التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تفسیر رکوع ۷ -- قرضے کا بیان

تفسیر رکوع ۷ -- قرضے کا بیان
10 min read
تفسیر رکوع ۷  --  قرضے کا بیان


یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَ تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنِ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتَبُوْہُ  وَلْیَکْتُبْ بَّیْنَکُمْ کَاتِبم بِالْعَدْلِ  وَلا یَاْبَ کَاتِب اَنْ یَّکْتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ فَلْیَکْتُب ْ وَلْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہ وَلا یَبْخَسْ مِنْہُ شَیْئًا فَاِنْ کَانَ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ سَفِیْھًا اَوْضَعِیْفًا اَوْلا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ ھُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّہ بِالْعَدْلِ  وَاسْتَشْھِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجْل وَّامْرَاٰتَنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَآئِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰ ھُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰ ھُمَا الْاُخْرٰی وَ لا یَاْبَ الشُّھَدَآئُ اِذَا مَا دُعُوْا وَلا تَسْئَمُوْ ٓا اَنْ تَکْتُبُوْہُ صَغِیْرًا اَوْکَبِیْرً اِلٰٓی اَجَلِہ ذٰلِکُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ وَاَقُوْمُ للِشَّھَادَةِ وَاَدْنٰٓی اَلَّا تَرْتَابُوْ ٓا اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَھَا بَیْنَکُمْ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاح اَلَّاتَکْتُبُوْھَا وَاَشْھِدُوْ ٓا اِذَا تَبَایَعْتُمْ وَلا یُضَآرَّ کَاتِبوَّلا شَھِیْد ۵ وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّہ فُسُوْق بِکُمْ  وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ ط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْم( 282 ) وَاِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا فَرِھٰن مَّقْبُوْضَة فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا فَلْیُوَدِّ الَّذِیْ اوْتُمِنَ اَمَانَتَہ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہ  وَلا تَکْتُمُوا الشَّھَادَةَ  وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٓ اٰثِم قَلْبُہ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْم ( 283)ع

ترجمہ:
اے ایمان والو! جب تم آپس میں قرض کا لین دین کرو مدت مقرر تک کے لئے تو اس کو لکھ لو اور چاہیے کہ لکھے تمہارے درمیان کاتب انصاف کے ساتھ اور نہ انکار کرے کاتب لکھنے سے جس طرح کہ اللہ نے اس کو علم دیا ہے پس وہ لکھے اور لکھواتا جائے وہ جس پر حق ہے (قرض لینے والا) اور وہ اپنے ربّ سے ڈرے اور کم نہ کرے اس سے کوئی چیز پس اگر ہو وہ شخص جس پر حق ہے (قرض لینے والا) بے وقوف یا کمزور یا یہ کہ ناقابل ہو لکھوانے کے خود تو لکھوائے اس کا ولی ساتھ انصاف کے اور گواہ قائم کرو دوگواہ اپنے مردوں میں سے پس اگر دو مرد نہ مل سکیں تو پس ایک مرد اور دو عورتیں ان لوگوں میں سے کہ تمہیں ان پر بھروسہ ہو (عادل ہوں) اس لئے کہ ایک عورت بھول جائے تو اس کو دوسری یاد دلا سکے (لہذا ایک