امام حسین علیہ السلام کی مظلومی
ثُمَّ أَنتُمْ
هٰٓؤُلآءِ تَقْتُلُوْنَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُوْنَ فَرِيقاً مِّنْكُم مِّن
دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُوْنَ عَلَيْهِم بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوٰنِ وَإِنْ
يَّأتُوْكُمْ أُسٰرٰى تُفَادُوْهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ
أَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآءُ مَنْ
يَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ
الْقِيَامَةِ يُرَدُّوْنَ إِلٰى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ
عَمَّا تَعْمَلُوْنَ (85) أُوْلٰٓئِكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُاْ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا
بِالْآخِرَةِ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ يُنصَرُوْنَ (86)
ترجمہ:
پھر تم وہی قتل کرتے ہو ایک
دوسرے کو اور نکال دیتے ہو ایک فریق اپنے کو اپنے گھروں سے درحالیکہ تم ایک دوسرے
کے معاون ہوتے ہو ان کے خلاف ناجائز طور پر اور ظالمانہ انداز سے اور اگر آئیں تمہارے پاس قیدی ہو کر تو ان کا
فدیہ دیتے ہو حالانکہ حرام ہے تم پر نکالنا ان کا
کیا تم ایمان لاتے ہو بعض کتاب سے
اور کفر کرتے ہو ساتھ بعض کے پس نہیں جزا اس کی جو کرے یہ کام تم میں سے مگر
رسوائی زندگی دنیا میں اور روز قیامت وہ پھیر دئیے جائیں گے طرف سخت ترین عذاب کے
اور خدا غافل نہیں اس سے جو تم عمل کرتے ہو(85) وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے خرید لیا
زندگی دنیا کو بدلہ آخرت کے پس خفیف نہ کیا جائے گا ان سے عذاب اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے(86)
ثُمَّ اَنْتُمْ: مجمع البیان میں ابن عباس سے مروی ہے کہ یہود کے دوقبیلے بنی قریظہ اوربنی
نضیر آپس میں بھائی بھائی تھے جس طرح عرب کے دوقبیلے اَوس اورخزرج تھے، پس اُن میں
پھوٹ پڑ گئی تو قبیلہ بنی نضیر خزرج کے ساتھ ہو گیا اورقبیلہ قریظہ قبیلہ اَوس کے
ساتھ ہو گیا، جب دوقبیلے آپس میں لڑتے تھے تو ہر ایک کا ساتھی اورہم قسم قبیلہ
اپنے ساتھیوں کی امداد کرتا تھا، جب لڑائی ختم ہو جاتی تھی تو یہودی مغلوب قبیلے
کے یہودیوں کو فدیہ دے کر آزاد کرا لیتے تھے اوراس معاملہ میں تورات کی اتباع کو
نہیں چھوڑتے تھے ادھر اَوس اورخزرج کے دونوں قبیلے مشرک تھے حالانکہ تورات میں ان
سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ آپس میں خونریزی بھی نہ کرنا، ایک دوسرے کو جلاوطن بھی
نہ کرنا اوراگر کوئی ان میں سے اسیر ہو جائے تو فدیہ ادا کرکے اسے آزاد بھی
کرالینا پس یہودیوں نے ایک حصہ پر عمل نہ کیا یعنی ایک دوسرے کے قتل اورجلاوطنی سے
باز نہ آئے لیکن دوسرے حصہ پر عمل کیا کہ جو یہودی قید ہوتے تھے ان کو فدیہ ادا
کرکے چھڑا لیتے تھے پس ان آیات میں ان کی مذمت کی گئی ہے کہ تورات کے ایک حصہ پر
ایمان رکھتے ہو اوردوسرے حصہ پر ایمان نہیں رکھتے حالانکہ دونوں حکم واجب الاتباع
ہیں-
خِزْیٌ فِی الْحیٰوةِ الدُّنْیا: دنیا کی رسوائی سے
مراد اُن سے جزیہ لینا ہے اوربعض کہتے ہیں کہ ان کی رسوائی یہ تھی کہ بنی نضیر کو
مدینہ سے نکال دیا گیا اوربنی قریظہ کو قتل کردیا گیا اوران کے بچوں کو قید کرلیا
گیا-
یہودیوں پر تورات میں ایک
دوسرے کا جلاوطن کرنا حرام تھا اورقرآن میں اس حکم کا مذکور ہونا اور یہودیوں کی
مذمت کرنا بتلاتا ہے کہ مسلمانوں پر بھی یہی حکم عائد ہو تا ہے، اسی بنا پر تفسیر
علی بن ابراہیم سے منقول ہے کہ اس کی تاویل حضرت ابوذر غفاری سے متعلق ہے[1] جن کومدینہ سے مسلمانوں کےحاکم نے جلاوطن کر کے
ربذہ بھیج دیا تھا، چنانچہ وہیں اُن کا
انتقال ہوا اوردفن بھی وہیں ہوئے-
تفسیر برہان میں حضرت امام
حسن عسکری سے منقول ہے کہ جناب رسالتمآبﷺ نے اس آیت کے نزول کے بعد جب یہودیوں کے حالات سے خبر دی تو پھر فرمایا کہ
میں اس امت میں سے تم کو ان لوگوں کا پتہ دوں جن کے افعال ان یہودیوں کے مشابہ ہوں
گے؟ صحابہ نے عرض کیا ہاں یارسول اللہ، آپؐ نے فرمایاکہ میری اُمت سے ایسے لوگ ہوں
گے جو میری اُمت کہلائیں گے اورمیری ذرّیت کے فاضلوں کو اورمیری نسل کے پاکیزہ
افراد کو قتل کریں گے اورمیری سنت وشریعت کو تبدیل کردیں گے، میرے شہزادوں امام
حسن اورامام حسین کو شہید کریں گے، جس طرح اُن یہودیوں
کے اَسلاف نے حضرت زکریا
اورحضرت یحیی
کو قتل کیا تھا، اِن پر بھی خدا کی لعنت ہو گی جس طرح اُن پر خداکی لعنت
ہے-
ان کی بقیہ اولادوں پر قیامت سے پہلے خداوند
کریم حسین مظلوم کی اولاد سے ہادی و مہدیکو بھیجے گا جو اپنےدوستوں کی تلواروں سے انہیں موت کے گھا
ٹ اتار کران کو واصل جہنم کرے گا، آگاہ رہو حسین اوراس کے محبّوں اورمدد گاروں کے
قاتلین پر اللہ کی لعنت ہے اورجو بلاتقیہ ان پر لعنت نہ کرے اس پر بھی خداکی لعنت
ہے-
اوراللہ کی رحمت ہو گی حسین
بن علی کے رونے والوں پر اوراُن پر جواُن کے قاتلوں پر لعنت بھیجیں اوراُن پر غیظ
وغصہ میں رہیں، آگاہ رہو جو قاتلین حسین
پر راضی ہو گا اُس کا شمار قاتلین میں سے ہو گا، نیز حسین کے قاتل اورقاتلین کے مدد گار اوردوست اور اُن
کے مقتدی یہ سب اللہ کے دین سے بیزار ہیں-
خداوند کریم ملائکہ مقربین کو حکم فرمائے گا کہ
حسین
کی شہادت پر رونے والوں کے آنسوکو اُٹھا کر خازنِ جنت کے حوالے کردیں پھر
وہ ا ن کو آب حیات سے ملا دیں گے جس سے اس
کی شیرینی اور پاکیزگی ہزار گنا زیادہ ہو جا ئے گی (یہ رونے والوں کو انعام میں
نصیب ہو گا) اور حسین کے قتل پر خو ش ہونے والوں کے آنسو
ملا ئکہ اٹھا کر ہاویہ میں اس کے حمیم، صدید، غساق و غسلین سے ملائیں گے جس سے اس
کی گرمی کی شدت ہو گی اور عذاب کی زیادتی ہزار گنا بڑھ جائے گی اور وہی اَعدائے آ
لِ محمدکی باز گشت ہو گی-[2]