التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

”بِسْمِ اللّٰہ“ کا جزو سورہ ہونا -- اعتراض و جواب

”بِسْمِ اللّٰہ“ کا جزو سورہ ہونا، اعتراض و جواب
15 min read

”بِسْمِ اللّٰہ“ کا جزو سورہ ہونا

با تفا ق مذ ہب اما میہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم سوائے سورہ برائت کے قرآن کی تمام سورتوں کا جزو ہے اور کتب شیعہ وسنی میں اس آیت کریمہ کے فضائل حدِّ احصا سے زیادہ ہیں،بایں ہمہ مقام عمل میں سوائے شیعہ کے باقی مذاہب کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں، حتی کہ نماز جیسی اہم عبادت میں بھی دوسرا سورہ شروع کرتے ہوئے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو بالائے طاق رکھ دیا جا تا ہے حالانکہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ قرآن مجید کے اندر جوکچھ مرقوم ہے اس میں نہ کمی ہے نہ زیاد تی اور قرآن مجید میں کوئی فقرہ ایسا نہیں جو غیر قرآن ہو،لاکھوں کی تعداد میں حفّاظ موجود ہیں اور ہر سورہ کے پہلے بسم اللہ شریف کا ہونا تسلیم کرتے ہیں لیکن جب بارگا ہِ خدامیں عبادت کے عنوان سے کھڑے ہوتے ہیں تو سوائے فاتحہ کے اور کسی سورہ کوبسم اللہ سے شروع نہیں کرتے اور سورہ فاتحہ میں بھی جزو سورہ بنا کر نہیں بلکہ تبرکاً پڑھتے ہیں، اب سمجھ سے یہ بات بالا ہے کہ کتا بوں میں بسم اللہ کے فضا ئل کی اس قدر بھرمار کہ دفتر پُر ہو جائیں اور مقام عمل میں اس قدر پہلوتہی آخر  کیوں ہے؟
شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ چونکہ حضرت امیر المومنین نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا تھا کہ تمام علوم کا جامع قرآن ہے اور علوم قرآنیہ کی جامع سورہ فاتحہ ہے اور سورہ فاتحہ کے علوم بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم میں ہیں اور بسم اللہ کے جمیع علمی خزائن بائے بسم اللہ میں ہیں اور بائے بسم اللہ کے علمی ذخائر نقطہ با میں موجود ہیں اور وہ نقطہ میں ہوں، پس یہ سنتے ہی بغض علی کے متوالوں نے فضائل بسم اللہ کے تمام فرامین نبویہ پر قلم نسخ پھیرتے ہوئے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کی قرآنیت کا سرے سے انکار کردیا اور کہہ دیا کہ یہ آیت مجیدہ جن سورتوں کی ابتدا میں واقع ہے سب تبرک و تیمّن کے طور پر ہے اور کسی سورہ کی جزو نہیں سوائے سورہ نمل کے جہاں وسط سورہ میں واقع ہے کیونکہ وہ جزو سورہ ہے-
لیکن اگر حقیقت میں آنکھوں سے تعصب کی عینک اتار کر عقلی و نقلی ادلّہ پر نظر ڈالی جائے تو عقل سلیم کےلئے یہ فیصلہ نہایت آسان ہے کہ بسم اللہ کوجزو سورہ نہ ماننا اور اس کے محض تبرکاً ہونے کا قائل ہونا وقارو عظمت ِبسم اللہ کے خلاف مفت کی ہنگامہ آرائی اور مصداق نقطہ بائے بسم اللہ کی علمی جلالت و وجاہت کے خلاف فضول و بے معانی کی صدائے صحرائی ہے کیونکہ سورج کے مقابلہ میں گرد اُڑانے سے سورج کی روشنی میں کمی نہیں ہو جایا کرتی بلکہ دھول اُڑانے والوں کی اپنی آنکھیں گرد آلود ہو جاتی ہیں اور ان کو داد دینے والوں کا بھی وہی حشر ہوتا ہے اور ان کے سامنے دنیا تاریک ہوجاتی ہے حالانکہ حقیقت میں تاریک نہیں ہوتی-

