التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

انوارِ علمیہ

انوارِ علمیہ
انوارِ علمیہ
(۱)   مِلک اور مُلک دو جدالفظیں ہیں اور ان کے معانی الگ الگ ہیں صاحب مِلک کو مالک کہا جاتا ہے اور صاحب مُلک کو مَلِک کہا جاتا ہے اس آیت میں مالک کو مُلک کی طرف مضاف کر کے اس مطلب کو واضح کیا گیا کہ موجودات عالم کی مِلک اور مُلک ہر دو در حقیقت اللہ کے قبضہ میں ہیں اور تمام مخلوق کی مِلک یا مُلک اسی کا عطیہ ہے جس کو وہ کسی شےکی مِلک عنایت فرماتا ہے وہ اس چیز کا مالک ہوتا ہے اور جس کو وہ مُلک عطا کرتا ہے وہ اس کا مَلِک (بادشاہ) ہوتا ہے
(۲)   خَیْر صفت مشبہ ہے اس کا اصل معنی ہے انتخاب پس اسی شئے کو خیر کہا جاتا ہے جسے اس کے مقابل کی چیزوں سے منتخب کیا جائے، بعض نے اس کو صیغہافعل التفضیل قرار دیا ہے اور ا س کی اصل اَخْیَر بیان کی ہے حالانکہ بالکل اشتباہ اور بے سود تکلّف ہے کیونکہ چند اشیا یا متعدد معانی میں سے جس کو خیر کہا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نظر انتخاب میں ا س کو باقیوں سے سبقت حاصل ہے اور یہ انتخاب صرف ا س کے مادہ کی دلالت سے ہے نہ کہ صیغہ کی طرف سے اور چونکہ اس کو افضل کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے مثلاً اَفْضَلُ الْقَوْم کی جگہ خَیْرُ الْقَوْمِ کہنا درست ہے پس اسی بناپر اس کو افعل التفضیل قرار دے کر اس کی اصل اَخْیَر تجویز کرنے کا تکلّف کیا گیا ہے حالانکہ چند چیزوں میں سے افضل اس کو کہا جائے گا جس کے مقابل کی چیزوں میں اصل فضیلت موجود ہو اور اس میں بہ نسبت ان کے زیادتی پائی جائے لیکن خیرکے محل استعمال میں یہ چیز ضروری نہیں مثلاً قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْر مِّنَ اللَّھْو (کہہ دو کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ لہو سے بہترہے) یہاں انعاماتِ اُخرویہ کو لہو سے خیر کہا گیا ہے حالانکہ انعاماتِ خداوندی اور لہو میں کوئی قدر مشترک نہیں تاکہ زیادتی صفت کے لحاظ سے انعاماتِ خداوندی کو بر تری حاصل ہو بلکہ یہاں تو صاحبانِ عقل و دانش کو عقلی نظریہ کے ماتحت متنبہ کیا گیا ہے کہ تمہاری نظر انتخاب بجائے لہو و لعب کے نعماتِ اُخروی پر ہونی چاہیے اور یہ خیر کی ذاتی دلالت ہے نہ کہ تفضیل معنی
(۳)   بِیَدِکَ الْخَیْر جار ومجرور کو مقدم کرنے میں حصر کو ظاہر کیا گیا ہے اور اَلْخَیْر پر الف و لام اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ جملہ امور خیر کا فیضان صرف اسی ذات کی طرف سے ہی ہے خواہ تکوینیات سے ہوں یا تشریعیات سے ہوں ملک و عزت کا مرجع واحد وہی ہے اور مالکانِ ملک اور صاحبانِ عزت اسی ذات کے ممنونِ احسان ہیں پس یہ خیر تکوینی ہے اور جملہ عبادات و اعمال صالحہ چونکہ اسی کی توفیق سے ہیں اگرچہ عبد کو ان کی بجا آوری میں اختیار حاصل ہے اور یہ خیر تشریعی ہے پس تمام امور خیر کا حصر اس کی ذات میں صحیح ہے اور موجوداتِ عالم میں صاحبانِ خیر اسی ذات سے مستفیض ہیں اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اس کی ذات سے صرف خیر کا ہی افاضہ ہوتا ہے اور خیر کا عدم چونکہ شرّ ہے اور عدم فاعل کا فعل نہیں ہوا کرتا بلکہ فعل کا عدم ہوا کرتا ہے پس کسی پر خیر کا افاضہ نہ ہونا شرّ ہے اور چونکہ خیر کی نسبت اللہ کی طرف حقیقی ہے لہذا اس کے عدم (شرّ) کو بھی مجازاً اس کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے
(۴)   رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے کا مطلب ظاہراً یہ ہے کہ خط استواسے میل شمس کی کمی و بیشی کی بدولت شب و روز میں جو تفاوت ہوتا ہے اس کی وجہ سے کبھی رات کا حصہ دن میں اور کبھی دن کا ایک حصہ رات میں داخل ہو جاتا ہے مثلاً اعتدال ربیعی میں جب سورج برج حمل میں داخل ہوتا ہے تو اس وقت سورج سیدھا خط استواپر ہوتا ہے اور دن رات تقریباً برابر ہوتے ہیں اس کے بعد سورج خط استواکی طرف مائل ہو جاتا ہے اور رات کا کچھ حصہ روز مرہ دن میں داخل ہو کر رات میں تدریجی طور پر کمی اور دن میں اسی نسبت سے زیادتی پیدا ہو تی جاتی ہے یہاں تک کہ سورج اپنی میل شمالی میں آخری درجہ تک پہنچ جاتا ہے اس کے بعد تدریجاً میل کم ہونا شروع ہوتی ہے جس سے رفتہ رفتہ دن میں کمی اور رات میں زیادتی پیدا ہوتے ہوتے جب سورج دوبارہ خط استواپر پلٹ آتا ہے تو رات دن پھر برابر ہو جاتے ہیں اور وہ زمانہاعتدال خریفی کا ہوتا ہے جبکہ سورج کا داخلہ برج میزان ہوتا ہے، اس کے بعد سورج کی خط استواسے میل جنوبی شروع ہوتی ہے جس کی وجہ سے دن کا کچھ حصہ روز مرہ تدریجاًرات میں داخل ہوتا جاتا ہے پس رفتہ رفتہ دن گھٹتا جاتا ہے اور رات بڑھتی جاتی ہے یہاتک کہ میل جنوبی اپنے آخری درجہ پر پہنچتی ہے اور اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ نقطہ اعتدال ربیعی کی طرف رجو ع ہوتا ہے پس تقریبا چھ مہینے رات کا کچھ حصہ دن میں داخل ہوتا ہے اور یہ ابتدائے موسم گرما سے لے کر ابتدا ئے موسم سرماتک ہے اور تقریبا چھ مہینے دن کا کچھ حصہ رات میں داخل رہتا ہے اور یہ ابتدائے موسم سرما سے لے کر ابتدائے موسم گرماتک کا زمانہ ہے اور سال بھر میں صرف دو دن تقریبا رات اور دن اپنی اپنی حدود کے اندر رہتے ہیں اور وہ ایک دن جبکہ سورج اعتدال ربیعی میں خط استواپر آتا ہے اور دوسرا دن تقریباًجب کہ سورج اعتدال خریفی میں خط استواپر ہو تا ہے
(۵)   مردوں کو زندوں سے اور زندوں کو مردوں سے نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ مومن سے کافر اور کافر سے مومن پیدا کرتا ہے اور ممکن ہے کہ یہاں تعمیم مراد ہو تاکہ انسان و حیوان کا نطفہ سے اور نباتات کا مٹی سے پیدا ہونا اور پھر خروجِ روح کے بعد ان کا خاکستر ہو کر حالت مردنی سے ہم آغوش ہونا بھی اس میں داخل ہو جائے
(۶)   دونوں آتیوں میں تقابل کی جو لطیف صنعت پیش کی گئی ہے وہ اسی کلام بلاغت نظام کا ہی حصہ ہے، پہلی آیت میں مُلک عطا کرنے اور مُلک لے لینے کے مقابلہ میں دوسری آیت میں رات کو دن میں داخل کرنا اور دن کو رات میں داخل کرنا مذکور ہے کیونکہ مُلک عطا کرنے کا مطلب ہے کہ بعض افراد کو بعض پر حق تصرف دیا گیا ہے اور اس کی منا سبت رات کو دن میں داخل کرنے کے ساتھ ہے وہاں بھی نور کو ظلمت پر تصرف شاہانہ حاصل ہے اور مُلک کے زائل ہونے کو دن کے رات میں داخل ہونے سے مناسب ہے یعنی دن کا رات پر غالب آنا حکومت سے اور رات کا دن پر چھاجانا زوال حکومت سے موزوں و مناسب ہے اسی طرح پہلی آیت میں عزت وذلت کا مقابلہ دوسری آیت کے زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے سے کیا گیا ہے کیونکہ ذلت کے بعد عزت موت کے بعد زندگی سے اور عزت کے بعدذلت زندگی کے بعد موت سے مشابہ ہے نیز پہلی آیت کے آخر میں عطائے ملک و عزت کو خیر سے تعبیر کیا گیا اور دوسری آیت کے آخر میں اس کو رزق کہا گیا کیونکہ اللہ کی طرف سے جو کچھ عطا ہو وہ خیر بھی ہوتا ہے اور رزق بھی
(۷)   پہلی آیت میں مُلک و عزت کے عطا کرنے کا ذکر تھا لہذا اس کو اپنی قدرت کے محیط ہونے کے ذکر سے ختم کیا اور دوسری آیت میں چونکہ اپنی عطا و بخشش کو رزق سے تعبیر فرمایا لہذا اس کے بعد بِغَیْرِ حِسَاب فرمادیا جو وسعت رزق پر دلالت کرتا ہے اور یہاں حساب کا معنی عوض ہے نہ کہ اندازہ یعنی خداکا رزق بلا معاوضہ ہے کیونکہ کائنات کی ہر شئے جب اس کی ملکیت اور اسی کا عطا کردہ رزق ہے تو جس چیز کو عوض قرار دیا جائے گا وہ بھی بعینہ اس کا رزق ہو گا پھر عوض کیسے بن سکے گا؟ اور یہ کہنا کہ خدا رزق بلا اندازہ اور بغیر مقدار کے دیتا ہے دوسری قرآنی آیات کے خلاف ہے؟

ایک تبصرہ شائع کریں