التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

اسلام اور سرمایہ داری

اسلام اور سرمایہ داری
10 min read
اسلام اور سرمایہ داری
اسلام نے سرمایہ داری کی بد ترین انسانیت سوز لعنت کو ختم کرنے کا جس قدر اہتمام فرمایا ہے شاید کسی دین و ملت میں اس کی نظیر نہ مل سکے لہذا اپنی ضرورت سے فالتو رقم کو ذخیرہ کرنے کی جا بجا مذمت فرمائی اور فقراو تنگ دست لوگوں پر خیرات کرنے کی تاکید فرمائی اور لوگوں کو پیسہ خرچ کرنے پر آمادہ کرنے کےلئے مختلف طریقے استعمال کئے کہیں وجوب کا حکم دیا اور کسی مقام پر استحباب و سنت قرار دیا۔
خمس و زکوٰة کے رنگ میں کفارات کے ضمن میں فدیے کی صورت میں صدقات واجبہ و مستحبہ کے طریق پر اوقاف کے ذریعے سے اور وصیت وہبہ یا بخشش و ہدیہ وغیرہ کے لباس میں بہر کیف خرچ کےلئے علیحدہ علیحدہ مدّات قرار دے کر متمول طبقہ کو ذخیرہ اندوزی اور سرمایہ داری سے باز رہنے کی دعوت دی ہے تاکہ مال و دولت انسانوں میں دست بدست چلتی پھرتی رہے اور کہیں ایک جگہ رک نہ جائے اور تمام بنی آدم اس سے کما حقہاستفادہ کر سکیں اور انسانوں کے پست و نادار طبقہ کی زندگی کی سطح مالدار طبقہ کی دست گیری کی بدولت بلند ہو کر اہل ثروت کے برابر نہ سہی تو کم از کم ان سے ملتی جلتی ہو جائے اور جہاں ایک طرف صاحبان ثروت کو نادار لوگوں پر اپنے سرمائے سے خرچ کرنے کے احکام جاری فرمائے وہاں ان کو اسراف و فضول خرچی سے روکتے ہوئے عیش پسندیوں اور ارنگ رلیوں میں پیسہ اُڑانے بلکہ ہر قسم کے فاخرانہ اور متکبرانہ انداز سے باز رہنے کی ان کو تلقین بھی کر دی۔
ایک طرف غربا کی زندگی کی سطح کو صاحبانِ ثروت کی امداد سے بلند کرنا اور دوسری طرف مالداروں کو انتہائی بلند اور چوٹی کی زندگی بسر کرنے عیاشیوں میں پیسہ اُڑانے اور ناز و نعمت کے مسرفانہ مظاہروں سے روک دینا صرف اس لئے ہے کہ انسانی زندگی ایک متوسط سطح پر ہو اور تمام افراد ایک دوسرے کے قریب قریب رہ کر ملتی جلتی زندگی بسر کر سکیں اور کینہ بغض حسد اور اس قسم کی قلبی کدورتوں دماغی کو فتوں ذہنی آفتوں اور ناپاک ارادوں سے نوع انسانی کی گلو خلاصی ہو سکے اور ان کی بجائے یک جہتی یگانگت اور اتحاد و تعاون کا جذبہ کا ر فرما ہو جائے تاکہ انسانی تمدن اپنے فطری تقاضوں اور طبعی حدوں پر جلوہ گر ہو کر عالم کو امن و آرام اور سکون و اطمینان کا گہوارہ بنا دے کیونکہ اسلام کی نظر صرف اصلاحِ آخرت پر محصور نہیں بلکہ وہ انسان کےلئے ایک ایسے لائحہ عمل کی تشکیل کرتا ہے جس سے انسانی زندگی کے دنیاوی و اُخروی ہر دو شعبوں کی اصلاح ہو سکے لہذا قرآن کریم نے اسلام کا جو نظریہ ہمارے سامنے رکھا ہے اس میں دین و دنیا کی خیر و خوبی اور دارِ فانی اور عالم جاودانی ہر دو کی بھلائی و بہبودی کا راز مضمر ہے۔
