اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَةٍ وَّ
ھِیَ خَاوِیَة عَلٰی عُرُوْشِھَا قَالَ اَنّٰی یُحْی ھٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ
مَوْتِھَا فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہ قَالَ کُمْ لَبِثْتَ
قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ
فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ وَانْظُرْ اِلٰی
حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ
نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَکْسُوْھَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہ قَالَ اَعَلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ
شَیْئٍ قَدِیْر ( 259)
ترجمہ:
یا مثل اس کے جو گزرا ایک بستی سے اور وہ
اپنی چھتوں پر گری ہوئی تھی (دل میں) کہا کیسے زندہ کرے گا ان کو خدا موت کے بعد؟
پس خدا نے اس کو مار دیا ایک سو برس پھر اس کو اٹھایا فرمایا کہ تو کس قدر سویا
ہے؟ عرض کیا کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ سویا ہوں فرمایا بلکہ تو تو ایک سال سو
چکا ہے پس دیکھ اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کی طرف کہ وہ متغیر نہیں ہوئیں اور
دیکھ اپنے گدھے کی طرف اور تاکہ تجھے لوگوں کے لئے ہم نشانی بنائیں اور دیکھ طرف
ان کی ہڈیوں کے کہ کس طرح ہم ان کو جوڑتے ہیں پھر ان کو گوشت پہناتے ہیں پس جب بات
واضح ہو گئی تو کہنے لگے میں جانتا ہوں تحقیق اللہ ہر شئے پر قادر ہےo
موت کے
بعد زندگی
اَوْ کَالَّذِیْ: حضرت امام جعفر صادقؑ سے
مر وی ہے کہ وہ عزیر ؑ تھے اور حضرت امیر المو منین ؑ سے بھی ایسا ہی منقول ہے
لیکن امام باقرؑ سے منقول ہے کہ وہ حضرت ارمیاؑ تھے، پس ان ہر دو روایتوں کی توجیہ
اس طرح ہو سکتی ہے کہ شاید یہ ایک ہی شخص ہو اور اسی کے دو نام ہوں اور یہ بھی
ممکن ہے کہ دو شخص ہوں اور ہر دو کو اس قسم کا واقعہ پیش آیا ہو۔
عَلٰی قَرْیَةٍ: وہ بستی جس کی چھتیں گری
ہوئی تھیں وہ بیت المقدس کا شہر تھا جس کو بخت نصر نے خراب کیا تھا۔
قَالَ اَنّٰی یُحْی: حضرت عزیر ؑ یا ارمیاؑ
کا کہنا کہ خدا ان کو کیسے زندہ کرے گا یہ بطور تعجب یا انکار کے نہیں تھا کیونکہ
نبی کو ان چیزوں پر شک نہیں ہوا کرتا اور ان کا ایمان کامل ہوا کرتا ہے نبی تو نبی
بلکہ اگر کوئی عام مومن بھی خدا کے زندہ کرنے پر شک یا انکار کرے تو صف اسلام سے
خارج ہو جائے گاپس ان کا یہ کہنا صرف اس لیے تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ خدا وند کریم
ان کو دوبارہ زندہ کرے گاگویا انہوں نے اپنی درخواست کا اظہار ان لفظوں میں کیا۔