ادلّہ عقلیہ

 اگر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ہر سورہ کی جزو نہ ہوتی تو صرف تبرک کے لئے اوّل قرآن میں اس کا لکھا جانا کافی تھا، جس طرح استعاذہ(اَعُوْذُ بِاللّہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم)کسی سورہ کا جزونہیں لہذادوری شیطان کےلئے صرف پہلے ایک دفعہ لکھنا کافی سمجھاگیا ہے -
 قرآن مجید سے زائد کلام (جو جزوِ قرآن نہیں) کو قرآن سے علیحدہ رکھنا اور اس اشتباہ کاسد باب کرنا ابتدائے اسلام سے تا ایں زماں انتہائی اہتمام سے کیا گیا ہے اور قرآن پاک میں کسی ایسے جملہ کو رہنے نہیں دیا گیاجو جزو قرآن نہ ہو اور جمیع فرق اسلامیہ کے نزدیک موجودہ قرآن میں کوئی زیادتی نہیں اگر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم سُوَرِ قرآنیہ کی جزو نہ ہوتی تو قطعاً اس زیادتی کو برداشت نہ کیا جاتا اور ہر سورہ کے شروع میں لکھے جانے پر کسی نہ کسی دور میں ضرور اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوتی، پس نزول قرآن سے لے کر دور حاضر تک اس کا ہر سورہ کے ابتدا میں مرقوم ہونا اور اس کے خلاف احتجاج نہ ہونا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ یہ جن سُوَر کے اوّل میں ہے ان کی جزوہے -
 اگر یہ آیت مجیدہ صرف تیمّن و تبرک کے لیے ہوتی تو قرآن ہونے کی حیثیت سے سورہ برائت کو اس تیمّن سے محروم نہ رکھا جاتا -
اعتراض : سورہ برائت اگرچہ قرآن ہے لیکن چونکہ اس میں مشرکین سے برائت اور ان پر غضب خدا کے نزول کا ذکر ہے اور بسم اللہ میں خدا وند کریم کی رحمت کا تذکرہ ہے لہذا سورہ برائت کے پہلے اس کو نہیں لکھا گیا؟
جواب: اگر سورہ برائت کو تبرک بسم اللہ سے اس لئے محروم کیا گیا ہے کہ اس میں مشرکین سے برائت اور ان پر غضب خدا کا ذکر ہے تو اس لحاظ سے سورہ لہب(تبَّت یَدَا اَبِی لَھَبٍ الخ)سورہ ماعون(وَیل لِّلمُصَلِّینَ الخ) سورہ جحد(قُل یَا اَیُّھَا الکَافِرُونَ الخ) اور اسی طرح ا ٓخری دو سورتیں معوذتین اور سورہ ھُمَزہ(وَیل لِّکُلِّ ھُمَزَةٍ لُمَزَہٍ الخ)جن میں عذاب ویل برائت اور استعاذہ کے علاوہ دوسرا کوئی مضمون ہی نہیں ہے ان کے پہلے بھی بسم اللہ کو ذکر نہیں کرنا چاہیے تھا پس معلوم ہوا کہ یہ تو قیفی چیز ہے اور جن سورتوں کے پہلے بسم اللہ ہے وہ ان کی جزو ہے -
 تمام مسلمانوں کا اجتماع ہے  سورہ فاتحہ کی آیا ت سات ہیں اور موجودہ قرائت کے طبع شدہ قرآنوں میں اگر بسم اللہ جزو سورہ فاتحہ نہ ہو تو اس کی سات آیتیں پوری ہو ہی نہیں سکتیں-

ادلّہ نقلیہ

اس مقام پر مولانا امیر الدین صاحب قبلہ v کی تحقیقات پر اکتفا کرتے ہوئے ”فلک النجات“ کے بعض اقتبا سات پیش کر کے اس بحث کو ختم کرتا ہوں:
قَالَ الشَّافِعِیُّ وَ اَحْمَدَ اِنَّھَا مِنْھَا فَتَجِبُ وَ کَذٰلِکَ الْقَوْلُ فِی الْجَھْرِ بِھَا
ترجمہ: شافعی واحمد کے مذہب میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم سورہ فاتحہ کی آیات سے ہے اسلئے اس کا پڑھنا واجب ہے اور اسی طرح فاتحہ کے ساتھ اس کا جہر بھی واجب ہے-[1]
قَدْ اَوْرَدَ شَیْخُنَا الْعَلَّامَةُ الشَّوْکَانِی فِیْ شَرْحِ الْمُنْتَقٰی (فِی التَّسْمِیَةِ) مَا لَاْ یَحْتَاجُ النَّاظِرُ فِیْہِ اِلٰی غَیْرِہِ اَلْحَاصِلُ اَنَّ الْحَقَّ ثَبُوْتُ قِرْاَتِھَا (اَیِ الْبَسْمَلَةِ) فَاِنَّھَا اٰیَةٌ مِنْ کُلِّ سُوْرَةٍ
ترجمہ: تحقیق ہمارے شیخ علامہ شو کانی نے شرح منتقیٰ میں بسم اللہ کے بارے میں اس قدر کافی مضمون لکھا ہے کہ جو اس کو دیکھے پھر دوسری کتاب دیکھنے کی اس کو حاجت نہیں رہتی الحاصل حق یہ ہے کہ بسم اللہ کا پڑھنا ثابت ہے اور وہ ہر سورہ کی آیت ہے-[2]
 عَنْ عَلِیّ اَنَّ النَّبِیَّ کَانَ یُجْھَرُ فِی الْمَکْتُوْبَاتِ بِبِسْمِ اللّٰہِ فِی السُّوْرَتَیْنِ جَمِیْعًا کَذَا رَوَاہُ الدَّارْ قُطْنِیْ فِی سُنَنِہِ
ترجمہ:  حضرت علی سے مروی ہے کہ نبی کریم فرضی نماز کی ہر دوسورتوں میں بسم اللہ کو بآواز بلند پڑھتے تھےاسی طرح دارقطنی نے اپنے سنن میں روایت کی ہے-[3]
 قَالَ النُّوْدِیْ فِی الشَّرْحِ بَابُ حُجَّةِ مَنْ قَالَ الْبَسْمَلَةُ اٰیَة مِنْ اَوّلِ کُلِّ سُوْرَةٍ سِوَی الْبَرَاَةِ فِیْہِ حَدِیْثُ اٰنَسٍ
 ترجمہ:   نودی نے شرح مسلم میں باب اس شخص کی دلیل میں جس نے کہا ہے کہ سوائے سورہ برائت کے ہر سورہ کے اوّل میں بسم اللہ آیت ہے (اسی سورہ کی جس کے اوّل میں ہے) اس میں انس کی حدیث ہے-[4]
رَوَی الْحَاکِمُ عَنْ اٰنَس قَالَ صَلَّیْتُ خَلْفَ النَّبِیِّ وَ اَبِیْ بَکْرٍ وَ عُمَرَ وَ عُثْمَانَ وَ عَلِیٍّ فَکَانُوْا یُجْھَرُوْنَ بِبِسْمِ اللّٰہِ
 ترجمہ:  حاکم نے انس سے روایت کی ہے کہ میں نے نبی کریم وابوبکر و عثمان وعلی کے پیچھے نماز پڑھی اور وہ سب بسم اللہ کوجہرسے پڑھتے تھے-[5]
ان کے علاوہ علامہ موصوف نے اس موضوع پربکثرت روایات جمع فرمائی ہیں جن میں اکابر صحابہ کا جہر سے بسم اللہ کا پڑھناکتب معتبرہ سے نقل فرمایا اور اکابر علمائے اسلام اور آئمہ فقہ مثل امام شافعی و امام احمد کے نزدیک جزو ہر سورہ ہونے کا قول بھی نقل فرمایا اور جناب رسا لتمآب کا جہر بسم اللہ سے نماز پڑھنا بھی تواتر سے ثابت فرمایا-
روایات بتلاتی ہیں کہ ابتدائے اسلام میں بسم اللہ کے جزو سورہ ہونے اور نماز میں اس کے بالجہر پڑھنے میں کسی کو کوئی اختلاف نہ تھا لیکن جب معا ویہ کا دَورِ حکومت آیا تو بسم اللہ کے چھپانے میں اس نے پہل کی، چنا نچہ اس نے نماز میں بسم اللہ کو ترک کیا جس پر مہاجروانصار پکار اٹھے: یَا مُعَا وِیَة اَسَرَقتَ الصَّلٰوةَ اَم نَسِیتَ اَینَ بِسمِ اللّٰہ  اے معاویہ! کیا تو نے نماز میں چوری کی ہے یا تو بھول گیا ہے؟ بسم اللہ کہاں گئی؟ [6]