اسلامی تعلیمات کا مطمع نظر انسان کو صحیح انسانیت سکھانا ہے تاکہ وہ آئے دن کی شورشوں سے محفوظ رہ کر اپنی پاکیزہ زندگی کو اخلاق فاضلہ اور عاداتِ لائقہ سے آراستہ کر سکے اور انسانی عائد شدہ ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے پر پوری طرح موافق ہو جائے تاکہ زمین اللہ کی مال و متاع سب اللہ کا شمار ہو اور تمام مومن بھائی بھائی ہو کر اس میں بسر اوقات کریں اور سیرت نبویہ نے اسی نوعیت کی زندگی کا رواج قائم کیا جو آپ کے حین حیات تک قائم رہ سکا اور آپ کی رحلت کے بعد شہوات و جذبات کے ناخدا ترس ہاتھوں نے فوراً اس کا گلا دبا دیا جس کے متعلق حضرت امیرالمومنین ؑ نے اپنے دردمند دل کے تاثرات کا تاسف و تحیر کے لہجہ میں یوں اظہار فرمایا ہے:
تمہیں وہ زمانہ نصیب ہوا ہے کہ نیکی میں ادبار اور برائی میں اقبال روز بروز بڑھتا جا رہا ہے شیطان لوگوں کی تباہی کی تاک میںہے اور اس زمانے میں وہ طاقت پکڑ چکا ہے اس کی مکاری مقبول عام اور اس کے شکار کا پھندہ ہمہ گیر ہو رہا ہے تم لوگ جس طرف نظر اٹھا کے دیکھو تو کسی فقیر پر نظر پڑے گی جو فقر و فاقہ کی سختیوں میں مبتلا ہو گا ہا مالدار دیکھو گے جو کفرانِ نعمت میں گرفتار ہو گا کہیں بخیل اپنے بخل کو تونگری اور زیادتی مال و دولت کا زریعہ بنا رہا ہے اور کسی جگہ متمرد و سرکش وعظ و نصیحت سے کانوں کو بند کئے ہوئے ہے (نہج البلاغہ)
قرآن کا تمام انسانوں کو متوسط سطح پر لانے کا ہمہ گیر نظریہ حقیقت و صداقت کے ایسے پائیدار اصولوں پر مبنی تھا جن کو کسی دور میں غلط نہیں ثابت کیا جا سکتا اور اس کی مصلحتیں اس کے احکام کی پائیدار اور ٹھوس بنیادیں ہیں جو تا قیامت اپنی استواری کی بنا پر انہدام پذیر نہیں ہو سکتیں۔
انسانوں کے نچلے طبقے کو اوپر لانے اور اوپر کے طبقے کو اسراف سے روک کر سرنگوں رہنے کا پروگرام آمریت و ملوکیت اور اشتراکیت (کمیونزم) شیوعیت (سوشلزم) کے بین بین ایک ایسا ہموار اور آسان راستہ تھا جس پر چل کر تمدن انسانی کبھی ٹھوکریں نہ کھاتا اور مقتضائے انسانیت کبھی پامال نہ ہوتا مغربی تہذیب کا جب سے افق مشرق پر طلوع ہوا ہے حیوانی شہوات بہیمی خواہشات اور نفسی لذات میں انہماک نے انسانیت کو زندہ درگور کر کے رکھ دیا ہے، انسانی دماغ متاع انسانیت انہی لذات کو قرار دے چکا ہے اور ہر ممکن طاقت انہی کی تحصیل پر خرچ کرنا زندگی کی کامیابی سمجھتا ہے جس کے نتیجے میں صاحبانِ دولت و ثروت کے دروازہ پر ہر قسم کے لذایذ نے ڈیرہ جما لیا ہے اور نچلا طبقہ اپنے ہر حرمان کے دامن میں منہ ڈال کر آہِ حسرت و چشم عبرت سے گریہ کناں و نالاں ہے لیکن اوپر کا حلقہ بھی مطمئن نہیں بلکہ حوس و حرص کے شکنجے میں ایسا بری طرح پھنسا ہے کہ ایک دوسرے کو کھانے پر تُلا ہوا ہے اور مادی دنیاوی آرام اور نیک بختی کی زندگی پورے ہفت اقلیم میں چند افراد کے قبضے میںآگئی ہے اور اکثریت صرف انہی چند لوگوں کے رحم و کرم پر زندگی کے سانس پورے کر رہی ہے۔
