التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

ترتیب ِآیاتِ سورہ فاتحہ

ترتیب ِآیاتِ سورہ فاتحہ
9 min read

ترتیب ِآیاتِ سورہ فاتحہ

مراتب ِارتقا  میں پہلا مرتبہ علم کا ہے اس کے بعد عمل اور پھر نتیجہ،  ذاتِ احدیت نے جنوں اور انسانوں کے مقصد خلقت کے متعلق ارشاد فرمایا مَا خَلَقتُ الجِنَّ وَالاِنسَ اِلَّا لِیَعبُدُوْن میں نے جنوں اور انسانوں کو نہیں خلق کیا مگر عبادت کے لئے[1]، عبادت معرفت اور جزا دونوں کے درمیان واقع ہے، معرفت عبادت سے پہلے ہے اورعبادت جزاسے مقدم ہے، پس خداوندکریم نے انسان کوپہلے پہل معرفت کا درس دیا اور کلامِ مجید کو لفظ بِسْمِ اللّٰہ سے شروع فرمایا اوربندے کو تعلیم دی کہ ہر کام سے پہلے اللہ تعالیٰ کا نام لینا ضروری ہے اورچونکہ ذاتُ اللہ کا تصور حقیقی بندہ کے لئے نا ممکن تھا اس لئے اس کے بعد الرَّحْمٰن الرَّحِیْم کا اضافہ کردیا تاکہ یہ سمجھ میں آجائے کہ تمام نعمات چھوٹی یابڑی کا فیضان جس ذات کی طرف سے ہے وہ ہے اللہ تعالیٰ-
اب یہ بھی خود بخود معلوم ہوجائے گا کہ چونکہ تمام نعمات میں اہم نعمت وجودِ ممکنات ہے اور اللہ تعالیٰ ہی اس کا منعم ہے تو اس کی ذات قدیم ہے اوروجودِ ممکنات حادث ہے اور وجودِ ممکنات کا حسن نظام سے برقرار رہنا اس امر کی دلیل ہے کہ ان کا صانع حقیقی قادر بھی ہے اور علیم وحکیم بھی اور چونکہ ممکنات تغیر سے خالی نہیں تو ماننا پڑے گا کہ ان کا موجد باقی وغیر فانی ہے، اس میں تغیر آہی نہیں سکتا اور نیز اس کا مرید ومدرک ہونا بھی ضرروری ہے-
بس صرف اسی آیت میں غوروفکر کرنے سے اللہ تعالیٰ کی جملہ صفاتِ ثبوتیہ وسلبیہ کی معرفت ہوجائے گی اور پتہ چل جائے گا کہ اللہ اس ذات کا نا م ہے جو تمام صفاتِ کمال کی جامع ہے اور ان میں اس کا کوئی شریک نہیں ورنہ نظام کا درہم برہم ہوجانا ضروری ہے چنانچہ خود فرماتاہے لَوکَانَ فِیھِمَا اٰلِھَة اِلاَّ اللَّہ لَفَسَدَتا اگر  آسمان وزمین میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور خدا بھی ہوتے تو ان کا نظام فاسد ہوجاتا [2] یعنی نظام کا ئنات کی بقا اس کے باقی اور لاشریک ہونے کی ظاہرو واضح دلیل ہے-
پس جب انسان کے ذہن میں خداکی معرفت آگئی اور یہ سمجھ لیا کہ میرا بلکہ کل کا ئنات کا وجود اور دنیا کی تمام نعمات اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہیں تو عقل انسان کو خود پکارکر کہے گی کہ اس منعم حقیقی کا شکراداکیاجائے جو عالمین کا ربّ ہے-
اب شکر کا وجود سمجھ لینے کے بعد اس کی طرف سے آتے ہوئے تمام اوامرونواہی کو معلوم کرکے ان پر عمل کی کوشش کرے گا اور اس کے بھیجے ہوئے رسولوں کے دروازہ پردستک دئیے بغیر چونکہ یہ مرحلہ طے کرنا مشکل ہے لہذا معرفت خدا کے بعد عمل وعبادت کے لئے معرفت نبی وامام کی ضرورت ہے جیسا کہ اسی تفسیر  کی جلد اوّل میں توحید وضرورت نبی وضرورت امام کے عناوین میں تفصیل سے روشنی ڈالی جا چکی ہے-[3]