اس روایت کو مولانا موصوف نے مسند شافعی اور دیگر کتب معتبرہ اہل سنت سے نقل فرمایا ہے-
اس کی وجہ صرف یہی ہوسکتی ہے کہ چونکہ حضرت امیرالمومنین علی اتباع رسول کرتے ہوئے جہر بسم اللہ پر زور دیتے تھے معاویہ کو حضرت علی کے ساتھ چونکہ دشمنی تھی لہٰذا ان کی خصوصیات مٹانے کے لیے بسم اللہ پر اپنی بھڑاس نکالی اور شاید یہ وجہ بھی ہو کہ حضرت علی چونکہ فرماتے تھے  اَنَا النُّقطَةُ تَحتَ البَاء میں بائے بسم اللہ کے نیچے والا نقطہ ہوں[7]   تو اس نے حضرت علی کی اس منقبت پر پردہ ڈالنے کے لیے بسم اللہ پر ہی ہاتھ صاف کر لیا-
چنانچہ فخرالدین رازی کی تفسیر کبیر سے اس کی تائید موجود ہے جس کا مولانا موصوف نے اصل عبارت عربی کے ساتھ نقل فرمایا ہے اور ہم طول سے بچتے ہوئے صرف اُردو ترجمہ پر اکتفا کرتے ہیں، امام فخر رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں کہا ہے کہ”نیز اس میں یعنی روایت بسم اللہ کے اخفات پڑھنے میں جو انس سے بالا ضطراب مروی ہے دوسری تہمت اور عیب آہستہ بسم اللہ پڑھنے والے پر وارد ہے وہ یہ ہے کہ بتحقیق علی جہر بسم اللہ میں مبالغہ کرتے تھے اور جب حکومت اور ریاست بنی امیہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے منع جہر تسمیہ میں مبالغہ کیا اس واسطے کہ حضرت علی کے آثار کو مٹانا چاہتے تھے پس شاید انس بنی امیہ سے ڈر گیا ہو اور یہی وجہ ہے کہ جہر بسم اللہ کے بارے میں اس کے اقوال میں اضطراب و اختلاف موجود ہے ورنہ خود انس جہر کا قائل تھا“[8]
اور اسی تفسیر کبیر میں ہے ساتویں وجہ یہ ہے کہ دلائل عقلیہ ہمارے موافق ہیں اور علی بن ابیطالب  کا عمل بھی ہمارے ساتھ ہے اور جس نے علی کو اپنے دین کا امام بنایا اس نے محکم دستاویز سے تمسک کیا-[9]
اسی تفسیر کبیر  میں ہے کہ حضرت علی کا یہ مذہب تھا کہ آپ ؑ بسم اللہ کو تمام نمازوں میں خواہ سری ہوں خواہ جہری بآواز بلند پڑھتے تھے-[10]
 میں (راوی) کہتا ہوں یہ دلیل میرے دل میں قوی ہے اور میری عقل مضبوط ہے بایں حد کہ ہرگز مخالفین کے کلمات سے زائل نہیں ہو سکتی- اوربیہقی نے سنن کبری میں ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نماز میں بسم اللہ جہر سے پڑھتے تھے پھر شیخ بیہقی نے عمر بن خطاب وابن عباس و ابن عمر اورابن زبیر سے جہر کی روایات لکھی ہیں اوربتحقیق علی بن ابیطالب بسم اللہ کو بآواز بلند پڑھتے تھے اورجس نے اپنے دین میں علی بن ابیطالبکی اقتداکی اس نے ہدایت پائی اور راہِ راست پالیا اوراس پرنبی کا قول دلیل ہے کہ یااللہ حق کو اس طرف پھیر دے جس طرف علی پھرے انتھٰی[11]