ان حالات کے پیش نظر اخلاق شریفانہ اور عادات کریمانہ کا جنازہ نکل چکا ہے اور نعمات زندگی کی چاہت میں ہر فرد اس قدر سرگرداں ہے کہ اس کی تحصیل میں اعتدال کا نام و نشاں تک نہیں رہا اوپر کے طبقے کو اپنی ظالمانہ روش محتاطوں کے طغیان سے مطمئن نہیں ہونے دیتی اور نچلا طبقہ ہر وقت استبدادی شکنجے سے جی چرانے کی فکر میں ہے پس دونوں طبقے مزاج کے اعتبار سے ایک دوسرے سے کوسوں دور ہو گئے ہیں اور اندرونی طور پر ایک دوسرے کے سخت ترین دشمن بن چکے ہیں اور بسا اوقات غنی و فقیر کا یہ تصادم امیر و غریب کا یہ تفاوت اور صاحب ثروت و فاقہ مست میں یہ تنافر بڑے سے بڑے فساد کا پیش خیمہ بن جایا کرتا ہے، اور مالدار و غنی طبقے کی بے راہ روی ہی نچلے طبقے میں اشتراکیت و شیوعیت کے انسانیت سوز اور شرمناک نظریے کو جنم دے دیتی ہے اور دور حاضر میں کیمونزم کا یہ ہمہ گیر طوفان اور شیوعیت و اشتراکیت کا جاذب طبع بحران و طغیان اسی ناجائز سرمایہ داری اور غلط ذخیرہ اندازی کا شاخسانہ ہے ورنہ اگر قرآنی اصولوں پر عمل کیا جاتا اور نچلے طبقہ کو بھی کسی حد تک جینے کے حقوق دئیے جاتے تاکہ وہ بھی چند روز زندگی میں اطمینان کا سانس لے سکیں تو یقینا کیمونزم کو اس قدر پروبال پھیلانے کا موقعہ نہ مل سکتا اورشیوعیت کا سیلاب اپنے منبع سے اس حیرت انگیز رفتار کے ساتھ نہ بڑھتا
اسلام نے اغنیا کے مال میں فقراکے حقوق مقرر کر کے اورسود خوری کی لعنت کو ختم کرکے دونوںطبقوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی ہے تاکہ ان میں باہمی انس وتعاون کا جذبہ پیدا ہو اورانسان کی تمدنی زندگی ہر قسم کے آشوب سے بالاتر ہو کر پر امن اور سکون بن جائے اسی نکتہ کے پیش نظر خداوند کریم نے سود خواری کو حرام قرار دیا اوراغنیا کو بلا سود قرض دینے کی ہدایت فرمائی لیکن حرص وہوس نے قلوب انسانی سے اسلامی اصولوں کو بہت جلدی مٹا کر رکھ دیا جس کی بدولت درندگی اوربہیمیت متاع انسانیت کو لوٹنے میں کامیاب ہو گئی اور دنیاوی زندگی امن وسلامتی کی بجائے ظلم واستبداد اورخوف و ہراس کا مرقع بن گئی۔
سود خوری ذخیرہ اندوزی اورسرمایہ داری کا بد ترین زینہ ہے اورعالمی جنگ اسی کے خوفناک نتائج ہوا کرتے ہیں کیونکہ غریب اورپست طبقہ خواہشات وجذبات کو ضبط کرتے کرتے جب تنگ آجاتا ہے تو وہ چار وناچا ر اوپر کے طبقہ سے ٹکر لینے کے متعلق سوچتاہے اوربالآخر باہمی تصادم کی آگ بھڑک اٹھتی ہے جس سے انسانی سکون و اطمینان کا خرمن جل کر خاکستر کا ڈھیر ہوجاتا ہے لہذا قرآن مجید نے اسلام کے فروعی احکام میں سے اس قدر کسی حکم کو اہمیت سے بیان نہیں فرمایا جس قدر اس نے سرمایہ داری اور ذخیرہ اندوزی کی لعنت کو ختم کرنے کےلئے اہتمام فرمایا ہے۔