پس آیہ اَلحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالَمِین معرفت کے بعد عبادت کی منزل کو ظاہر کرتی ہے، منعم حقیقی کا شکراداکرنے کے لئے جب نبی یا امام سے احکا م شرعیہ کی تعلیم پالی تو مقتضائے بشریت کے لحاظ سے اس میں بھول چوک کا ہونا ضروری تھا اور یہ اندیشہ تھا کہ مبادا انسان اپنی کوتاہیوں کے پیش نظر اس کی رحمت سے مایوس ہوجائے؟ لہذا بعد میں پھر اَلرَّحمٰنِ الرَّحِیم کا اعادہ فرمادیا جس میں لطیف اشارہ ہے اس طرف کہ اے انسان مقام اطاعت و ادائیگی شکر میں اگر تجھ سے کچھ کوتاہی ہوبھی جائے تو مایوس نہ ہوکیو نکہ میں رَحمٰنِ الرَّحِیم ہوں جس طرح وجودِ کائنا ت اور اس میں تمام ظاہری انعامات میری طرف سے ہیں اسی طرح آخرت کے انعامات ومہربانیاں بھی میری ہی طرف سے ہوں گی اورجس طرح میں رَبُّ العَالَمِین ہو ں اسی طرح رَحمٰنِ الرَّحِیم بھی ہوں، خطا سرزد ہو جانے کے بعد تو اگر توبہ کرے گا تو میں اپنے رحم وکرم سے تجھے معافی دے دوں گا-
اور اس کے بعد فرمایا مَالِکِ یَومِ الدِّین یعنی قیا مت کا معا ملہ میر ی ذات سے ہی وابستہ ہے کیو نکہ اس دن اور کسی کی کوئی ملکیت نہ ہو گی، نیز اس آیت سے متنبہ کر دیا کہ اے انسان! اپنے نتیجہ سے غافل نہ ہو جس طرح میں ایجادِ خلق میں منفرد ہوں اور میں نے اپنے ارادہ سے ہی تمام کا ئنا ت کو وجود بخشا ہے اور تجھے مقام اطاعت پر لا کھڑا کیا ہے اسی طرح تجھے اپنی کا رکردگی کا بدلہ دینے کے لئے بھی صرف میں ہی ہوں جس طرح ایجاد میری قدرت سے ہے اسی طرح اعادہ بھی میری قدرت سے ہوگا، مجھ سے بھاگ کوئی نہیں سکتا، تجھے شکر گزاری کی جزا ضرور دوں گا اور اگر احسان فراموشی کرکے سرکشی کرے گاتو اس کی سزا بھی ضروردوں گا-
پس یہا ں تک پہنچ کر انسان نے مقام دنیا میں اپنے پیش وپس کو یعنی مبداو معاد کو سمجھ لیا، یا یہ کہہ دیجئے کہ مِن اَینَ وَ فِی اَینَ وَاِلٰی اَینَ یعنی کہا ں سے آیا اور کہاں آیا اورکہاں جانا ہے[4]؟  تینو ں منازل کا تصور سامنے آگیاکہ اللہ تعالیٰ نے بھیجا اور مقام اطاعت وعبادت وشکر میں بھیجا اورمقام جزا وسزا(قیامت) میں حاضر ہونا ہے، جب انسان اس منزل معرفت تک پہنچ چکا اور جان لیا کہ میرے ماضی ،حال، مستقبل سب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، مبداومعاد کا مالک صرف وہی ہے تو پس اس کی عظمت، قدرت، ہیبت، جلالت آنکھوں کے سامنے آگئی اورغیب سے خطاب کی طرف پلٹ گیا جیسا کہ کہا جاتا ہے  اَلْمَعْرِ فَةُ بَذْرُالمُشَاھِدَةِ وَالرُّوْیَةُ ثَمْرَةُ الیَقِیْن  یعنی معرفت مشاہدہ کا بیج ہے اوررُویت یقین کا پھل ہے یعنی کسی چیز کی معرفت جب کا مل ہوتی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ سامنے ہے اور گو یا میں اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہوں، اسی طرح جب کسی شئے کے وجود کا یقین کا مل ہوجاتا ہے تو وہ شئے اگرچہ ظاہراً  آنکھو ں سے اوجھل ہو پھر بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ آنکھو ں کے سامنے ہے-
 چنا نچہ  منقول ہے کہ حضرت امیر المومنین سے دریافت کیا گیا کہ آپ ؑنے کبھی اپنے خدا کو دیکھا ہے؟ آپ ؑ نے فرمایا کہ میں نے اَن دیکھے خدا کی عبادت کبھی نہیں کی، سائل نے عرض کیا وہ کیسے؟ آپ ؑ نے فرمایا کہ آنکھیں اس کو بصارتِ ظاہر یہ سے نہیں دیکھ سکتیں بلکہ دل بصیرتِ ایمانیہ سے اس کا مشاہد کرتے ہیں-[5]
پس معرفت کے بعد زبان پر یہ کلمات جاری ہوئے اِیَّاکَ نَعبُدُ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اس مقام پر نَعبُدُکَ نہیں کہا اور اِیَّاکَ کو مقدم کیا تاکہ انسان مقام اطاعت وعبادت میں بھی پہلے معبود کا تصور کرے اور پھر عبادت کوسامنے لائے، یعنی عبادت کو معرفت کے پیچھے قرار دے اور چونکہ مقام عبادت میں حق عبادت کا ادا کرنا انسان کے اپنے بس سے باہر ہے تو فوراً دوسرا جملہ انسان کی تعلیم کےلئے ارشاد فرما دیا کہ انسان یہ کہے وَاِیَّاکَ نَستَعِین اے اللہ! ہم اس مرحلہ عبادت میں بھی تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں کیونکہ اگر تیری توفیق شامل حال نہ ہو تو ہماری کوتاہیاں ہمیں منزل مقصود تک پہنچنے سے مانع رہیں گی،  نیز یہ بھی احتمال ہو سکتا تھا کہ مقام عبادت میں مبادایہ خیال پیدا ہو کہ میں عابد ہوں اور حق واجب شکر ادا کررہا ہوں پس میں اپنے کمال پر پہنچ گیا؟ اس تکبر کے شائبہ کو رفع کرنے کےلئے اس طرف متوجہ کیا گیا کہ توفیق عبادت بھی بغیر اسی ذات کی عنایت وامداد کے نہیں ہوسکتی یعنی انسان کا عبادت گزار ہو نا بھی اس کی ایک جدا نعمت ہے اسی کا فیض ہے اس پر بھی شکر گزار ہونا چاہیے-
مقام عبادت میں کھڑے ہو کر یہ خیال کرنا چونکہ ضروری ہے کہ آیا جس کو میں عبادت واطاعت سمجھ رہا ہوں یہی عباد ت اطاعت ہے بھی سہی؟ کیونکہ اپنی عقل تعیین عبادت میں کو تاہ ہے (جیسا کہ ہم نے کتاب کی جلد اوّل ضرورت نبی کے باب میں اس کو کا فی تفصیل سے بیا ن کیا ہے[6]) پس ضرورت محسوس ہو ئی کہ مقام اطاعت ومعصومیت کے سمجھانے کے لیے خود خدا نے جن برگزیدہ افرادکو نامزد فر مایا ہے اور ان کو اپنی طرف سے بندوں کی طرف عہدہ سفارت عطا فرما کر رسول، نبی وامام کے لقب سے ملقب فرمایا ہے یہ طریقے انہی سے حاصل کیے جا ئیں اور یہ مرحلہ بھی چونکہ اس کی توفیق و تا ئیدکے بغیر طے ہونا مشکل تھااس لیے ہماری تعلیم کیے لیے ارشادفرمایا اے انسان! راہِ ہدایت اور ہادی کی تلا ش میں بھی مجھ سے توفیق طلب کراور پھر راہِ حق پرثابت قدم رہنے کے لیے بھی مجھ سے توفیق کی دعا مانگ اور کہہ  اِھدِنَاالصِّرَاطَ المُستَقِیمَ  اے اللہ! سیدھے رستہ پر گامزن ہو نے کی اوراس پر ثابت قدم رہنے کی مجھے توفیق دے صِرَاطَ الَّذِینَ اَنعَمتَ عَلَیھِم غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیھِم وَلَا الضَّآلِّین  یعنی ان لوگو ں کا رستہ جن پر تونے انعام نازل فرمایانہ ان لوگوں کا رستہ جو مقام اطاعت میں اپنے من گھڑت طریقوں پر چلنے کی وجہ سے تیرے غضب کے نیچے آگئے اور گمراہ ہو گئے-
