التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

لا جَبْرَ وَ لا تَفوِیْضَ بَلْ اَمرٌ بَیْنَ الاَمْرَیْنِ

لا جَبْرَ وَ لا تَفوِیْضَ بَلْ اَمرٌ بَیْنَ الاَمْرَیْنِ
5 min read
لا جَبْرَ وَ لا تَفوِیْضَ بَلْ اَمرٌ بَیْنَ الاَمْرَیْنِ
جبرواختیار کے مسئلہ میں مذہب حقہ شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ نہ انسان اپنے افعال میں مجبور ہے اورنہ کلی مختار ہے بلکہ کچھ حصہ میں مجبور ہے اورکچھ حصہ میں مختار ہے انسان کی تمام قوتیں (ظاہری وباطنی) سب اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ ہیں پس اِن قوتوں کا عطاکرنا اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اوراِن قوتوں کے استعمال کا اختیار چونکہ انسان کو حاصل ہے لہذا اِن کا صحیح وغلط استعمال انسان کا فعل ہے-
چنانچہ اس کی وضاحت حجة الاسلام والمسلمین آیة اللہ علامہ میرزا حسن یزدی نجفیدام ظلہ[1]نے اپنے درسِ خارج میں اس طرح بیان فرمائی تھی جس کا ماحصل یہ ہے کہ انسان کا ذاتی وجدان بسلامتی عقل جبر واختیار کے مسئلہ میں خود فیصلہ کرسکتا ہے-
 چنانچہ جب میرزاقمی vسے اس مسئلہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ فیصلہ وجدانِ سلیم خودکرسکتاہے دیکھئے جس انسان کے ہاتھوں میں رَعشہ ہو تو اس کے ہاتھ حرکت کرتے ہیں اورایک تندرست انسان بھی ہاتھوں کو حرکت دیتا ہے پس ان دو حرکتوں میں فرق کا وجدان خود گواہ ہے کہ رَعشہ والامریض اپنے ہاتھوں کی حرکت میں مجبور ہے اورتندرست انسان اپنے ہاتھوں کی حرکت میں مختارہے رَعشہ والااپنے ہاتھوں کی حرکت کو بند نہیں کرسکتا اور تندرست چاہے تو حرکت دے اور چاہے تو حرکت بند کردے یہ اُس کے اپنے اختیار کی بات ہے، پس انسان فیصلہ کرسکتا ہے کہ جو افعال اُس کے ارادہ پر غالب ہیں اُن میں وہ مجبورہے اورجوافعال ارادہ کے تابع ہیں اُن میں وہ مختار ہے البتہ افعالِ اختیار یہ میں اعضا کی قوت اور ارادہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور ان کا استعمال بندے کی طرف سے ہے اسی لئے نماز میں کہاجاتاہے بِحَولِ اللّٰہِ وَ قُوَّتِہ اَقُومُ وَ اَقعُد یعنی میں اللہ کی عطاکردہ زور وقوت سے قیام وقعود کرتا ہوں پس حول وقوت اللہ کی جانب سے ہے اورقیام وقعود بندے کی طرف سے ہے-
اس کی مزید تفصیل یوں سمجھئے کہ بعض صفات انسان میں ایسی ہیں جن پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا مثلاً وجودِ زندگی، قوتِ شعور، قوتِ تصور، اعضا کی طاقت، اچھائی وبرائی میں قوتِ امتیاز، قوتِ شوق، قوتِ ارادیہ وغیرہ، پس اِن کے متعلق یہ سوال کرنا عبث ہے کہ انسان کا وجود کیوں ہے؟ اُس میں قوتِ شعور واحساس کیوں ہے؟ اچھائی وبرائی میں تمیز کیوں کرتا ہے؟ قوتِ شوق ونفرت کیوں ہے؟ قوتِ ارادہ کیوں ہے وغیرہ، کیونکہ یہ چیزیں خلقت انسان کو لاز م ہیں، اِن کے متعلق کیوں کہنا ایسا ہے جیسا کہاجائے کہ انسان انسان کیوں ہے؟ اِن پر کیوں تب کہاجاتا جب یہ چیزیں انسان کے اپنے بس میں ہوتیں، اِسی طرح قوتِ اختیار یہ بھی وجودِ انسانی کو لازم ہے اوراللہ کی عطا کردہ ہے اس پر بھی کیوں کے ذریعہ سے سوال نہیں کیا جاسکتا کہ یہ قوت انسان میں کیوں ہے؟
اِن کے بعد ہے فعل کی منزل، تو یہاں سوال بجاہے کہ کہاجائے تو نے یہ کیوں کیا؟ وہ کیوں کیا؟ کیونکہ یہ چیزیں انسان کے اپنے بس کی ہیں اِسی طرح قوتِ اختیار یہ اور قوتِ ارادیہ اللہ کی جانب سے ہیں لیکن صحیح وغلط کا ارادہ و اختیار انسان کے بس میں ہے چاہے تواچھائی کا ارادہ کرکے اُس کو اختیار کرے اوراگر چاہے تو برائی کا ارادہ کرکے اُس کا ارتکاب کرے اورصحیح وغلط اچھائی وبرائی کی تمیز کیلئے خداوند  نے قوتِ فکر کے ساتھ قوتِ عاقلہ بھی عطافرمائی اوراپنے کمالِ فضل وکرم سے انبیا ورسل﷨ بھیجے تاکہ انسانی عقل کی صحیح رہبری فرمائیں اب اگر انسان خدائی مبلِّغین کی تعلیمات سے فائدہ نہ اُٹھائے اوراپنے عقل کو قوتِ شہویہ ،غضبیہ، وہمیہ کا مغلوب بنا کر ناجائز افعال کو اختیار کرے تو مستحق مذمت اور سزا ہے اور اگر خدائی مبلِّغین کی تبلیغات کے ماتحت عقل کی روشنی میں جائز وناجائز کی پرکھ کرنے کے بعد جائز کو بجالائے اورناجائز سے اجتناب کرے تو لائق ستائش بھی ہے اورمستحق جزا بھی-
پس قوتوں کے عطا ہونے میں انسان مجبور ہے اوراپنے ارادہ واختیار سے افعال واعمال کے بجالانے میں وہ مختار ہے تو گویا انسان اپنے جملہ افعال میں دو پہلووٴں کے اندر محدود ہے ہرفعل میں خواہ اچھا ہو یا برا بنیادی طاقتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اورارادہ واختیار خیرو شر اور اُن طاقتوں کا استعمال بندے کی طرف سے ہیں، پس ثابت ہوا کہ نہ جبر ہے نہ اختیار بلکہ معاملہ دونوں کے درمیان ہے اِنتَھٰی
 پس کفار کی مذمت بجا اورمومنین کی مدح صحیح ہے کیونکہ اُن کا کفر اختیاری ہے اور اِن کا ایمان اختیاری ہے نہ وہ کفر پر مجبور ہیں اورنہ یہ ایمان پر، اِسی بنا پر ارشادِ خداوندی ہےلااِکرَاہَ فِی الدِّینِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشدُ مِنَ الغَّیِّ یعنی دین میں کوئی مجبوری نہیں[2]  تحقیق ہدایت وگمراہی ہر دو واضح ہو چکے ہیں، انسان کو اختیارہے چاہے دین قبول کرے چاہے بے دین  رہے، ایک مقام پر خداوند﷯ ارشاد فرماتاہے اِنَّا ھَدَینَاہُ السَّبِیلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُورًا ہم نے انسان کو صحیح راہ کی ہدایت کردی خواہ شاکر بنے خواہ کافر بنے [3] (یہ معاملہ اس کے اپنے اختیار میں ہے)
اِزالہ وہم:  چونکہ افعالِ انسانی کی قوتیں اللہ  کی عطاکردہ ہیں اِسی بنا پر قرآن  میں متعدد مقامات پر گمراہی کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ کسی کی گمراہی چاہتا ہے یاکسی کو گمراہ کرتا ہے بلکہ یہ شیطان کا عقیدہ تھا کہ اُس نے اپنی گمراہی کو اللہ کی طرف منسوب کردیا اور کہا  اَغوَیتَنِی تونے مجھے گمراہ کیا،   اللہ تعالیٰ نے انسان کو طاقتیں اسلئے عطا نہیں کیں کہ وہ اُن کو غلط استعمال کرے بلکہ وہ تو جنوں اور انسانوں سے عبادت ہی چاہتا ہے، یہ ایسا ہے جیسا کوئی رحمدل سخی کسی فقیر کی حالت زار پر ترس کھاکر اُس فقیر کو اپنے اور بچوں کے اخراجات کیلئے کچھ رقم دے اوریہ فقیر وہ رقم بجائے واجبی اخراجات سے سبکدوش ہونے کے قمار خانے یا شراب خانے کی نذرکردے تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس سخی نے غلط کیا تھا بلکہ وہ تو لائق ستائش ہے کہ اُس نے ایک غریب ومسکین کی امداد کی تھی بلکہ مذمت اورملامت کا مستحق وہ فقیر ہے جس نے محسن انسان کی قدر نہ کی اور اُس کے عطیہ کو بے محل خرچ کرکے ضائع کردیا، اِس مقام پر ا گر کہا جائے کہ اُس فقیر سے قمار بازی یاشراب نوشی اُس عطا کرنے والے رحمدل نے  کروائی ہے کیونکہ اِس فعل کی بنیادی قوت اُسی کی جانب سے ہے تو یہ نسبت مجازی ہوگی اور اِس نسبت سے فقیر کی بدباطنی اورغلط کاری میں ہر گز فرق نہ آئے گا اور نہ فقیر کی سزامیں اِس نسبت کی وجہ سے کوئی فرق پڑے گا اوراِسی طرح اُس کی غلط کاری اُس محسن کی حسن کارکردگی پر حرف زنی کی موجب بھی نہ ہوگی-


[1] جب پہلی دفعہ کتاب چھپی تو علامہ موصوف زندہ تھے اب وہ مرحوم ہو چکےہیں  - اعلیٰ اللہ مقامہ )منہ(
[2] سورہ بقرہ آیہ ۲۵۶
[3] سورہ انسان آیہ ۳

ایک تبصرہ شائع کریں