سورہ فاتحہ کے اسمااوروجہ تسمیہ
فَاتِحَہ: اس سورہ کو ”فَاتِحَہ“
اس لئے کہتے ہیں کہ تمام قرآنی سورتوں سے یہ پہلے ہے اوراس کی تفصیل بیان کی جاچکی
ہے -
اُ مُّ
الکِتَاب: سورہ فاتحہ کا نا م ” اُ
مُّ الکِتَاب“ ہونا بھی اسی بات کی دلیل ہے کہ قرآن کے جملہ مضامین
کی یہ اصل ہے کیونکہ
اُمّ کا معنی ماں ہے اورماں اولاد کے لئے اصل اوراولاد اس کی فرع
ہوتی ہے اوراصل کا فرع سے مقدم ہونا ضروری ہے-
اَلاسَاس:اس سورہ کا نام ”الاسَاس“
بھی گزشتہ بیان کا مویّد ہے کیونکہ اساس کا معنی بنیاد ہوتاہے گویاسورہ فاتحہ
بنیاد ہے پورے قرآن کی، لہذا اس کا مقدم ہونا لازمی ہے اورترتیب آیات سورہ فاتحہ
کے عنوان میں اس بیان کی مزیدوضاحت آئے گی-
اَلشِّفَاء: سورہ مذکورہ کے فضائل کے بیا ن سے وجہ تسمیہ ”شِفا“
صاف ظاہر ہے -
اَلسَّبْع: چونکہ اس سورہ کی کل آیات سات ہیں اور’’سَبْع“ بھی سات کوکہتے ہیں -
اَلحَمْد: کیونکہ اس میں پروردگارِعالم کی حمد بیان کی گئی ہے-
اَلوَافِیَہ:
کیونکہ ہر نماز میں خواہ واجب ہویا سنت ہو اس سورہ کا پورا پڑھنا ضروری ہے،”وافِیَہ“
کا معنی ہے پوری-
اَلکافِیَہ: اسلئے کہ یہ سورہ نمازِمستحب میں تنہا کا فی ہے اورواجب
نمازمیں بھی بعض مقامات پر تنہا کا فی ہوسکتی ہے اور دوسرا کوئی سورہ نماز میں
تنہا کا فی نہیں ہے -
اَلصَّلٰواة: یہ اسلئے کہ نماز میں اس سورہ کا پڑھنا ضروری ہے، چنانچہ
مشہور حدیث ہے لَا
صَلٰوةَ اِلَّا بِفَاتِحَةِ الکِتٰب یعنی کوئی نماز بغیر سورہ فاتحہ
کے درست نہیں-[1]
اَلمَثاَنِی: اس نا م کے متعددوجوہ بیان کئے گئے ہیں:
● چونکہ ہر نماز میں خواہ فرض ہویا سنت اسے
دودفعہ پڑھنا ضروری ہے اسلئے اس کو”مثانی“
کہتے ہیں-
● یہ سورہ دودفعہ نازل ہوا ایک دفعہ مکہ میں اوردوسری دفعہ مدینہ میں اسلئے اس کو ”مثانی“
کہا گیا-
● یہ سورہ دوحصوں میں منقسم ہے ثنائے خالق
اورسوالِ مخلوق جیسا کہ بعض احادیث میں مذکور ہوا ہے-
اس سورہ کی سات آیتیں ہیں اور ہر آیت دو معانی
رکھتی ہے:
• اسما
وصفاتِ حق تعالیٰ کی دو قسمیں ہیں ایک اس کی عظمت وقدرت پردلالت کرتے ہیں اوردوسرے
اس کی رحمت اورمہربانی کو ظاہر کرتے ہیں اور” بِسْمِ
اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم“ میں دونوں پائے جاتے ہیں-
• شکر کی دو قسمیں ہیں ایک ذات و صفات
پر اور دوسرے احسانات و انعامات پر اور” اَلحَمدُ
لِلّٰہ “میں دونوں شکر کی قسمیں موجود ہیں -
• رحمت کی قسمیں دو ہیں ایک دنیا میں،
ایک قیامت میں اور” اَلرَّحمٰنِ
الرَّحِیم “میں دونوں موجود ہیں-
• بدلہ و جزا دو چیزوں (نیکیوں اور
برائیوں ) کے مقابلہ میں ہوتا ہے”مَالِکِ
یَومِ الدِّین “میں دونوں آتے ہیں-
• اطاعت کی دو قسمیں ہیں عبادت و
عبودیت” اِیَّاکَ
نَعَبُدُ “میں دونوں پائی جاتی ہیں-
• طلب مدد دو چیزوں کے لئے ہوتی ہے
اچھی چیز حاصل کرنے کے لئے اور بُری چیز کو روکنے کے لئے اور” اِیَّاکَ
نَستَعِین“ دونوں معنوں کو شامل ہے-
• ہدایت دومقام کے لئے ہے ایک معرفت
اور دوسرے اطاعت” اِھدِنَا
“سے دونوں مراد ہیں-
• گمراہی دوقسم کی ہے ایک اہل کتاب کی اور دوسری
مشرکین وغیرہ کی اور آخر ِسورہ میں دونوں کا بیان ہے-
ان کے علاوہ اس سورہ کو ”المثانی“
کہنے کے اور وجوہ بھی بیان ہوئے ہیں جن کا ذکر غیر ضروری ہے-
[1] مستدرک الوسائل محدث نوریج ۴ ص ۱۵۸،صحیح
بخاری كتاب الاذان باب وجوب القراة الإمام والماموم رقم ۷۵۶، صحیح مسلم كتاب الصلاة باب وجوب قراة الفاتحة في كل ركعة رقم ۳۹۴