حضرت علی
کاقسیمالجنة والنار ہونا
تنزیل کے لحاظ سے یہ آیتیں
گو بنی اسرائیل کو خطاب کررہی ہیں لیکن ان کی تاویل قیامت تک کےلئے ہے کیونکہ قرآن
قیامت تک کےلئے ہے-
تو پس معلوم ہوا کہ جو شخص
کتب سماویہ میں سے ایک کا انکار کرے گویا اس نے سب کتابوں کا انکار کیا، اسی طرح
جوایک نبی کا انکار کرے گویاوہ سب نبیّوں کامنکر ہے اورجوایک امام اورخلیفہ برحق
کا منکرہو گویا وہ تمام آئمہ وخلفائے برحق اورسب انبیاوجملہ کتب سماویہ کا منکر ہے-
چنانچہ انہی آیات کی تفسیر
میں حضرت امام حسن عسکری سے منقول ہے کہ جناب رسول خداﷺ نے فرمایا جس کا ملخص ترجمہ یہ ہے کہ خدانے خبردی ہے کہ جو قرآن کو نہیں
مانتا اُس کا تورات پر بھی ایمان نہیں ہے کیونکہ خدانے ان سے ہردوپر ایمان لانے کا
عہد لیا تھا پس ایک کے ساتھ ایمان بغیر دوسرے کے ناقابل قبول ہے، اسی طرح میری
نبوت پر ایمان لانے کے ساتھ خداوند نے حضرت علی کی ولایت پر ایمان لانا بھی فرض کیا
ہے پس جو شخص میری نبوت پر ایمان لانے کا دعویٰ کرے اورعلی کی ولایت کا کفر کرے تو گویا اس کا
میری نبوت پر بھی ایمان نہیں ہے-
بروزِ محشر جب تمام مخلوق جمع ہو گی تو منادی
اللہ تعالیٰ کی جانب سے ندا کرے گا کہ مخلوق میں سے مومن و کافر جدا ہو جائیں پس
ندا آئے گی
اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ اور دوسری آوا زآئے گی اے خلق
خدا تم بھی اِس کلمہ کو دہراوٴ، تو دہریت کے قائل گونگے ہو جائیں گے اُن کی زبا
نیں بند ہو جائیں گی اور علیحدہ ہو جائیں گے اور باقی تمام مخلوق یہ کلمہ اپنی زبا
ن پر جاری کرے گی اور مشرکین اور بت پرستوں کی زبانیں بند ہو جائیں گی اور وہ
گونگے ہوں گے، پس یہ بھی علیحدہ ہو جائیں
گے پھر نداآئے گی اَشْھَدُ
اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ تو سوائے مسلمانوں کے باقی تمام لوگ اس کلمہ کے
دُہرانے سے گونگے اور زبان بستہ ہو جائیں گے، پس عرصہ محشرسے آواز آئے گی کہ اب ان
اقرار کرنے والوں کو جنت میں لے جاوٴ، اچانک اللہ کی جانب سے ایک اور آواز آئے گی وَ
قِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَسْئُوْﺅلُوْنَ یعنی ان کو ٹھہراوٴ ان سے ابھی پوچھنا ہےفرشتے عرض کریں گے
اے اللہ! یہ رسول خداﷺ کی نبوت کا اقرا ر تو کر چکے ہیں اب ان سے مزید سوال کونسا باقی ہے؟ تو آواز
آئے گی وَ
قِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَسْئُوْلُوْنَ عَنْ وِلایَةِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِب وَ
آلِ مُحَمَّدیعنی ان کو کھڑا کرو کیونکہ ان سے علی اور آل محمد کی وِلا کا سوال باقی ہے اگر اقرار
وِلا نہ ہوگا تو میری ربوبیت اور جناب رسول خداﷺ کی نبوت کا اقرار ان کو کوئی فائدہ نہ دے گا کیونکہ میں ان پر یہ شہادت بھی
فرض کی ہے، پس جو اقرار کرے گا وہی ناجی ہوگا اور جو اقرار نہ کرے گا وہ ناری
ہوگا-
پس بعض لوگ کہہ دیں گے کہ ہم حضرت علی کی وِلا کے
قائل تھے اور آلِ محمد کے محب تھے حالانکہ وہ جھوٹ
کہتے ہوں گے اور خیال کریں گے کہ ہم اس
جھوٹ سے جان چھڑالیں گے، پس کہا جائےگا کہ یہ فیصلہ حضرت علی کی گواہی پر
موقوف ہے-
پس رسول خداﷺ نے فرمایا ! یا علی ؑ ! تو آئے گا اور کہے گا کہ خود جنت میرے دوستوں کی گواہ
ہے اور جہنم میرے دشمنوں پر شاہد ہے، پس جس کا اقرارِ ولایت صحیح ہوگا نسیم جنت اس
کو اٹھا کر محلّاتِ بہشت میں داخل کردے گی جہاں اس کو کوئی تکلیف و رنج نہ پہنچے
گا اور جو اس اقرار میں جھوٹے ہوں سمومِ جہنم ان کو وہاں سے اٹھا کر نار جہنم میں
گرادے گی-
پھر جناب رسول خدا ﷺنے فرمایا یا علی! اسی لئے تو قَسِیْمُ
الْجَنَّةِ وَ النَّار ہے تو جہنم سے خطاب کرکے کہے گا ھٰذَا
لِیْ وَ ھٰذَا لَک یہ میرا ہے اور وہ تیرا ہے-[1]
اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّکِیْنَ بِوِلاءِ مُحَمَّدٍ وَّ آلِہِ
الطَّاھِرِیْنَ