یا یوں عرض کروں کہ انسان مرکب ہے دو اہم چیزوں سے ایک روح اور دوسرا جسم، روح جزوِ اشرف و اعلیٰ ہے اور جسم جزوِ اَخس و اَدنیٰ ہے، روح راکب ہے اور جسم اس کا مرکب ہے، روح محل معرفت ہے اور جسم محل عمل ہے، پس خدا وند کریم نے تعلیم معرفت سے ابتدا فرمائی جس کا اہل روح ہے، پھر جملہ صفاتِ ثبوتیہ و سلبیہ کی طرف اس کو متوجہ فرمایا اور اپنی ربوبیت و اُلوہیت کا اعتراف لیا اور اپنے مبدا و معاد میں مالک کل ہونے کا درس دیا، جب روح نے  مَالِکِ یَومِ الدِّین  تک پہنچ کر منا زلِ معرفت طے کر لیں تو جسم چونکہ روح کے تابع اور مرکب کی حیثیت سے ہے لہذ ا اس کے اعضا بول اٹھے اوراپنے راکب وروح کے ارادہ سے متاثر ہوکر خالق کا ئنات کی عظمت وجلال کو مد نظر رکھتے ہوئے پکار اٹھے اِیَّاکَ نَعبُدُ وَاِیَّاکَ نَستَعِین  اوراپنی خطا کے امکا ن کو محسوس کرکے دعا مانگ لی کہ میرے مالک تومجھے اس مقام پر ثابت قدم رکھ کہ انعام پانے والوں کے رستہ سے ہمارے قدم ڈگمگا نہ جائیں تاکہ مستحقین غضب اور گمراہوں کی طرح ہمارا حشرنہ ہو؟ اور جمع کی ضمیریں ذکر کی گئیں جس سے لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ بندوں کے لئے لازم ہے کہ مل جل کر بارگاہِ پروردگار میں کھڑے ہوکر یہ آیات اپنی زبانوں سے جاری کریں تاکہ بارگاہِ ایزدی میں شرفِ قبولیت کو پہنچیں، گویا ضمنی طور پر یہ آیات نمازِ جماعت کی تاکید پردلالت کررہی ہیں-
نیز اس تفصیلی بیا ن سے سورہ فاتحہ کا علوم قرآنیہ کے لئے جامع ہونا مدلل طور پر معلوم ہوگیا اورباقی سُوَرِ قرآنیہ پر اس کی تقدیم کی زیادہ وضاحت ہوگئی کیو نکہ علوم کل تین ہیں:
 مبداکا علم،  معاد کا علم،  دارالتکلیف میں انسان کے اپنے فرائض کا علم جس کو ”علم الوسیط“ کے نام سے موسوم کیاگیا ہے کیونکہ یہ مبدا ومعاد کے وسط (درمیان) میں ہے-
اور پورے قرآن مجید میں ان ہر سہ علوم کی ابحاث ہیں اور انہی کے بیا نات وبراہین وتو ضیحات ہیں اورسورہ فاتحہ میں یہ تینو ں علوم اجمالی طور پر بیا ن کردئیے گئے ہیں، پس یہ ” اُ مُّ الکتاب“ بھی ہے اور ”اَلْاَسَاسْ“ بھی اورپورے قرآنی بیانات کے لئے بحیثیت موضوع بھی ہے لہذا تمام قرآنی سورتوں پر مقدم ہے، اس بیان کی ایک اور توجیہ مستقل طورپر آیاتِ فاتحہ کی معنوی توجیہ کے عنوان میں بیان ہوگی-


[1] سورہ ذاریات آیہ ۵۶
[2] سورہ انبیا آیہ ۲۲
[3] تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف ج۱
[4] اعلام الدين ص۳۴۴
[5] بحارالانوار علامہ باقر مجلسی ج۴
[6] تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف ج ۱

ایک تبصرہ شائع کریں