علمائے صالحین کا مقام
حضرت امام حسن عسکری نے فرمایا ظاہر ی باپ کے سایہ سے محروم ہونے والے یتیم سے
زیادہ قابل رحم وہ یتیم ہے جو روحانی باپ یعنی اپنے امام سے دور ہوجائے اوراس تک
نہ پہنچ سکے اوراُسے یہ معلوم نہ ہوسکے کہ
احکام دینیہ میں جن سے مجھے واسطہ ہے میرے امام کا کیا حکم ہے؟ آگاہ رہو کہ ہمارے
شیعوں میں سے جو شخص ہمارے علوم کا عالم ہو اورہماری شریعت سے جاہل)جو ہماری زیارت سے محروم ہے( کو واقف کرے چونکہ وہ جاہل اس عالم کی گود میں )ہمارا( یتیم ہے پس وہ عالم جو اس کو ہدایت کرے اورہماری شریعت
کی اس کو تعلیم دے وہ رفیق اعلیٰ میں ہمارے ساتھ ہوگا، رفیق اعلیٰ سے مراد مقام
جنت ہے، پھر آپ نے فرمایا کہ یہ حدیث میرے آبائے طاہرین نے جناب رسالتمآبﷺ سے نقل فرمائی-[1]
حضرت امیر المومنین سے مروی ہے کہ ہمارے شیعوں میں سے جو شخص ہماری شریعت کا
عالم ہو پس وہ ہمارے کمزور شیعوں کو ان کی
تاریکی سے نکال کر ان کو علم کی روشنی پہنچائے )جو ہماری طرف سے اس کو پہنچا ہے( تو جب وہ واردِ محشر ہوگا اُس کے سرپر ایک نورانی تاج
ہو گا جس سے تمام محشر منوّر ہو جائے گا اور اس کو حلہ بہشتی پہنچایا جائے گا جس
کی ایک ادنی تار کی قیمت ساری دنیا نہیں ہو سکتی اور پھر اللہ کی جانب سے منادی
ندا کرے گا اے بندگانِ خدا ! یہ آلِ محمد
کے شاگردوں میں سے ایک عالم ہے، پس جس جس انسان کو دنیا میں
اِس نے جہالت کی تاریکی سے نکالا تھا وہ اِس کے نور کے ساتھ تمسک پکڑ لیں تاکہ یہی
عالم اُس کو عرصہ محشر کی تاریکی کی حیرت سے نکال کر باغاتِ جنت میں پہنچا دے، پس
دنیا میں جن جن لوگوں کو اُس نے اپنے فیوض سے بہرہ ور کیا ہوگا یا جہالت کا قفل اس
کے دل سے توڑا ہو گا یا اس کے کسی عقدہ کو حل کیا ہوگا وہ تمام اس عالم کےساتھ
تمسک پکڑ کر داخل جنت ہوں گے-
وَالْمَسَاکِیْنَ: مسکین کی جمع ہے یعنی جس کو فقرو فاقہ زمین گیرکردے کہ وہ حرکت نہ کرسکے،
گویا سکون سے مشتق ہے-
حضرت امام حسن عسکری سے مروی ہےکہ جو شخص مساکین کی اپنے زائد مال سے خبر گیری
کرے گا خداوند کریم جنت میں اس کو وسیع مقام عطا فرمائے گا، یعنی اپنی جملہ نعمات
کو اس پروسیع کرے گا اور اس کو اپنی مغفرت اور رضا مندی سے لذت اندوز کرے گا، پھر
آپ نے فرما یا کہ حضرت محمد مصطفیﷺ اور حضرت علی مرتضیٰ کے محب مسکین ہیں اُن کی ہمدردی عام
فقراو مساکین کی ہمدردی سے افضل ہے کیو نکہ دشمنانِ دین جو اُن کے مذہب پر اعتراض
کرتے ہیں اور اُن کو بیوقوف بناتے ہیں اُن کے مقابلہ سے اُن کی قوتیں ضعیف اور
اعضا ساکن(کمزور) ہیں، پس جو شخص ان کو علم فقہ کی قوت دے اور ان کو پڑھائے یہاں
تک کہ ان کی وہ مسکینی دُور ہو جائے اور اپنے ظاہری دشمنوں (جیسے ناصبی)اور باطنی
دشمنوں (جیسے ابلیس اور اس کا لشکر) پر قابوپالیں تاکہ وہ ان کو دین خدااور محبت
آلِ رسول سے ہٹا نہ سکیں تو خداوند کریم نے اپنے رسولﷺ کی زبان پر فیصلہ حق جاری فرمایا اور حضرت علی نے فرمایا کہ جو شخص دین کے مسکین
اور معرفت کے کمزور کو ناصبی مخالف پرطاقتور کرے کہ یہ مومن اس کو لاجواب کرنے میں
کامیاب ہو جائے تو جب وہ قبر میں سوئے گا تو خود خداوند کریم قبر میں اپنی زبان
قدرت سے اس کی تلقین پڑھے گا اور فرمائے گا کہ کہہ میرا ربّ اللہ ہے، میرا نبی
محمدﷺہے، میراولی علی ہے، میرا قبلہ کعبہ ہے، میرے ایمان کی بہاراور سفر آخرت کی زادِقرآن ہے اورسب
مومن میرے بھائی ہیں، پس خدا وند فرمائے گاکہ تو نے اب حجت ادا کر دی پس تیرے لئے جنت کے بلند درجات میں نے
واجب کئے ہیں اور اسی وقت اس کی قبر بہترین گلزارجنت ہو جائے گی-