التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

مسئلہ قضا وقدر

مسئلہ قضا وقدر
6 min read

مسئلہ قضا وقدر

خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوبِھِم: (مہر لگا دی اللہ تعالیٰ نے اُن کے دِلوں پر) یہ آیت اوراِس قسم کی دوسری آیات سے بعض لوگ اِس اشتباہ میں مبتلاہیں کہ کافر کے دل پر جب اللہ تعالیٰ نے مہرلگا دی ہے تو وہ اب اپنے اعمال میں مجبور ہے جس طرح کہ مومن مہر کفر نہ ہونے کی وجہ سے نیکی کرنے پر مجبور ہے اورامت اسلامیہ میں یہ مسئلہ انتہائی انتشار وتشویش کا موجب بنا آرہاہے ہر دَور میں علما نے اس مسئلہ پر اپنی حیثیت سے اظہار خیال کیاہے، اہل قلم نے اس مسئلہ پر اپنی تحقیقا ت کے طومار لکھ دئیے لیکن اکثر یت آرائے فاسد ہ واَوہام کا سد ہ کی اتباع میں راہِ مستقیم سے کوسو ں دُور رہی اور اِس مسئلہ میں روحِ تسکین واطمینان سے وہی بہرہ ور ہوئے جنہوں نے ابوابِ مدینہ علم رسالت پرجبہ سائی کی اورشناورانِ دریائے حقیقت سے معارف وحقائق کا درس لیا-
اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ خداوند کریم خلقت ِموجودات سے پیشتر تمام ہونے والی مخلوق (خواہ مادّی ہویا مجرد، علوی ہو یا سفلی، عرشی ہو یافرشی، نوری ہو یاناری، جنتی ہو یا دوزخی) کے تمام جزوی وکلی حالات کو اَزل سے جانتا ہے اور اَبدالآباد تک ہونے والے سب واقعات روزِاوّل سے اس کو بیک وقت معلوم ہیں، نیکوں کی نیکیا ں، بروں کی برائیاں، ظالم کا ظلم اورمظلوم کی مظلومی حتی کہ سب حوادث ِتفصیلیہ اَزل سے اُس کے علم میں ہیں، اُس نے اِن صفات سے متصف ہونے والی مخلوق کو اپنے ارادہ اَزلیہ سے اورقدرتِ کا ملہ سے خلق فرمایا اوراِس تخلیق میں وہ مجبور نہیں بلکہ اپنے اختیار سے ایسا کیا-
 ابلیس اوراُس کے پیروکار اوراُن کی تخریبات جو عالم موجودات میں ہونے والی تھیں خداوند﷯ سب کو پہلے سے جانتا تھا اوراپنے ارادہ کا ملہ سے اُن کو اِسی طرح علیٰ الترتیب خلق فرمایا جس طرح اُس کے علم میں تھا اور اُن کے بالمقابل اپنے مبلغین انبیا ورسل﷨ وغیرہ اوراُن کے اطاعت گزاروں کو بھی اپنے علم سابق کی بنا پر ترتیب وار منصہ شہودپر جلوہ افروز فرمایا پس اِن سب ہونے والے واقعات کے علم سابق کا نام ہے ”قضا“ اوراِسی ترتیب سے علل واسباب کی وساطت سے ترتیب وار تمام موجودات کو خلعت ِوجود عطاکرنے کا نام ہے ”قدر“-
بعض لوگوں نے صرف قضا کو لے لیا ہے اور قدر کو ترک کردیا ہے وہ جبر یہ کہلاتے ہیں اور جنہوں نے قدر کولے لیا اورقضا سے غافل ہوئے ان کو قدر یہ کہاجاتا ہے -
جبریہ : جبریہ کا اعتقاد ہے کہ مخلوق کے جملہ افعال اچھے یابرے خداوندکریم کے علم اَزلی میں موجود ہیں لہذا کوئی انسان اُس علم اَزلی الٰہی کے خلاف توکر نہیں سکتا ورنہ اللہ تعالیٰ کے علم میں خطا لازم آئے گی لہذا انسان اپنے افعال میں مجبور ہے اورتمام نیک وبداعمال اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے ہیں-
قدریہ : قدریہ کا عقیدہ ہے کہ چونکہ موجوداتِ عالم علل واسباب کے ماتحت ہیں اورکوئی شئے بغیر اسباب کے ہونہیں سکتی لہذا انسان اپنے افعال میں مختارِ کل ہے اچھے اسباب کا نتیجہ اچھا اوربرے اسباب کا نتیجہ برا ہونا یقینی ہے اوراسباب کی اچھائی یابرائی انسان کے اپنے اختیار میں ہے-
گویا جبریہ قضا کے معنی کا تصور کرکے علل واسباب کو بھول جاتے ہیں اورقدریہ علل واسباب پر نظر رکھ کر قضا کو فراموش کردیتے ہیں احادیث میں اِن ہر دوفرقوں پر قدریہ کا لفظ عام طور پر استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ شیخ عباس قمی vنے “سفینةُ البحار” میں اس امر کی تصریح فرمائی ہے، چنانچہ جناب رسالتمآب سے منقول ہے جیسا کہ تفسیر صدرا میں ہے اَلقَدرِیَّةُ مَجُوسُ ھٰذِہ الاُمَّةِ قدریہ اِس اُمت کے مجوسی ہیں- [1]
وَفِیہِ: لَعَنَ اللّٰہُ القَدرِیَّةَ عَلٰی لِسَانِ سَبعِینَ نَبِیًّا قِیلَ وَمَنِ القَدرِیَّةُ یَارَسُولَ اللّٰہِ قَالَ قَوم یَزعُمُونَ اَنَّ اللّٰہَ سُبحَانَہ قَدَرَعَلَیھِمُ المَعَاصِی
ترجمہ:  خداوند﷯نے ستر نبیوں کی زبانی قدریہ فرقہ پر لعنت بھیجی ہے، آپؐ سے سوال کیا گیا کہ حضور قدریہ کون لوگ ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا وہ لوگ  جوکہتے ہیں کہ خدانے ہمارے لئے گناہ مقدر کردئیے ہیں-[2]
وَفِیہِ : ایک شخص جناب رسالتمآب کی خدمت میں آیا تو آپؐ نے اس سے دریافت فرمایاکہ اگر تو نے انوکھی چیز دیکھی ہے تو مجھے بیان کر؟ اس نے عرض کیا کہ میں نے ایک قوم دیکھی ہے جو اپنی ماوٴں اور بہنوں سے نکاح کرتے ہیں جب اُن کو کہا جائے کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ تو جواب میں کہتے ہیں کہ خداکی قضا وقدر ایسی ہے یعنی خدانے ہمارے لئے یہی مقدر کر رکھا ہے، آپؐ نے فرمایا کہ میری امت میں بھی اِس قسم کے لوگ پیدا ہوں گے جو ایسی باتیں کریں گے اوروہ میری اُمت کے مجوسی ہوں گے -
وَفِیہِ : جابربن عبداللہ سے منقو ل ہے حضور نے فرمایاکہ آخری زمانہ میں ایک قوم پیدا ہوگی جو گناہ کریں گے اور کہیں گے کہ خداکی تقدیر ایسی تھی پس اُن کی تردید کرنا اللہ کی راہ میں تلوار سے جہاد کرنے کے برابرہے-
ظاہر ہے کہ اِن احادیث میں قدریہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو افعال میں مجبور سمجھتے ہیں-