بہر کیف قرآن مجید ملکیت کو ختم نہیں کرتا بلکہ ملکیت کو برقرار رکھتے ہوئے غیر مالکوں کے حقوق کی پاسداری کی تلقین فرماتا ہے تاکہ مالک وغیر مالک ہر دوحقوق زندگی سے برابر حصہ لے سکیں اورایک دوسرے سے قریب تر رہ کر اتحاد وتعاون سے تمدنی واجتماعی پوزیشن کی اصلاح کرسکیں لہذا یہ کہنا کہ اسلام کیمونزم کی تعلیم دیتا ہے بالکل غلط اوربے بنیاد ہے بلکہ قرآن واسلام پر بہتان وافتراعظیم ہے قرآن حق ملکیت کسی سے سلب نہیں کرتا اورنہ کسی کو کسی کی ملکیت پر دست درازی کی اجازت دیتا ہے ہاں ملکیت والوںکو غیر مالکوں اور ناداروں کی رعایت کی تعلیم دیتا ہے جو انسانی حق ہے اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسانوں میں حیوانیت کی جذباتی وشہواتی طاقتیں منظم ہوکر ایک امتیازی حیثیت کی حامل بن جائیں جس طرح طاقتور حیوان کمزور حیوان سے حق زندگی سلب کرنے پر آمادہ ہوتاہے اوراس میں رنق وعاطفت کا مادہ نہیں ہوتا کہ کمزور پر رحم وکرم کی نظر کرسکے اوراس کے لئے بھی جینے کا حق تجویز کرے، اسی طرح اگر انسان بھی اپنی طاقت وملکیت کے بل بوتہ پر کمزور وناتوں طبقہ سے حق زندگی صلب کرنے کے درپے ہو اوراپنے لطف وکرم اورسخاوت وایثار سے امتیازی شان کا مظاہرہ نہ کرسکے تو انسان وحیوان میں پھر فرق ہی کیا باقی رہتاہے؟
اگر خدا چاہتا تو سب کو برابر ویکساں امیر وغریب پیدا کرتا لیکن اس نے اپنی مشیت ومرضی سے تفادت اوراختلاف پیدا کرکے انسان کو آزمائش کے مقام پر کھڑا کیا ہے تاکہ اپنے اختیارات سے نیکی وبدی کے راستوں کے درمیان امتیاز کرکے آگے بڑھےں۔
حضرت ابو ذر پر کمیونزم کے شیدائی یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ اشتراکیت کے حامی تھے حالانکہ یہ سراسر غلط اوربے بنیاد ہے حضرت ابوذر جناب رسالتمآب کے مقتدر ومعزر صحابی تھے کہ آپ نے ان کے حق میں فرمایا تھا کہ زمین وآسمان کے مابین حضرت ابوذر سے زیادہ کوئی صادق اللسان نہیں ہے آپ حق ملکیت کے قائل تھے لیکن وہ مالک اورصاحبان ثروت ودولت جو اپنے اموال میں سے فقراکے حقوق ادا نہ کرتے تھے حضرت ابوذر ان کو کبھی معاف نہیں کرتے تھے اورعلیٰ الاعلان ان کو حکم خدا سنانے میں جھجک محسوس نہ فرماتے تھے اوربرملا اور برسر اجلاس اغنیا کو حکم زکوة وخمس وجملہ حقوق مالیہ کی ادائیگی کی تلقین کرتے تھے اوران کے یہی بے لوث کلمات اور مبنی بر خلو ص مواعظ ان کی جلاوطنی کے موجب ہوئے لیکن تادم زیست انہوں نے اپنے نظر یہ حق کو تبدیل نہ کیا اورحکومت وقت کے تہدیدی پیغامات اورخلافت وقت کے استبدادی اقدامات باوجودیکہ ان کے لئے وبال زندگی بن گئے لیکن ان کو اپنے اصلاحی موقف اورغلط اقدامات کے خلاف احتجاجی پالیسی سے ذرّہ بھر نہ ہٹا سکے۔
میں شیعیانِ آل محمد سے گزارش کروں گا کہ اپنے میںحضرت ابوذر کی سی سیرت پیدا کریں اور خصو صا اغنیا ومالدار طبقہ کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ ایسے پاکباز صحابی رسول کی سیرت سے درس عمل حاصل کرکے حقوق مالیہ کی بجاآوری میں کوتاہی نہ کریں اور دین ودنیا کی فلاح کو ہاتھ سے نہ دیں اس مسئلہ کی مزید وضاحت ہماری نو تصنیف کتاب اسلامی سیاست میں ملاحظہ فرمائیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں