تفسیر رکوع ۸
إِنَّ
الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَالَّذِيْنَ هَادُوْا وَالنَّصَارىٰ وَالصَّابِئِيْنَ مَنْ
آمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ
عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُوْنَ (62) وَإِذْ
أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ
بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوْا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (63) ثُمَّ
تَوَلَّيْتُمْ مِنْ مبَعْدِ
ذَلِكَ فَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنْتُمْ مِنْ
الْخَاسِرِيْنَ (64) وَلَقَدْ
عَلِمْتُمُ الَّذِيْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ
كُونُوْا قِرَدَةً خَاسِئِينَ (65) فَجَعَلْنَاهَا
نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَ مَا خَلْفَهَا وَ
مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ (66)
ترجمہ:
تحقیق وہ لوگ جو ایمان لائے
اور وہ لوگ جو یہودی اور نصرانی اور صابی ہوئے ان میں سے جو بھی ایمان لائے ساتھ
اللہ کے اور یوم آخر کے اور عمل نیک کیے پس ان کےلئے ان کااَجرہے نزدیک اپنے ربّ کے اور ان پر خوف نہ ہو گا اور نہ
حزن(62) اور )یاد کرو( جب لیا ہم نے تم سے وعدہ اور بلند
کیا ہم نےتمہارے اوپر کوہ طور کو اور کہا پکڑو اس کو جو دیا ہم نے تمہیں ساتھ طاقت
کے اور یاد کرو اس کو جو اس میں ہے تاکہ تقویٰ اختیار کرو(63) پھر تم پلٹ
گئے اس کے بعد پس اگر نہ ہوتا فضل خدا تم پر اور اس کی رحمت البتہ تم خسارہ میں
رہتے(64) اور البتہ تحقیق تم نے جان
لیا ان لوگوں کو جنہوں نے سرکشی کی تم میں سے سنیچر کے دن پس ہم نے کہا ان کو ہو
جاوٴ بندر رسوا(65) پس کیاہم نے اس کو عبرت واسطے سامنے والوں کے اور پیچھے
والوں کے اور نصیحت واسطے ڈرنے والوں کے(66)
اِنَّ الَّذِینَ :اس سے پہلے چونکہ بنی اسرائیل پر اللہ کی نعمات کا ذکر تھا اور ان کی
نافرمانیوں کا ذکر تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے-
سوال: جو لوگ ان میں سے
اپنے نبی کے احکام پر چلتے تھے ان کا کیاحال ہو گا ؟
جواب: تو اس آیت میں اس
کا حل ہے کہ خدا وند کریم کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا خواہ اس زمانہ میں جناب
رسالتمآبﷺ کی فرمائشات پر چلنے والے ہوں یا گزشتہ انبیاکی امتوں میں
سے اپنے زمانہ کے نبی کے پیروہیں، بہر کیف جو شخص بھی اپنے زمانہ کے نبی کی ہدایت
کے مطابق اللہ پر ایمان رکھتا ہو اورروزجزا و قیامت کومانتا ہو اورنیک عمل کرتا ہو
اس کا اجر وثواب اللہ کے نزدیک ثابت ہے اورقیامت کے دن خوف وحز ن سے محفوظ رہے گا
اوراگر مَن
اٰمَنَ کو
وَالَّذِ ینَ ھَادُو الخ کی خبر بنا یا جائے اور
فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ کو ان کی خبر قرار دیا جائے تو معنی یہ ہو گا
کہ تحقیق جو لوگ مومن ہیں اوریہود ونصاریٰ وصائبین میں سے بھی جو لوگ ایمان لاکر
عمل صالح بجالائیں گے ان سب کے لئے اللہ کے پاس اجر ہے ان پر کوئی خوف وحزن نہ
ہوگا-
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ
آیت ان لوگوں کےلئے ہے جو قبل از بعثت پہلے نبیوں کے دین پر تھے اور جناب رسالتمآبﷺ پر غائبانہ ایمان رکھتے تھے، پھر کئی ان میں سے حضورﷺ کا زمانہ پاسکے اورایمان بھی لائے جیسے ابوذر وسلمان وغیرہ اورکئی حضورﷺ کی بعثت سے پہلے انتقال کرگئے، بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت جناب سلمان اوران کے
ساتھیوں کے حق میں ہے جوپہلے دین نصاریٰ پر تھے اورغائبانہ حضورﷺ پر ایمان رکھتے تھے -
وَاِذْ اَخَذْنَا: پھر بنی اسرائیل کا ذکر شروع کر دیا، حضرت موسیٰ کو چونکہ تورات کا وعدہ دیا گیا تھا
تو بنی اسرائیل سے اقرار لیا گیا تھا کہ جب حضرت موسیٰ تورات کو لے کرآئیں اوراپنی قوم کو
یہ خبر سنائیں کہ مجھے خدا نے تورات عطافرمائی ہے جس میں حلال وحرام کے احکام
موجود ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم نہیں مانتے، پس خداوندکریم نے ملائکہ کو حکم دیا
کہ کوہِ طور کو اٹھا کر ا ن کے سروں کے اوپربلند کریں جب ملائکہ نے کوہِ طور کو
بنی اسرائیل کے سروں پر بلند کیا اوراُدھر حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ اگر تم تورات کو قبول
کر لو تو ٹھیک ورنہ یہ پہاڑ تمہارے اوپر گرادیا جائے گا پس انہوں نے تورات کو
تسلیم کر لیا اوراللہ کا سجدہ بھی کیا لیکن پیشانی کو زمین پر ترچھا رکھ کر ایک
آنکھ سے پہاڑ کودیکھتے تھے کہ کہیں اوپر گرنہ جائے اس لئے کہتے ہیں کہ یہودی اب تک
سجدہ کرتے ہوئے پیشانی کو زمین پر ترچھا رکھتے ہیں-
حضرت امام حسن عسکری سے مروی ہے کہ جبرائیل کو حکم ہوا تھا کہ فلسطین کے پہاڑوں
میں سے ایک پہاڑ کو ان کی فرودگا ہ پر بلند کرے اوروہ پہاڑ کا ٹکڑا تین تین میل
لمبااورچوڑا تھا، پس جبرائیل نے ان کے اوپر وہ پہاڑبلند کیا تو انہوں نے تورات کے
احکام پر عمل کرنے کا وعدہ کیا، بعض نے صرف ڈراورخوف سے اوربعض نے بہ دل وجان قبول
کیا تھا)
الخبر( پس دل وجان سے ایمان لانے والے ثابت قدم رہے
اورڈر سے اقرار کرنے والے اپنے عہدسے پھر گئے -