مقروض تنگدست کو مہلت دینا
اس کے متعلق تفسیر برہان میں کافی روایات
درج ہیں چند ایک کا ذکر کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں:
(۱) جناب رسالتمآب ایک روز
منبر پر تشریف لائے حمد و ثنا پروردگار اور درود بر انبیائے اطہار کے بعد فرمایا:
ایھا الناس! تم میں سے جو حاضر مجلس ہیں ان
کو چاہیے کہ غیر موجود لوگوں کے کانوں تک میرا یہ پیغام پہنچادیں کہ جو شخص کسی
تنگدست مقروض کو مہلت دے گا تو خدا کے نزدیک اس کا وہ روپیہ ہر روز کا صدقہ اور
خیرات شمار ہو گا
(۲) امام جعفر صادقؑ سے
مروی ہے کہ جناب رسالتمآب نے فرمایا جو شخص بروز محشر عرش خدا کے سایہ کا امید وار
ہو کہ جس دن اور کوئی سایہ نہ ہو گا اس کو چاہیے کہ تنگدست کو مہلت دے اور اس پر
سے اپنا حق اٹھا لے
(۳) امام محمد باقر علیہ
السلام سے مروی ہے کہ جناب رسالتمآب نے فرمایا جو شخص جہنم کے تیز شعلوں سے بچنا
چاہے اسے چاہیے کہ تندست کو مہلت دے (الخبر)
(۴) امام محمد باقر علیہ
السلام سے منقول ہے کہ بروزمحشر خدا وند عالم چند لوگوں کو زیر عرش جگہ کر امت
فرمائے گا کہ ان کے چہروں سے نور ساطع ہو گا نوارنی لباس سے آراستہ ہو کر نور کی
کرسیوں پر وہ جلوہ گر ہوں گے، پس باقی مخلوق ان کی کرامت و عزت کو دیکھ کر عرض کرے
گی کہ کیا یہ لوگ نبی ہیں؟ تو زیر عرش سے منادی ندا کرے گا کہ یہ نبی نہیں ہیں پھر
پوچھا جائے گا کہ کیا یہ لوگ شہداہیں؟ منادی کی طرف سے جواب ملے گا کہ یہ شہدابھی
نہیں ہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیامیں مومنوں کو خوشحال کیا تھا یا تنگدست
مومنوں کو خوش حالی تک کی مہلت دی تھی
مسئلہ تنگدست
انسان کو مہلت دینا واجب ہے اورتنگدستی کی حد یہ ہے کہ اپنے اوربال بچوں کے درمیان
گزر اوقات سے اس کے پاس زائد مال نہ ہو کہ وہ اس کو قرضہ میں ادا کرے اورمقروض پر
واجب ہے کہ اگر اس کے پاس مال موجود ہو اورقرضہ کی میعاد آجائے تو اوّلین فرصت میں
اپنے قرضہ سے سبکدوش ہونے کی کوشش کرے اورخواہ مخواہ قرض خواہ کو باربار کے مطالبہ
کی زحمت نہ دے۔
تفسیر مجمع البیان میں ابن عباس سے مروی ہے
کہ قرآن مجید کی آیات میں سے سب سے آخر نازل ہونے والی آیات یہی ہیں جن میں سود کا
حکم بیان کیا گیا ہے اورتفسیر برہان میںہے کہ سود کی آیات کے بعد سب قرآن کے آخر
میں یہ آیت اتری وَاتَّقُوْا یَوْمًا اس آیت مجیدہ کے نزول کے بعد جناب رسالتمآب
کل اکیس 21دن زندہ رہے۔