بنی اسرائیل کو گو سالہ پرستی کی سزا اور توبہ
وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی الْکِتٰبَ وَ
الْفُرْقَانَ: فرقان کے معنی کی کئی توجیہات مفسرین نے بیان
کی ہیں:
• ابن عباس سے منقول ہے کہ فرقان کا معنی بھی
تورات ہے اور کتاب پر اس کا عطف تفسیری ہے-
• تفسیر اہل بیت
میں ہے کہ فرقان سے مراد حق و باطل کے درمیان فرق ہےاور حق پرستوں اور باطل پرستوں
کے درمیان، یعنی مومنوں اور کافروں کے درمیان امتیاز ہے (کہ یہ بچ گئے اور وہ غرق
ہوگئے)
• بعض نے کہا ہے کہ فرقان کا معنی پانی کا شق ہونا ہے-
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی:حضرت موسیٰ جب کوہِ طور سے واپس آئے اور قوم کی گوسالہ پرستی پر مطلع ہوئے تو فرمایا کہ
تم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا ہے کہ خدا کے مقابلہ میں ایک بچھڑے کو معبود قرار
دیا، پس اب اللہ سے توبہ کرو، اور دین حق پر ثابت قدم رہنے والوں کو حکم دیاکہ گو
سالہ پرستوں کو قتل کردیں، روایات اہل بیت میں ہے کہ یہ حکم سنتے ہی اکثر گو سالہ
پرستوں نے اپنی گو سالہ پرستی کا انکار کردیا اور کہنے لگے کہ ہم نے بالکل اس کی
پوجا نہیں کی، پس وحی ہوئی کہ اس گوسالہ کو دریا میں ڈال دیا جائے جب بنی اسرائیل
اس کا پانی پئیں گے توگوسالہ پرستوں کے ہونٹ اور ناک سیاہ ہو جائیں گے اور مجرم
اور غیر مجرم کا فرق معلوم ہو جائے گا، بروایت ابن عباس بحکم موسیٰ ان لوگوں نے
غسل کیا اور کفن پہن لئے اور صف بستہ کھڑے ہو گئے اور حضرت ہارون کے ہمراہ جن
لوگوں نے گوسالہ پرستی نہیں کی تھی وہ تیزتلوار یں ہاتھوں میں لے کر آگئے اوربروایت
اہل بیت حضرت موسیٰ نے منادی کرادی کہ جو شخص کسی مجرم
کو بچائے گا یا اپنے عزیز سے چشم پوشی کرکے غیر کو قتل کرنے کی کوشش کرے گا اس پر
اللہ کی لعنت ہو گی، پس مقتولین نے سر جھکا لئے اوربیان کیا جاتا ہے کہ خداوند
کریم نے فضاکو تاریک کردیا تاکہ قاتل مقتول کو پہچان کر اس امتحان میں فیل نہ ہو
جائے، پس قتل شروع ہوا اورحضرت موسیٰ وہاروننے تضرع وزاری
سے دعامانگنا شروع کیا اورجب تاریکی منکشف ہوئی تو ستر ہزار آدمی قتل ہو چکے تھے،
روایات اہل بیت میں ہے کہ بارہ ہزار آدمیوں نے گوسالہ پرستی نہیں کی تھی اورچھ لاکھ نے گوسالہ پرستی کا جرم کیا تھا جن
کو قتل کرنے کا حکم ہوا تھا، جب قتل شروع ہوا توانہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ
محمد وآل محمد کا وسیلہ جو ہر مصیبت کے وقت ہمیں سکھا یا گیا ہے اوراس کے
ذریعہ سے کوئی دعا مسترد نہیں ہو تی اورنبی ورسول بھی بارگاہ خداوندی میں یہی
وسیلہ قرار دیا کرتے ہیں ہم بھی ان کے وسیلہ ہی سے دعا مانگیں، پس انہوں نے رونا
شروع کیا اورمحمد وآل محمد کے وسیلہ سے اپنے گناہ کی
معافی مانگی اورتو بہ کی، پس حضرت موسیٰکو وحی ہوئی کہ اب قتل روک دو )ملخص ترجمہ روایات(
روایت میں ہے کہ زوال سے لے
کر غروب آفتاب تک قتل جاری رہا اورستر ہزار مقتولین کو دیکھ کر حضرت موسیٰ غمگین ہوئے
تو خداوند کریم نے سب کی بخشش کا وعدہ فرمایا تب حضرت موسیٰ خوش ہوئے-
