تفسیر رکوع ۶ -- بنی اسرائیل پر نعماتِ خداوندی کا ذکر
يٰبَنِیْٓ
إِسْرَآئِيلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّیْ
فَضَّلْتُكُمْ عَلىٰ الْعَالَمِينَ (47) وَاتَّقُوْا
يَوْماً لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئاً وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا
شَفَاعَةٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا هُمْ يُنصَرُوْنَ (48) وَإِذْ
نَجَّيْنٰكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوٓءَ الْعَذَابِ
يُذَبِّحُوْنَ أَبْنَآءَكُمْ وَيَسْتَحْيُوْنَ نِسَآءَكُمْ وَفِیْ ذٰلِكُمْ بَلآءٌ
مِنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ (49) وَإِذْ
فَرَقْنَا بِكُمْ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ
وَأَنْتُمْ تَنظُرُوْنَ (50) وَإِذْ
وٰعَدْنَا مُوْسٰى أَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ مِنْ
بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ (51)ثُمَّ عَفَوْنَا
عَنْکُمْ مِنْ مبَعْدِ
ذٰلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(52)
ترجمہ:
اے اولاد یعقوبؑ یادکرو میری
اس نعمت کو جو انعام کیا میں نے تم پر اورمیں نے تم کو فضیلت دی عالمین پر (47)
اورڈرو اس دن سے کہ نہ کفایت کرلے گا کوئی نفس کسی نفس سے کچھ بھی اورقبول نہ
ہو گی اس سے سفارش اورنہ لیا جائے گا اس سے فدیہ اورنہ وہ مددکئے جائیں گے(48)اوریاد کروجب میں نے بچایا تم کو فرعونیوں سے کہ تکلیف دیتے
تھے تم کو برے عذاب کی کہ ذبح کرڈالتے تھے تمہارے لڑکوں کو اورزندہ رکھتے تھے
تمہاری لڑکیوں کو اوراس میں تمہارے ربّ کی طرف سے بڑی آزمائش تھی (49) اوریاد کرو جب شق کیا ہم نے تمہاری وجہ سے دریا کو پس تمہیں
بچالیا اورغرق کردیا ہم نے فرعونیوں کو حالانکہ تم دیکھ رہے تھے (50) اورجب ہم نے وعدہ کیا موسیٰ سے چالیس راتوں کا پھر پکڑا
(پوجا(تم نے گوسالہ اس کے پیچھے اورتم ظالم تھے(51) پھر ہم نے درگزر کیا تم سے اس کے بعد تاکہ تم شکر گزار بنو(52)
تفسیر
رکوع ۶
بنی اسرائیل پر نعماتِ خداوندی کا ذکر
یٰبَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ:اس مقام پر تنزیل کے اعتبار سے بنی اسرائیل سے مرادا ولادِ
یعقوب ہے،گزشتہ رکوع میں ان پر انعامات کا اجمالی طور پر ذکر
کیا گیا تھا یہاں سے ان نعمتوں کی تفصیل کو شروع کیا گیا ہے اوراسی بنا پر اس کو
دہرایا گیا ہے-
شفاعت
وَاتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ: تفسیر برہان میں
حضرت امام جعفرصادق سے مروی ہے کہ یہاں جس دن سے ڈرنے کا حکم خدانے دیا ہے اس سے مراد موت کا دن
ہے کیونکہ موت سے نہ کوئی دوسرے کی مددکر سکتا ہے اورنہ سفارش کا مقام ہوتا ہے اور
نہ فدیہ سے اس کو روکا جاسکتا ہے اوراس سے یوم قیامت مراد نہیں کیونکہ اس دن ہم
اپنے شیعوں کی مدد کریں گے، اعراف پر حضرت محمد مصطفیﷺ ،حضرت علی، حضرت فاطمہ ،امام حسن ،امام حسین اور ان کی
طاہر اولاد موجود ہوگی، پس عرصہ محشر میں جب مومنین سختی دیکھیں گے تو ہر زمانہ کے
نیک اوراخیار شیعوں کو ان کی نجات کےلئے بھیجیں گے مثلاً اپنے زمانے والوں کے لیے
سلمان، مقداد،ابوذر وغیرہ (بحکم امام) بازاور شاہین کی طرح جھپٹ کر گنہگار شیعوں
کو اٹھاکر جنّت میں داخل کریں گے، پس مومن داخل جنتّ ہوں گے اور اہل بیت سے عداوت
رکھنے والے داخل جہنم ہوں گے (ملخصاً)
وَ اِذْ نَجَّیْنٰکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ : تفسیر مجمع البیان میں بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کی
وجہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ فرعون نے خواب میں دیکھا تھا کہ بیت المقدس کی جانب
سے ایک آگ اُٹھی جس نے مصر کے تمام گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ان کو جلا
کر خاکستر کر دیا اورصرف قبطیوں کو اس نے جلایااور بنی اسرائیل کو ضرر نہ پہنچایا،
فرعون اس سے بہت گھبرایا اور جادوگروں،
قیافہ شناسوں اور نجومیوں کو بلا
کر ان سے تعبیر خواب دریافت کی، انہوں نے کہا بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا
جس کے ہاتھوں تیری ہلاکت ہوگی، تیرا ملک زائل ہوگا اور تیرا دین ختم ہو گا، پس
فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں ہر پیدا
ہونے والا لڑکا قتل کر دیا جائے اور اپنی مملکت کی تمام دایہ عورتوں کو
بلاکر حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والا کوئی لڑکا زندہ نہ چھوڑا جائے
اور کوئی لڑکی قتل نہ کی جائے، چنانچہ وہ ایسا ہی کرتی تھیں بنی اسرائیل کے سن
رسیدہ لوگ اپنی اجل سے مرتے گئے اور بچے ذبح ہوتے گئے توقبطیوں
کے روسا فرعون کے پاس جمع ہوئے اور کہا کہ سن رسیدہ بنی اسرائیل ویسے مر رہے ہیں اور پیدا ہونے والے لڑکوں کو قتل کیا جا رہا ہے
اگر یہی صورت حال رہی تو تھوڑے عرصہ میں
ہمارے کا روبار کرنے والا کوئی نہ بچے گا اور تمام نجی کام ہمیں خود کرنا
پڑیں گے، پس فرعون نے حکم دیا کہ ایک سال قتل کوجاری رکھا جائے اور ایک سال یہ
سلسلہ بند کردیا جائے، پس حضرت ہارون اس سال پیدا ہوئے جس سال قتل نہ
تھااور حضرت موسیٰ قتل کے سال میں پیدا ہوئے، حضرت موسیٰ کی پیدائش تفصیلاً ملاحظہ فرمائیں- [1]
بنی اسرائیل کے مرد قبطیوں
کے نوکروں کی حیثیت سے تھے ان کی کھیتی باڑی اور تمام نجی کا روبار ان کے ذمہ تھے
جو شخص کام سے عاجز ہوتا قبطیوں کی طرف سے
اس پر جزیہ (ٹیکس)رکھا جاتا جس کو وہ ظلم سے وصول کرتے تھے اور بنی اسرائیل کی عورتوں
کو اپنی کنیزی میں رکھتے تھے اسلئے فرعون نے ان کے ذبح نہ کرنے کا حکم دیا تھا اور
در حقیقت لڑکیوں کا ان کی کنیزی میں ہو نا
لڑکوں کے قتل ہونے سے زیادہ سخت اور ناقابل برداشت ظلم تھا -
بَلآءٌ مِنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ: بلائے عظیم کا معنی سخت آزمائش بھی ہے اور احسانِ عظیم بھی، اور اس مقام پر دونوں مراد لئے جاسکتے ہیں،
یعنی فرعون کا یہ ظلم تمہارے اوپر امتحان عظیم تھا جس سے خدا نے تمہیں نجات دی یا
فرعونیوں کے اس مبیّنہ ظلم سے جو خدا نے تمہیں نجات دی ہے اس میں تمہارے اوپر اس
کا احسان عظیم ہے-
فرعون مصر کے بادشاہ کا نام
نہیں تھا بلکہ عمالقہ کے بادشاہ کو فرعون
کہاجاتا تھا، حضرت موسیٰ کے زمانہ کے
فرعون کا نام مصعب بن ریّان تھا-
امام حسن عسکری سے مروی ہے کہ بنی اسرائیل پر جب فرعون کے مظالم سخت ہوئے
توحضرت موسیٰ پروحی ہوئی کہ اپنی قوم کو محمد وآل محمد پر درود بھیجنا سکھائے جب انہوں نے یہ عمل شروع کیا تو درودکی برکت سے ان کے
مصائب کم ہو گئے، جب ان کے ہاں بچہ کی پیدائش ہوتی تو فرعونیوں کے ڈر سے اس کو کسی
غار میں چھپادیتے اوراس پر دس مرتبہ درود
پڑھتے، خداوند اس کی
تربیت کیلئے ایک فرشہ
بھیج دیتا تھا اوربقدرت خداوہ اپنی انگلی کو چوستا تھا تو اس سے دودھ جاری ہو جاتا
تھا جس سے اس کی نشوو نما ہوتی تھی اوریہی وجہ تھی کہ باوجود فرعون کے تشدد کے بنی
اسرائیل کی تعداد میں کمی واقع نہ ہوئی اورعورتوں نے بھی درود کو ورد زبان بنایا
جس سے فرعونیوں کو ان کی آبروریزی پر قدرت نہ ہو سکتی تھی، اب خدا اسی احسان کو بنی
اسرائیل پر ذکر فرمارہاہے-