مرد کے مقابلے میں دوعورتیں ہوں) اور نہ انکار کرے گواہ جب وہ بلائے جائیں اور تنگدلی نہ کرو اس کے لکھنے سے خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ اپنے وقت تک کے لئے یہ زیادہ قریب انصاف ہے اللہ کے نزدیک اور زیادہ پختہ کرنے والی ہے شہادت کو اور زیادہ قریب ہے اس کے کہ تم شک میں نہ پڑو مگر یہ کہ ہو سودا نقد بنقد جس کا تم باہمی لین دین کرو تو پس تم پر گناہ نہیں کہ نہ لکھو اس کو اور گواہ قائم کر لیا کرو جب خرید و فروخت کرو اور نہ ضرر دے یا نہ ضرر دیا جائے کاتب اور نہ گواہ اور اگر ایسا کرو تو تمہارے لئے گناہ ہو گا اور اللہ سے ڈرو اور اللہ تم کو سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہےo اور اگر تم سفر میں ہو اور تم کو کوئی لکھنے والا نہ مل سکے تو پس کوئی چیز گروی قبض کرنا (اچھا ہے) پس اگر امین سمجھے تم میں سے ایک دوسرے کو تو پس ادا کرے وہ جس کو امین سمجھا گیا ہے اپنی امانت کو اور ڈرے اللہ سے جو اس کا پروردگار ہے اور نہ چھپا گواہی کو اور جو اسے چھپائے گا پس اس کا دل گنہگار ہے اور خدا تمہارے اعمال کو جاننے والا ہےo
تفسیر رکوع ۷
قرضے کا بیان
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ: تفسیر برہان میں مروی ہے کہ سورہبقرہ میں پانچ سو حکم مذکور ہیں اوران میں سے پندرہ حکم صرف اسی ایک آیت مجیدہ میں ہیں تفصیل یہ ہے:
        جب ایک مدت معینہ کے لئے قرضے کا لین دین کیا جائے تو اسے لکھ لینا چاہیے
        کاتب پر واجب ہے کہ عدل وانصاف سے لکھے اپنی تحریر میں قرضہ لینے یادینے والے کو نقصان نہ دے یعنی کم یا زیادہ نہ لکھے
        جب کاتب کو لکھنے کےلئے کہا جائے تو انکار نہ کرے
        کتابت کرنا کاتب پر واجب کفائی ہے اورشیخ طوسیؒ فرماتے ہیں کہ کاتب پر اسکی اجرت لینا حرام ہے
مسئلہ  کاغذ سیاہی وغیرہ کا خرچہ قرض دینے والے پر ہے نہ کہ لینے والے پر اور یہ تحریر بھی قرض خواہ کے پاس محفوظ رہے گی۔
        جو قرضہ لے رہا ہے وہ خود تحریر لکھوائے یعنی کاتب کے سامنے اپنی زبانی اقرار کرتا جائے کہ واقعی میں نے فلاں سے اتنی مدت تک کے لئے اس قدر روپیہ لیا ہے وغیرہ
        قرضہ لینے والے کو اللہ سے خوف کرنا چاہیے کہ کاتب کو غلط نہ بتائے جس طرح آپس میں معاملہ کیا ہے اسی طرح صحیح صحیح لکھوائے شئے کی مقدار اوصاف مدت وغیرہ میں کوئی کمی یا بیشی کر کے نہ لکھوائے
        جس کے لئے قرض لیا گیا ہے اگر وہ کم عقل ہے یعنی دیوانہ و مجنون یا بچہ ہے یا یہ کہ لکھوانے اور اقرار کرنے سے معذور ہے مثلاً گونگا ہو تو اس کے ولی پر واجب ہے کہ وہ لکھوائے لیکن عدل و انصاف کو ملحوظ رکھے نہ قرض لینے والے کو خسارہ دے اور نہ دینے والے کا نقصان کرے
        قرضہ کی لین دین کے وقت دو عادل گواہ مرد قائم کرنے چاہییں اگر دو عادل مرد دستیاب نہ ہو سکتے ہوں تو ایک مرد اور دوعورتیں گواہ مقرر کریں اور ان میں بھی عدالت شرط ہے اور مِمَّنْ تَرْضَوْنَ کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے نزدیک ان کا دین اور عدالت پسندیدہ ہو یعنی مومن ہوں اور ظاہر کے اعتبار سے نیک ہوں
        جب گواہوں کو گواہ بننے کے لئے یا حاکم شرع کے سامنے گواہی دینے کے لئے بلایا جائے تو ہر دو صورت میں ان کا انکار کرنا ناجائز ہے