سفینةُ البحار میں امام رضا سے منقول ہے کہ حضرت امام علی زین العابدین نے اس آیت کو پڑھا  اِنَّ اللّٰہَ لا یُغَیِّرُ مَا بِقَومٍ حَتّٰی یُغِّیرُوا مَا بِاَنفُسِھِم وَاِذَا اَرَادَ اللّٰہُ بِقَومٍ سُوءً فَلا مَرَدَّ لَہُ [3] اورفرمایا قدریہ فرقہ اپنے مذہب کے اثبات کے لئے اس آیت کے پہلے حصہ کو پیش کرتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ بعد میں ارشاد ہے وَاِذَا اَرَادَ اللّٰہُ بِقَومٍ سُوءً فَلا مَرَدَّ لَہُ مقصد یہ ہے کہ آیت کے پہلے حصہ میں انسان کا مختار ہونا ثابت ہے اور آخری حصہ میں ارادہ اَزلیہ الٰہیہ کی حکومت ثابت ہے-
آیت کا مرادی معنی یہ ہے کہ خداوند کریم کسی قوم کی نعمات کو زائل نہیں کرتا یعنی اُن پر عذاب نہیں کرتا جب تک کہ اپنے نفسوں کے اعمال سے زوالِ نعمت کے وہ مستحق نہ ہوجائیں اورجب خداکسی قوم پر عذاب کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا یعنی خداوند کریم نے عالم ظاہرمیں اشیا کو اسباب سے وابستہ کردیا ہے اوران اسباب کے صحیح وغلط استعمال میں انسان کو پورا پورا اختیار دے رکھا ہے نیک اعمال کو سبب ِنجات اوربداعمال کو سبب ِعذاب قرار دیا ہے، اس میں شک نہیں کہ انسان ان کی بجاآوری میں قطعا ًمجبور نہیں بلکہ مختارِ کل ہے لیکن اُدھر اس کے علم اَزلی میں یہ ثابت ہے کہ فلاں نیک عمل کرکے ناجی ہوگا اورفلاں بد اعمال کی بدولت مستحق عذاب ہوگا تو پس جس کی نیک اعمالی کےلئے خداکا ارادہ اَزلیہ ثابت ہے تو دنیا میں اس سے نیکی ہی ہوگی اورعلم اَزلی الٰہی میں جس کا بداعمال ہونا ثابت ہے وہ دنیا میں بداعمال ہی ہوگا اورمستحق عذاب ہوگا-
پس آیت کا مطلب یہی ہے کہ دنیا میں بغیر اسبابِ ظاہریہ عذاب کے عذاب نہیں ہوتا اور خداکسی قوم پر بغیر اُن کے استحقاق کے عذاب نہیں کرتا لیکن جن کے متعلق ارادہ اَزلیہ میں عذاب کا استحقاق موجود ہے انہوں نے دنیا میں اسباب ہی ایسے پیدا کرنے ہیں جن کی بدولت وہ اپنے اختیا ر سے عذاب کے سزاوار ہوں گے اوراس امر کوکوئی ٹال سکتا ہی نہیں کیونکہ خدا کے علم اَزلی میں خطا وغلطی کا امکان ہی نہیں ہوسکتا اوراس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علم اَزلی کے ماتحت انسان اپنے اعمال میں مجبور ہے کیونکہ اُس کا علم انسان کے اختیار میں کوئی پابندی نہیں لاتا-
پس قضاوقدر بھی حق ہے اورانسان کا اختیار بھی ثابت ہے، چنانچہ حدیث قدسی میں وارد ہے:
مَن لَم یَرضَ بِقَضَائِی وَلَم یَصبِر عَلٰی بَلا ئِی فَلیَعبُد رَبًّا سِوَایَ وَلیَخرُج مِن اَرضِی وَسَمَاِئی
جو شخص میری قضا پر راضی اورمیری آزمائشات پر صابر نہ ہو تو پس کسی اور ربّ کی عبادت کرے اور میرے آسمان وزمین سے نکل جائے -[4]


[1] تفسیر ملا صدرا، سنن ابو داود ج۲ ص۷۳۴ ،  معجم طبرانی ج۳ ص۶۵ ، جامع الصغير ج۱ص۷۹۰ ، الملل و النحل ج۱ ص ۱۱۱
[2] مغنی ج۸ ص ۳۲۶،بحوث فی ملل و النحل ج ۱ ص ۱۱۶،مجمع الزوائد ج ۷ ص ۲۰۳
[3] سورہ رعد آیہ ۱۱
[4] اسرار الامامۃ ح۲۰۵۶

ایک تبصرہ شائع کریں