اب منصف مزاج طبائع خود بخود اس نتیجہ پر پہنچ سکتی ہیں کہ اہل بیت ِرسول کی عداوت نے لوگوں کو کہاں تک پہنچا دیا؟ جس طرح نماز میں بسم اللہ کا جہر سے ترک کرنا اسی عداوت کا نتیجہ ہے اسی طرح جزئیت قرآن کا انکاربھی اسی عداوت کی پیداوار ہے کیونکہ روایت سابقہ میں یہ نہیں کہ معاویہ نے بسم اللہ کو اخفات سے پڑھا اور صحابہ نے  اعتراض کیا بلکہ روایت کے صریح لفظ یہ ہیں کہ اِنَّ مُعَاوِیَةَ صَلّٰی بِالمَدِینَةِ فَلَم یَقرَء بِسمِ اللّٰہ معاویہ نے مدینہ میں نماز عشاپڑھائی اورنمازمیں بسم اللہ کو نہ پڑھا نہ اخفات سے نہ جہر سے(الخبر) یہی وجہ ہے کہ مہاجر وانصار نے پکا ر کر کہا تو نے چوری کی  یا بھول گیا ہے؟ ورنہ اخفات سے پڑھا ہوتاتو چوری یا بھول کا سوال غلط تھا؟ [12]
اور رازی کی توجیہ سابق سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ کے ڈر سے لوگ دین حق کو چھپا نے میں اورمذہب اہل بیتپرپردہ ڈالنے میں ذرّہ باک نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ انس صحا بی رسول کے متعلق رازی نے خود ذکر کیا ہے اوراسی تشددکی بنا پر شریعت رسول کے حقیقی احکام اَلنَّاسُ عَلٰی دِینِ مُلُوکِھِم (لوگ بادشاہوں کا دین اختیار کر لیا کرتے ہیں) کی نذرہوگئے، پس صاف ظاہر ہے کہ بسم اللہ کے جہر سے پڑھنے تک محدود نہیں بلکہ جزئیت بسم اللہ بھی اسی تشددکا شکار ہوگئی، حالانکہ مولانا امیر الدین نے تفسیر کبیر کی عبارت نقل کرنے کے بعد علامہ زرقانی سے یہ عبارت نقل فرمائی ہے قَالَ السُّھَیلُ نَزَلَتِ البَسمَلَةُ مَعَ کُلِّ سُورَةٍ بَعدَ اِقرَا سہیل نے کہاہر سورہ کے ساتھ سورہ اقرا کے بعد بسم اللہ اُتری ہے یعنی ہر سورہ کی جز ہے بسم اللہ-[13]
اسی بنا پر حضرت امام جعفر صادقمقام تعجب میں ارشاد فرماتے ہیں کہ خداان لوگوں کو رسوا کرے جنہوں نے بسم اللہ کو چھوڑ دیا، ان لوگو ں کو کیا ہوگیا ہے کہ قرآن مجید کی عظیم ترین آیت کے متعلق انہوں نے یہ خیال کرلیاکہ اس کا ظاہر کرنا بدعت ہے؟
تکمیل مطلب کے لئے اس مقام پر دواعتراضوں کا جواب دینا ضروری ہے:
اعتراض اوّل : اگر بسم اللہ کو جزو قرآن تسلیم کیا جائے تو بسم اللہ قرآن ہوجائے گی اورحکم ہے کہ قرآن کی تلاوت کے وقت پہلے بسم اللہ پڑھی جائے لہذا بسم اللہ سے پہلے ایک اور بسم اللہ کا پڑھنا لا زم ہوگا اور پھر یہ سلسلہ آگے چلاجائے گا؟
جواب اوّل: اس طرح تو حمد کے متعلق بھی ایک مشہور حدیث موجود ہے کہ جو کا م اللہ تعالیٰ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے وہ ناقص ہے لہذا  اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِین کو جزئیت سے خارج ہونا چاہیے؟ پس جو جواب اس اشکال کا ہو گا اُس کا بھی وہی ہے، کیونکہ آیت الحمد کو اگر قرآن مانیں تو اس سے پہلے ایک اور الحمد پڑھنی چاہیے اور یہ سلسلہ پھر آگے چلا جائے گا -