        چھوٹا معاملہ ہو یا بڑا لکھنے کے حکم میں سب برابر ہیں یعنی اس قسم کا ہر معاملہ لکھ لینا چاہیے کیونکہ اس میں ایک دوسرے پر بدگمانی اور شک و شبہ وغیرہ کی گنجائش نہیں رہتی
        تجارت اور نقد بنقد خرید و فروخت کا قصہ ہو تو اس میں لکھنا ضروری نہیں اور اگر لکھ لیا جائے تو حرج نہیں
        خرید و فروخت پر بھی گواہ قائم کیے جائیں اور یہ امر استحباب کے لئے ہے
        لایُضَآرُّ اگر صیغہ معلوم کا ہو تو مطلب یہ ہے کہ کاتب اور گواہ معاملہ کرنے والوں کو ضرر نہ دیں یعنی ان کو ان کی ضرورت ہو تو پریشان نہ کریں بلکہ کتابت یا گواہی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیں
اگر صیغہ مجہول کا ہو تو معنی یہ ہو گا کہ معاملہ کرنے والے کاتب یا گواہ کو ضرر نہ دے کہ اگر ان کا وقت فارغ نہ ہو اور ان کو بھی اور مل سکتے ہوں تو خواہ مخواہ ان کو تنگ نہ کرے
        کاتب یا گواہ کا معاملہ والوں کو یا معاملہ کرنے والوں کے کاتب یا گواہ کو بلا وجہ ضرر دینا فسق اور گناہ ہے
حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ہے کہ جناب رسالتمآب نے فرمایا کہ خدا وند عالم تین آدمیوں کی دعا کو قبول نہیں کرتا جس کا خلاصہ یہ ہے:
(۱)   وہ شخص جس کی عورت بد مزاج ہو اور اس کو اذیت دیتی ہو اور اس کی عیب جوئی کرتی ہو اور یہ اس سے تنگ ہو پس اللہ سے دعا مانگے کہ اے پروردگار! مجھے اس سے نجات دے تو خدا کی طرف سے اس کو جواب ملتا ہے کہ اے جاہل ! اس سے نجات حاصل کرنا تیرے اپنے ہاتھ میں ہے کیونکہ میں نے تجھے اس کو طلاق دے کر نجات حاصل کرنے کا اختیار دے دیا ہے
(۲)   وہ شخص جو کسی شہر میں ہوا ور وہ جگہ اس کے نا موافق ہو اور وہاں وہ جو کچھ چاہتا ہو اسے دستیاب نہ ہو سکتا ہو پس دعا مانگے کہ اے پروردگار! مجھے اس سے نجات دے تو خدا کی جانب سے جواب ملتا ہے کہ تیرے لئے میری طرف سے راستہ کھلا ہے اس شہر کو چھوڑ کر کسی دوسرے شہر میں چلا جا
(۳)   وہ شخص جس نے کسی نا قابل اعتبار آدمی کو قرض دیا اور اس سے وثیقہ نہ لکھوایا پس اس نے قرض کا انکارکر دیا واپس کم دیا پس یہ شخص اللہ سے دعا مانگے تو جواب ملتا ہے کہ اے میرا بندہ! تو نے میرے فرمان پر عمل نہیں کیا اور اب مجھ سے دعا مانگتا ہے حالانکہ تو نے اپنا مال خود ضائع کیا ہے اور میری وصیت کو تبدیل کیا ہے پس اس بارہ میں تیری دعا قبول نہیں ہے اور جناب رسالتمآب نے فرمایا کہ اللہ کی وصیت پر عمل کرو کیونکہ اس میں تمہاری کامیابی ہے اور اس کی خلاف ورزی نہ کرو ورنہ پشیمان ہو گے
امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث میں مروی ہے کہ جو شخص بغیر لکھے کے اور بغیر گواہوں کے کسی کو قرضہ دے اور پھر وہ اس کو واپس نہ دے تو اس کی بد عا بھی اس کے بارے میں مقبول نہیں۔
فَرَجُل وَ امْرَاَتَانِ: دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے جناب امیر المومنین ؑ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک عورت حضرت رسالتمآب کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں جملہ عورتوں کی طرف سے حاضر خدمت ہوئی ہوں کہ خدا وند عالم تمام عورتوں مردوں کا پروردگار اور خالق و رزاق ہے اور حضرت آدم ؑ و حوا ّ بھی یکساں طور پر تمام مردوں عورتوں کے والدین ہیں اور آپ بھی تمام مردوں عورتوں کی طرف یکساں طور پر رسول ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ شہادت اور میراث میں دو عورتوں کو ایک مرد کے برابر قرار دیا گیا ہے؟ آپ نے فرمایای اے عورت! خدا ئے عادل و حکیم ظلم و جور نہیں کرتا کیونکہ تمہیں کم دینے سے اس کو نفع نہیں اور زیادہ دینے سے اس کو خسارہ نہیں ہے لیکن وہ معاملات کی تدبیر اپنے علم سے فرماتا ہے اے عورت ! وجہ یہ ہے کہ تمہارا دین اور عقل ناقص ہے اس نے وجہ پوچھی؟ تو آپ نے فرمایا کہ تمہارے دین کا نقصان تو اس سے ظاہر ہے کہ تمہیں ہر ماہ میں نماز پڑھنے سے معذوری لا حق ہوا کرتی ہے (اور عقل کے نقصان کی یہ علامت ہے) کہ تم لعن و طعن زیادہ کرتی ہوا ور کفر انِ نعمت تمہارا شیوہ ہے مثلاً ایک عورت اگر دس برس ایک مرد کے پاس رہے اور وہ اس کی ہر قسم کی ناز برداری کرتا رہے لیکن پھر ایک دن اگر مرد پر تنگی آجائے یا مرد عورت کو اس کے خلاف مزاج کوئی بات کہہ دے تو وہ (اس کی دس سالہ خدمات و احسانات کو نظر انداز کرتے ہوئے) فوراً کہتی ہے کہ میں جب سے تیرے گھر آئی ہوں تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی؟ ہاں اگر کوئی عورت اس سے بلند کردار اور اس قسم کی بد عا دتوں سے کنارہ کش ہو تو اس کےلئے یہ (میراث و شہادت میں) کمی اس کا امتحان ہے تاکہ صبر کرے اور اس سے اس کے درجات بلند ہوں پس تجھے خوشخبری ہے پھر آپ نے فرمایا ردّی مردوں اور ردّی عورتوں میں سے عورت ردّی ترین ہوتی ہے اور صالح مردوں اور صالح عورتوں میں سے مرد صالح ترین ہوا کرتا ہے اور خدا وند کریم نے (معاملہ شہادت میں) کسی عورت کے مرد کے برابر نہیں قرار دیا مگر جناب فاطمہ الزہراؑ کو کہ وہ اس معاملہ میں حضرت علی ؑ کے برابر تھیں (برہان)
وَ اِنْ کُنْتُمْ: اس سے پہلی آیت میں اُدھار دیتے وقت تحریر اور شہادت ہر دو کا تاکیدی حکم دیا گیا تھا اور اس مقام پر فرماتا ہے اگر سفر میں بامر مجبوری کسی کو ادھار دو اور کاتب دستیاب نہ ہو سکے تو اس سے اس کے بدلہ میں کوئی چیز رہن کے طور پر رکھ لو اور یہی چیز تحریر و شہادت وغیرہ کے قائم مقام ہو جائے گی۔
فَاِنْ اٰمِنَ: اگر کسی کو امین اور قابل اعتبار قرار دے کر نہ اس سے تحریر لی گئی ہو اور نہ رہن رکھوایا گیا ہو تو اس پر واجب ہے کہ اپنا حق امانت ادا کرے۔
وَلا تَکْتُمُوا الشَّھَادَةَ: حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ جناب رسالتمآب نے فرمایا اگر کوئی شخص شہادت کو چھپائے یا ایسی شہادت دے جس سے ایک مسلمان کا خون رائیگاں ہو جائے یا کسی مسلمان کا خون تلف ہو تو بروز محشر اس کا منہ سیاہ ہو گا اور نگاہ چشم تک اس کے سامنے سیاہی ہو گی جس سے تمام اہل محشر اس کو پہچان لیں گے اور اگر کوئی حق کی شہادت دے تاکہ مسلمان کا حق زندہ ہو تو بروز قیامت اس کا چہرہ نورانی ہو گا اور تاحد نگاہ اس کی روشنی ہو گی کہ تمام مخلوق اس کو پہچان لے گی۔
جناب رسالتمآب سے مروی ہے کہ جھوٹی شہادت دینے والا ابھی تک شہادت سے فارغ نہیں ہو تا کہ جہنم میں اس کی جگہ ریز رو ہو جاتی ہے۔
مسئلہ  اس شہادت سے مراد ہے کہ حاکم شرع اگر شہادت طلب کرے تو انکار نہیں کرنا چاہیے اور نہ غلط بیانی کرنی چاہےے حاکم جور کے سامنے مقدمہ لے جانا بھی حرام ہے اور اس کے سامنے شہادت دینا بھی گناہ ہے مگر یہ کہ بامر مجبوری ایسا کرنے پر آمادہ ہو جائے تو خدا غفور رحیم ہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں