اَلَّذِیْنَ
یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً
فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ
وَلا خَوْف عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ (274) اَلَّذِیْنِ
یَاْکُلُونَ الرِّبٰوا لا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ
یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا
الْبَیْعُ مِثْلُ وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواط فَمَنْ جَآئَ
ہُ مَوْعِظَة مِّن رَّبِّہ فَانْتَہٰی فَلَہمَاسَلَفَ وَاَمْرُہاِلَی اللّٰہِ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ
ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ (275)
ترجمہ:
وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال رات اور دن
کو خفیہ اور ظاہر (راہِ خدا میں) پس ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے نہ ان پر کوئی
خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گےo جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ زندگی نہیں بسر کرتے مگر
مثل زندگی بسر کرنے اس شخص کے جس کو بدحواس کر دے شیطان بوجہ مس کرنے کے یہ اس لئے
کہ وہ کہتے ہیں بیع بھی تو مثل سود کے حالانکہ حلال کیا ہے خدا نے بیع کو اور حرام
کیا سود کو پس جس کے پاس آجائے نصیحت اپنے ربّ سے پس وہ رک جائے تو اس کے لئے
(معاف) ہے جو ہو چکا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو پھر ایسا کرے تو وہ
دوزخی ہوں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گےo
تفسیر
رکوع ۶
سود کھانے کا گناہ اورچند مسائل
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ: تفسیر برہان میں
کتب فریقین سے منقول ہے کہ یہ آیہ مجیدہ حضرت امیرالمومنین ؑ کے شان میں اُتر ی آپ
ؑ کے پاس چار درہم تھے اوران کو راہِ خدمیں صدقہ دیا ایک رات میں ایک دن میں ایک
پوشیدہ طور پر اورایک اعلانیہ طور پر تب یہ آیت اُتری۔
اَلَّذِیْنَ یَاکُلُوْنَ الرِّبٰوا: منقول
ہے کہ سود خوار بروزقیامت جب کھڑے ہوں گے تو ان کی حالت باولے اوردیوانے انسان کی
سی ہو گی جس سے تمام اہل محشر ان کو پہچان لیں گے اورجولوگ سود کو حلال جانتے ہیں
وہ سود کو خرید وفروخت (تجارت ) پر قیاس کرتے ہیں اورکہتے ہیں تجارت میں بھی نفع
لیا جاتا ہے اوروہ حلال ہے اورسود میں بھی وہی نفع ہے لہذا یہ بھی حلال ہونا چاہیے
تو خداوند کریم اس آیت میں ان کے قول کی تردید فرماتاہے کہ ان کا قیاس غلط ہے
کیونکہ تجارت حلال ہے اور سود حرام ہے بلکہ یہ ان کی کمال کی حماقت ہے، گویا سود
خواری نے ان کی عقلوں پر پردہ ڈال کر ان کو اس قدر بد حواس کر دیا کہ وہ بیع اور
سود فرق و امتیاز بھی نہیں کر سکتے پس ان کی زندگی بدحواسی اور پاگل پنے کی زندگی
ہے۔
فَمَنْ جَائَ ہُ مَوْعِظَة: یعنی جو شخص ایک
عرصہ تک سود کھاتا رہا ہو اور اس کو اس کے حرام ہونے کا علم تک نہ ہو لیکن حرام
ہونے کا علم ہو جانے کے بعد گزشتہ سے تو بہ کر کے آئندہ اس کو بالکل ترک کر دے تو
اس کی توبہ مقبول ہے لیکن معلوم ہونے کے بعد بھی جو ڈٹا رہے تو وہ دائمی طور پر
جہنم کا مستحق ہو گا۔
مسئلہ جو
شخص باوجودیکہ اس کو علم ہو لیکن ایک عرصہ تک وہ سود کھاتا رہے اور اس کے بعد وہ
توبہ کرنا چاہے تو اس پر واجب ہے کہ سابق جس قدر حرام کھا چکا ہے اس سے سبکدوش
ہونے کی کوشش کرے یعنی جن جن لوگوں سے جس قدر کھا چکا ہے ان کو ان کا حق واپس کرے
یا ان سے معافی مانگے اور اگر وہ مر چکے ہوں یا زندہ ہوں لیکن اس کو یاد نہ رہے
ہوں یا بعض معلوم ہوں اور بعض کا پتہ نہ ہو تو ان صورتوں میں جس حد تک مالک یا ان
کے وارث معلوم ہیں ان کو اپنا حق واپس کرے یا ان سے معافی حاصل کرے اور جو نامعلوم