جواب دوّم: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم جزو سورہ ہے اور یہ کہ ہر امر خیر کوبسم اللہ سے شروع کرنا ضروری ہے خودبسم اللہ کو شامل نہیں جس طرح مثلاً کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم ابو البشر ہیں یعنی تمام انسانوں کے باپ ہیں حالانکہ خود بھی بشر اور انسان ہیں اور ابو البشر کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ معاذ اللہ اپنے بھی باپ ہیں بلکہ وہ خود اس سے مستثنیٰ ہیں، نیز کہا جا تا ہے بدن انسانی میں سر تمام اعضا سے بلند ہے حالانکہ خود بھی عضو ہے پس مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی ذات کو چھوڑ کر با قیوں سے بلند ہے، اسی طرح حضرت محمد مصطفی تمام نبیوں کے سردار ہیں حالانکہ خود بھی نبی ہیں یعنی اپنی ذات کے علا وہ تمام نبیوں کے سردار ہیں وعلی ھٰذالقیاس
پس اس مقام پربھی یہی کہا جائے گاکہ بسم اللہ کے پہلے پڑھنے کا حکم اس کے ماسوا با قی قر آن کے لیے ہے-
اعتراض دوّم: اگر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو سورہ فا تحہ کی جز وقرار دیا جائے تو آیت اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِین کے بعد اَلرَّحمٰنِ الرَّحِیم کا دوبارہ تکرار خالی از فا ئدہ ہو گا؟
جواب اوّل : آیت بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اس امر کی طرف اشا رہ ہے کہ جو ذات دنیا و عقبیٰ کی نعمات کے عطا کر نے والی ہے انسان کے لیے سزا وار ہے کہ اس کی نعما ت میں سے ہر نعمت کے تصر ف میں لانے سے پہلے اس کا ذکر زبان پر جاری کرے اور حمد کے بعد پھر ان دونوں صفتوں کا لانا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ہر نعمت الہیہ کے تصرف کے بعد اس کے منعم حقیقی ہونے کا لحا ظ رکھتے ہوئے کلمہ حمد زبان پر جاری کرے یعنی اس کی رحمانیت اور رحیمیت جس طرح ہر کام کی ابتدا میں اس کے ذکر کو واجب کرتی ہیں اسی طرح اس کی رحمانیت و رحیمیت ہر کار خیر کے انجام پر اس کے شکر کو ضروری قرار دیتی ہیں، گویا آیت بسم اللہ میں یہ دونوں صفتیں اس کے و جو ب ذکر کی علت ہیں اور آیت حمد کے بعدیہ دونوں صفتیں اس کے وجوب شکر کی مقتضی ہیں پس ان کا تکرار بے فائدہ نہیں بلکہ ان کے بغیر دعوائے حمد بلا دلیل ہوکرافا دیت کی منزل سے ہٹ جاتا ہے-
جواب دوّم: وہی جواب ہے جس کو ترتیب ِآیاتِ فاتحہ کے عنوان میں بیان کیا جا چکا ہے کہ پہلی آیت میں پہلے پہل معرفت توحید کا درس دینا مطلوب تھااور چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا تصور کنہ حقیقت سے محا ل ہے پس یہ صفتیں لائی گئیں تاکہ ان صفا ت سے اس کی معرفت ہو جائے اور انسان اس کی نعمت کا شکر ادا کرنے میں آگے بڑھے اور اس کے بعد الرَّحمٰنِ الرَّحِیم کے ذکر سے ایک طرف توشکر بجا لانے کے لیے اُخروی بشارت ہے کیونکہ رحیم کا معنی کیا گیا ہے اُخروی نعما ت کے عطا کرنے والا اور دوسری طرف ادائیگی حمد میں کوتاہی ہو جانے کے بعد رحما نیت و رحیمیت انسان کو مایوس وناامید ہونے سے بچاتی ہیں اورتوبہ کی طرف مائل کرتی ہیں پس پہلی آیت میں یہ دونوں صفتیں موجب معر فت ہیں اور حمد کے بعد باعث شکر ،داعی توبہ اور مژدہ جنت بھی ہیں -
جواب سوم: اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِین میں چونکہ عا لمین کی ربو بیت ذاتُ اللہ کے لیے ثا بت ہے اور ربوبیت کو صفت قرار دیا گیا تھا اور نیز صفات چونکہ اس کی عین ذات ہیں لہذا اس صفت ربو بیت کے تصور سے یہ خیال پیدا ہونا ممکن تھا کہ یہ صفت بھی عین ذات ہوگی پس اللہ تعالیٰ فاعل موجب ہوگایعنی یہ صفت اس سے جداہو سکتی ہی نہیں پس وہ مجبور ہے اس امر پر کہ فرائض ربوبیت انجام دے کیونکہ ربوبیت اس کی عین ذات ہے اگر ربوبیت نہ رہے گی تو وہ نہ ہوگا جس طرح سورج کی ذات سے روشنی جدا نہیں ہے اور وہ مجبور ہے کہ روشنی پھیلائے اگر روشنی اس سے جدا ہو جائے تو سورج نہ رہے گا اور یہ بھی مسلمات میں سے ہے کہ فاعل موجب یعنی جو اپنے فعل میں مجبور ہو حمد کا سزا وار نہیں ہوتا کیونکہ حمد کا سزاوار وہ ہوتا ہے جو اپنے اختیار سے کوئی احسان کرے، پس اس احتمال وخدشہ کو دور کرنے کے لیے رَبِّ العَالَمِین کی لفظ کے بعد فوراً اَلرَّحمٰنِ الرَّحِیم  کا اضافہ فرما دیا کہ صفت ربو بیت میں میں مجبور نہیں ہوں بلکہ یہ بھی میرے احسانات میں سے ہے اورمیں اس کا فاعل مختارہوں، پس صفت ربوبیت اس کا اختیاری فعل ثابت ہوا اورمحسن کے اختیاری وارادی فعل پراس کی حمد ضروری ہوا کرتی ہے اگر  اَلرَّحمٰنِ الرَّحِیم کا اضافہ نہ ہوتاتواس شبہ کا کوئی اورجواب نہ تھا، لہذا معلوم ہوا کہ اَلرَّحمٰنِ الرَّحِیم کا دوبارہ آیت حمد کے بعد ذکر ہونا افادہ مطلب کے لئے ضروری ہے، یہ وجوہات میں نے نہ کسی کتاب سے ا خذ کی ہیں اورنہ اس تفسیر کے لکھنے سے پہلے میرے ذہن میں تھیں بلکہ جب اس مقام پر پہنچا تو ذاتِ احدیت نے دماغ میں القا کردیں-
وَمَا تَوفِیقِی اِلَّابِاللّٰہِ العَلِیِّ العَظِیمِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِین


[1] میزان شعرانی ج۱ص۳۳۱
[2] روضہ ندیہ ص۷۶
[3] سنن دار قطنی ص۱۱۴
[4] شرح مسلم مصنف نودی ج۱ ص ۱۷۲
[5] نصب الرایہ ص ۴۷
[6] البیان فی تفسیر القرآن ص۵۱۶ ،  فتاوی الکبری ج۱ ص ۹۲ ، سنن شافعی ج۱ ص ۱۵۴ ، سنن بیہقی ج ۲ ص۴۲ ، مستدرک حاکم ص۲۳۱-۲۳۲ ، کنز العمال ج۴ ص ۳۰ ، اتقان طبع بیروت ج۱ ص۷۸
[7] ینابیع المودۃ ص۶۹، شرح الاسماء الحسنی ج۱ ص۵
[8] تفسیر کبیر فخر رازی ج ۱ ص ۱۶۰ مطبوعہ مصر
[9] تفسیر کبیرفخر رازی  ج ۱ ص ۱۶۱
[10] تفسیر کبیر  فخر رازی ج ۱ ص۱۵۹
[11] تفسیر کبیر فخر رازی
[12] الام شافعی ج۱ ص ۱۰۸ ، دار قطنی ج۱ ص ۳۱۱ ،  مستدرک حاکم نیشاپوری ج۱ ص ۲۳۳ ،  سنن بیہقی ج۲ ص۵۰
[13] شرح مواہب لدنیہ علامہ زرقانی

ایک تبصرہ شائع کریں