائی سے بھی مروی ہے
اورصحیح ترمذی میں بھی یہ حدیث متعدد طرق سے منقول ہے اور یہی حدیث یعنی حدیث
منزلت ، حدیث مواخات کے ضمن میں بھی متعدد کتب معتبرہ سے منقول ہے پس اس حدیث کے
متواتر ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے.