تفسیر رکوع ۹
وَإِذْ
قَتَلْتُمْ نَفْساً فَادّٰرَءْتُمْ فِيْهَا وَاللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ
تَكْتُمُوْنَ2)7( فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا كَذَلِكَ يُحْیِ اللّٰهُ
الْمَوْتٰى وَيُرِيْكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ 3)7( ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن مبَعْدِ
ذٰلِكَ فَهِیَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَ إِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ
لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ
فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ وَ إِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ
وَمَااللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّاتَعْمَلُونَ 4)7(أَفَتَطْمَعُوْنَ
أَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ
اللّٰهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن مبَعْدِ
مَا عَقَلُوْهُ وَ
هُمْ
يَعْلَمُوْنَ 5)7(وَإِذَا لَقُوْا الَّذِيْنَ
آمَنُوْا قَالُوْآ اٰمَنَّا وَإِذَاخَلَابَعْضُهُمْ إِلٰى بَعْضٍ قَالُوآ
أَتُحَدِّثُوْنَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَآجُّوْكُمْ بِهِ
عِنْدَ رَبِّكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 6)7(
ترجمہ:
اور جب قتل کیا تم نے ایک شخص کو پس جھگڑا کیا تم نے
اس میں اوراللہ ظاہر کرنے والا ہے جسکو تم چھپاتے ہو2)7( پس کہا ہم نے مارو اس مقتول کو بعض
حصہ گائے کا اسی طرح خدا زندہ کرتا ہے مردوں کو اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے
تاکہ تم سمجھو3)7( پھر سخت ہو گئے تمہارے دل
اسکے بعد پس وہ پتھر جیسے )یا اس سے بھی( سخت تر ہو گئے اور تحقیق بعض پتھر ایسے کہ البتہ
بہتی ہیں ان سے نہریں اور تحقیق بعض ان میں سے شق ہوتے ہیں پس نکلتا ہے ان میں سے
پانی اور تحقیق بعض گر پڑتے ہیں ان میں سے
اللہ کے ڈر سے اور نہیں خدا غافل تمہارے اعمال سے4)7( کیا پس تم(اے مسلمانو)طمع کرتے ہو کہ
وہ ایمان لائیں تمہارے ساتھ حالانکہ تھا ایک فریق ان میں سے سنتے تھے اللہ کا کلام
پھر اس کی تحریف کرتے تھے بعد سمجھ لینے کے حالانکہ وہ جانتے تھے 5)7(اورجب وہ ملتے ہیں مومنوں سے تو کہتے ہیں کہ ہم
ایمان لائے اورجب تنہاہو تا ہے ان کا بعض طرف بعض کے تو کہتے ہیں کہ کیا تم بتاتے
ہو ان کو وہ چیز جو جتلائی اللہ نے تم کو تاکہ وہ مسلمان حجت پکڑیں تم پر اسکی تمہارے ربّ کے سامنے کیا تم سمجھتے نہیں ہو 6)7(
تفسیر
رکوع ۹
وَ اِذْ قَتَلتُم: اعتراض: سوال پیدا ہوتا ہے کہ
یہ آیت معنی کے اعتبار سے پہلے ہے کیونکہ قتل کا واقعہ پہلے تھا اور گائے کے ذبح
کر نے کا حکم بعد میں ہوا تھا لہذا س آیت کو پہلے ذکر ہونا چاہیے تھا؟
جواب)۱(: یہ ضروی نہیں کہ جامع قرآن نے آیاتِ قرآنیہ کو ترتیب نزول
کے ماتحت جمع کیا ہو کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سی آیات جو نزول میں پہلے تھیں
موجودہ ترتیب میں موخّر ہیں اور جو آیات
نزول میں موخّر تھیں موجوہ ترتیب میں وہ پہلے ہیں-
جواب)۲(:یہاں ترتیب وار قصہ بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ بنی اسرائیل پر اِتمام حجت کے طور پر نعمات کا ذکر ہے اور اُن کی
ناقدر شناسی کا بیان ہے تاکہ موجودہ دَور کے یہودی درسِ عبرت حاصل کریں-
جواب)۳(: اگر قصہ ہی سمجھا جائے تو مقصود اس سے گائے کے ذبح کا حکم
اور بنی اسرئیل کے سوال و جواب کے بعدان کے ذبح پر آمادہ ہونے کا بیان تھا-
سوال: اب یہاں پہنچ کر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس گائے کو ذبح کرنے کا حکم کیوں ہوا تھا اور اس میں اہمیت کیا تھی؟
جواب: تو اس کا جواب دیا گیا کہ چونکہ اُنہوں نے ایک آدمی کوقتل
کر دیا تھا اور ان کے باہمی نظام کو ختم کرنے کے لیے خدانے ان کو گائے کے ذبح کرنے
کا حکم دیا تاکہ اس کا بعض حصہ اس مردہ کو مارا جائے اور وہ خود زندہ ہو کر قاتل
کی نشاندہی کرے-