مقتولین قتل کرنے والوں کے
رشتہ دار بھی تھے اسی وجہ سے خدانے فضا کو تاریک کردیا تھا اوریہ قتل کا عذاب صرف
مقتولین پر نہیں تھا بلکہ قتل کرنے والے بھی اس عذاب میں شریک تھے اسلئے کہ وہ
اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیزوں کو قتل کررہے تھے کیونکہ وہ گوسالہ پرستوں کو منع نہ
کرتے تھے-
معلوم ہوا کہ جس طرح گناہ کرنے والے مستحق سزا
ہوتے ہیں اسی طرح ان کے گناہ پر راضی ہونے والے یانہی عن المنکرکا فریضہ ادا نہ
کرنے والے بھی سزا میں ان کے ساتھ برابر کے شریک ہو اکرتےہیں، اسی لئے تو روایات
میں ہے کہ جو شخص کسی قوم کے فعل پر راضی ہوا اُس کاشمار اسی قوم سے ہو گا، چنانچہ یہ آیات اگرچہ ان لوگوں کے حق میں ہیں
جو حضرت موسیٰ کے زمانہ میں تھے لیکن جناب رسالتمآبﷺ کے زمانہ کے بنی اسرائیل چونکہ اُن کے افعال پر راضی تھے اِس لئے قرآن مجید
میں ان کی نعمات وعقوبات کو ان کی طرف منسوب کرکے خطاب کیا گیاہے، خلاصہ یہ کہ ستر
ہزار بنی اسرائیل کے قتل کے بعد باقیوں کی توبہ قبول ہوئی اورقتل ہونے والوں کے
گناہوں کی بخشش کا وعدہ ہواا ورخداوند کریم اپنے
اِسی احسان کا موجودہ بنی اسرائیل کے سامنے تذکر ہ فرمارہاہے تاکہ ان
واقعات سے عبرت حاصل کرکے راہِ راست پر چلنے کی کو شش کریں-
تنزیل کے لحاظ سے اگر چہ یہ
آیات بنی اسرائیل سے تعلق رکھتی ہیں لیکن تاویل اس کی صرف ایک زمانہ کے لوگوں
کےلئے مختص نہیں جس طرح کہ اس موضوع پر تفسیر ہذا کی جلد اوّل میں کافی بحث کی جاچکی ہے- [1]
پس اس قسم کی آیات مسلمانوں کیلئے بھی درسِ عمل
ہیں کہ انسان کو اپنے عمل بد کے بعد رحمت خدا سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، چنانچہ
بنی اسرائیل کی بار بار لغزشوں کے باوجود ان کی توبہ کو خداوندنے نہیں ٹھکرایا،
پس معلوم ہوا کہ اگر انسان سے لغزش ہو جائے تو اُسے توبہ کا دروازہ کھٹکھٹانا
چاہیے اگر دوبارہ لغزش ہوجائے تو دوبارہ توبہ کرے کیونکہ خدا وندکی رحمت سے بعید
ہے کہ معافی طلب کرنے والے کومعافی نہ دے وہ تو اّب اور رحیم ہے-
مثال کے طور پر یوں سمجھئے
کہ انسان کا ظاہری جسم یا لباس اگر نجس ہوجائے تو اسے پاک پانی سے دھو ڈالنے کا
حکم ہے تاکہ وہ پاک رہے پھر اس کو حفاظت سے رکھے تاکہ دوبارہ نجس نہ ہونے پائے
لیکن اگر اتفاق سے یا اس کی غفلت سے دوبارہ نجس ہو بھی جائے تو پانی کو اس کے
دوبارہ پاک کرنے سے انکار نہیں ہوتا جتنی بار نجس ہوگا جاری پانی میں غوطہ دینے سے
پاک ہی ہوتا رہے گا، پس اسی طرح روحانی نجاستوں کی تطہیر کےلئے خدا نے دریائے توبہ
اور بحر رحمت کو جاری فرمایا ہے کہ اگر گنا ہ سر زد ہو تو اس کو دریائے توبہ میں
غوطہ دے پھر اپنی طرف سے بچنے کی کوشش کرے لیکن پھر بوجہ گناہ کے اگر روحانی نجاست
سے آلودہ ہو جائے تو یہ نہ سمجھے کہ اب دریائے تو بہ میں یا بحر رحمت میں تطہیر کا
بخل ہے بلکہ وہ جتنی دفعہ توبہ کرے گا خدا منظور فرمائے گا بشرطیکہ زبانی تو بہ نہ
ہو قلبی توبہ ہو اور اللہ دلوں کے حالات کو خوب جاننے والا ہے ۔