ہیںتو جس قدر ان کا حق معلوم ہو وہ ان کی طرف سے صدقہ کر دے اور اگر نہ مالک معلوم
ہیں اور نہ ان کا حق صحیح طور پر معلوم ہے کہ کس قدر ہے؟ تو اس صورت میں اپنے سارے
مال کا خمس ادا کرے انشاءاللہ باقی اس کےلئے حلال ہو گا اور اگر یہ معلوم ہو کہ
فلاں سے سود لیاتھا لیکن یہ معلوم نہ ہو وہ کس قدر تھا؟ اس صورت میں اس کے ساتھ
مصالحانہ فیصلہ کر کے اس کر رضا مند کرے۔
مسئلہ جس
شخص کو سود کی حرمت کا حکم معلوم نہ ہو اور کھاتا رہے تو علم ہو جانے کے بعد جس
قدر کھا پی چکا ہے وہ معاف ہے اور جس قدر مال سود اس کے پاس موجود ہے وہ اپنے
مالکوں کو واپس کرے اور اس کی باقی شِقّوں کا حکم وہی ہے جو پہلے مسئلہ میں گزر
چکا ہے۔
مسئلہ سود
کی دو قسمیں ہیں ایک تجارت میں اور دوسرا قرضہ میں یہ دونوں قسمیں حرام ہےں۔
مسئلہ کسی
شخص کو ایک مدت تک کے لئے قرض دے کر اس سے زیادہ کی کچھ شرط کرنا مثلاً پانچ فیصد
ی یا دس فیصدی و غیر ہ سود ہے اور گناہ کبیرہ ہے۔
مسئلہ بینک
میں جو پیسہ جمع کر دیا جاتا ہے اور بینک والے اپنے دستور کے مطابق جمع کرانے والے
کو کچھ معین منافعہ ادا کرتے ہیں اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ:
اولاً اس پر قرض کا عنوان بھی صادق نہیں آتا بلکہ
پیسہ کی حفاظت کے لئے ایسا کیا جاتا ہے
ثانیاً جو
کچھ بینک والے زیادہ ادا کرتے ہیں وہ اپنی مرضی سے دیتے ہیں ورنہ پیسہ جمع کرنے
والے کی طرف سے یہ شرط نہیں ہوا کرتی
ثالثاً بینک
میں جمع شدہ رقوم کو تجارت وغیرہ پر لگایا جاتا ہے جس کے منافعہ کی معین مقدار
مالکوں کو ادا کی جاتی ہے لہذا اس پر ربا کا صادق آنا مشکل ہے واللہ اعلم
مسئلہ تجارت
کا سود ان اجناس میں ثابت ہے جن کی خرید و فروخت وزن سے ہو (جیسے سیرومن وغیرہ) یا
پیمانہ سے ہو (جیسے ہمارے ہاں ٹوپہ،پڑوپی وغیرہ مروّج ہے) چنانچہ بروایت زرارہ
امام جعفر صادقؑ سے منقول کہ سود صرف وزن اور پیمانہ کی چیزوں میں ہے اور بس۔
مسئلہ مذکورہ
اجناس(جوناپ یاوزن کے تحت ہوں) ان میںسے ہر جنس دوسری جنس سے اگر فروخت کی جاے
مثلاً گندم نخوذکے بدلے ےاکھجور انگور کے بدلے توکمی ےا بیشی میں کوئی ہرج نہیں،
لیکن ایک جنس کاسودا اسی جنس سے ہو مثلاگندم گندم کے بدلے،ےا کھجورکھجور کے بدلے و
علی ہذا القیاس تو اس صورت میں برابر برابر لینا اور دینا واجب ہے خواہ دونوں
اعلیٰ جنسیں ہوں یا دونوں ادنیٰ ہوں یا ایک اعلیٰ ہو اور دوسری ادنیٰ ، اگر عمدہ
گندم کے بدلہ میں ردّی گندم زیادہ لے یا اعلیٰ کھجور کے بدلہ میں ادنیٰ کھجور
زیادہ وصول کرے تو یہ سود ہے اور حرام ہے۔
مسئلہ
تجارت میں گندم اور جو کو ایک جنس قرار دیا گیا ہے لہذا گندم اور جو کی آپس میں
خرید و فروخت ہو تو برابر برابر لینا دینا واجب ہے اور گندم کم دے کر جو زیادہ
لینا یا جو کم دے کر گندم زیادہ لینا سود ہے۔
مسئلہ
ایک جنس سے حاصل شدہ چیز اسی جنس کے حکم میں ہے لہذا باہمی سودا میں کمی و بیشی
ناجائز ہے مثلاً گندم کا آٹا گندم کے بدلے میں برابر برابرلے دے سکتے ہیں اسی طرح
ایک جنس کا دودھ اور اسی جنس کے دودھ سے حاصل شدہ چیزیں مکھن گھی وغیرہ ایک ہی جنس
کے حکم میں ہیں خرید و فروخت میں ان کا تبادلہ برابر ہو گا زیادتی سود ہوگی وعلیٰ
ہذا القیاس۔
مسئلہ
سونے کا سونے سے تبادلہ اسی طرح چاندی چاندی کے بدلے میں برابر برابر لینا واجب ہے
خواہ ایک سونا بیش قیمت اور دوسرا کم قیمت ہی ہو، اسی طرح چاندی بھی خواہ ایک عمدہ
اور دوسری غیرہ عمدہ ہو کم دے کر زیادہ لینا سود ہے۔
مسئلہ
یہ چیزیں جن پر سود صادق ہے ا س میں فرق نہیں کہ سود نقد ہو یا ادھار ہر دو صورت
میں زیادتی سود شمار ہو گی۔
مسئلہ
احادیث میں وارد ہے کہ جو شخص تجارت کرنا چاہے اس کو چاہیے کہ وہ تجارت کے مسائل
معلوم کرے ورنہ بعید نہیں کہ وہ سود میں مبتلا ہو جائے۔