پس ترتیب آیات میں اس لحاظ
سے کوئی اشکال نہیں اورگائے کی قربانی سے
ان کو تعلیم دینا مقصود تھا کہ ہر امر مشکل کےلئے خداکی بارگاہ میں قربانی سے
مصیبت دور ہو جایا کرتی ہے اورنیز یہ بتلانا مقصود تھا کہ خداجب چاہے اورجس طرح
چاہے مردہ کو زندہ کرنے پر قادر ہے-
فَقُلنَا اضْرِبُو ہُ بِبَعضِھَا الخ: گائے کا بعض حصہ جو مقتول کو مارا گیا پچھلی چوڑی تھی، یا دُم کی ہڈی تھی، یا
زبان تھی، یا کو ئی دوسری ہڈی تھی، یا گوشت کا ٹکڑا تھا، اس میں مفسرین کے اقوال
مختلف ہیں، بعض روایات اہل بیت میں دُم
کی ہڈی مذکور ہے-
قرآن کا یہ واقعہ جناب رسالتمآبﷺ کی نبوت کی واضح دلیل ہے کیونکہ یہ واقعہ ایسا ہے کہ سوائے کتب متقدمہ کے
مطالعہ کے کسی کو کیا معلوم تھا؟ اورآنحضورﷺ ظاہر ی طور پر کسی پڑھے لکھے انسان سے شاگردی کے طور پر کچھ پڑھے نہ تھے
اورنہ قبل بعثت علمائے یہود سے اُٹھ بیٹھ تھی، پس ان کا واقعہ بیان فرمانا
اورعلمائے یہود کا اس واقعہ کی تصدیق کرنا قرآن کی حقّانیت اورجناب رسالتمآبﷺ کی صداقت اورنبوت کی کھلی اورواضح دلیل ہے-
وَاِنَّ مِنَ الحِجَارَةِ: پتھروں سے نہروں کے جاری ہونے سے مراد جس طرح عام پہاڑوں
سے دریا نکلتے ہیں، گویا پتھرسے مراد پہاڑ ہے اوردوسرے پتھر جو شق ہوتے ہیں
اورپانی اُن سے نکلتاہے جس طرح حضرت موسیٰ کے عصا مارنے سے پتھر سے چشمے نکلتے
تھے جو بنی اسرائیل کو سیراب کرتے تھے اورپتھروں کا خوف خدا سے گرنا جیسے وہ پہاڑ
جس پر حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے رویت کا سوال
کیا تھا اورتجلی سے گرِکر ریزہ ریزہ ہو گیاتھا-
یہ انسانی قلوب کی سختی ونرمی کی مثالیں ہیں
اوربنی اسرائیل کے دل گویا اُن پتھروں سے بھی سخت تر تھے اور وہ مثل ان پتھروں یا
پہاڑوں کے تھے جن سے نہ پانی نکلتا ہے اورنہ وہ خوف خداسے گرتے ہیں بنی اسرائیل کو
جب رسالتمآبﷺ نے یہ آیت سنائی تو ان کو گراں معلوم ہوئی-
روایات اہل بیت میں ہے کہ وہ جمع ہو کر حضرت رسالتمآب ﷺکی خدمت میں عرض گزارہوئے کہ تیری نبوت کی تصدیق اگر پہاڑکردے تو ہم مان جائیں
گے، پس حضورﷺ ان کو ساتھ لے کر ایک پہاڑکے قریب آئے تو حضورﷺ نے اس پہاڑ کو مخاطب کیا اے پہا ڑ بِحَقِّ
مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ لطَّیِّبِیْن جن کے نام کی برکت سے حاملین عرش
سے عرش کو بوجھ ہلکا ہو ا اور
بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ لطَّیِّبِیْن جن کے ذریعہ سے حضرت آدم کی توبہ
قبول ہوئی اور
بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ لطَّیِّبِیْن جن کی بدولت حضرت ادریس کو جنت میں
اُٹھا یا گیا تو محمدﷺ کی گواہی دے، پس پہاڑ کا نپا اوراس سے پانی جاری ہوا اوراس سے نداآئی اَشْھَدُ
اَنَّکَ رَسُوْلُ رَبِّ العلَمِیْنَ روایت بہت لمبی ہے جس میں
آنحضورﷺ کے معجزات ِباھرات کا ذکر ہے اورتفسیر برہان میں تفصیل ہے
مذکور ہے-[1]
وَقَدْ کَانَ فَرِیْقٌ: اس سے مراد وہ
گروہ ہے جو حضرت موسیٰ کے ساتھ کوہِ طور پر اللہ کا کلام
سننے کے لئے گیا تھا لیکن واپس آکر بجائے حضرت موسیٰ اورتوارت کی تصدیق کے قوم کے سامنے
دوسری تاویلیں کر کے انکاری ہو گیا تھا-
یا یہ کہ تورات میں جو حضرت
رسالتمآبﷺ کی پیشین گوئیاں موجود ہیں ان کو سنتے تھے اوران کی تحریف
کردیتے تھے کہ عوامِ یہود دھوکے میں رہیں-
وَاِذَا لَقُوْا الَّذِیْنَ :خالص مومنوں سے اُن علمائے یہود کی جب ملاقات ہوئی تھی جیسے
سلمان، مقداد توان کو کہتے تھے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں لیکن جب آپس میں تنہابیٹھتے
تھے تو ایک دوسرے کو سمجھاتے تھے کہ تورات میں جو حضرت محمد مصطفیﷺ کے متعلق پیشگوئیاں ہیں وہ ان مومنوں کے سامنے بیان نہ کیا کرو تاکہ قیامت کے
روز ہم پر حجت نہ پکڑیں اور اگرکوئی یہودی مسلمانوں کے سامنے کچھ بیان کر بیٹھتا
تھا تو دوسرے اس پر ناراض ہو کر اس کو تنبیہ کرتے تھے کہ تم ان کو ایسی باتیں کیوں
بتلاتے ہو جو صرف تمہاری کتاب میں ہیں اورتمہیں ہی معلوم ہیں؟ ورنہ وہ ہمیں ہماری
کتاب سے لاجواب کردیں گے-