التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

بخت نصر کا قصہ

بخت نصر کا قصہ
5 min read
بخت نصر کا قصہ
تفصیل اس قصہ کی جو کتب تفاسیر میں مذکور ہے وہ اس طرح ہے کہ جب بنی اسرائیل نے برائیوں کو اپنا شیوہ بنا لیا اور اللہ کے حکم سے بالکل سر کش ہو گئے تو حضرت ارمیاؑ پیغمبر کو وحی ہوئی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ میں بنی اسرائیل پر بوجہ ان کی بد کاریوں کے ایک بدترین انسان کو مسلط کر وں گا جو بد طینت اور حرام خور ہو گا وہ ان کو قتل کرے گا ان کی عورتوں کو قید کرے گا اور ان کے شہروں کو خراب کر ے گا۔
حضرت ار میا ؑ نے بنی اسرائیل کے علماسے اس کا بیان کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ قصور تو امراطبقہ کا ہے غریب طبقہ اور کمزور لوگ اس عذاب میں کیوں گرفتار ہوں گے؟ حضرت ارمیاؑ بارگاہِ ربّ العزت میں عرض گزار ہوئے تو خدا وند کریم کی طرف سے ان کو سخت تنبیہ ہوئی اور ارشاد ہوا کہ ان سے کہہ دیجئے کہ اگرچہ تم برائیوں کے مرتکب نہیں ہو لیکن تم بروں کی برائی پر تو راضی رہے ہو تم نے منکر کو دیکھا اور اس سے نہی نہیں کی لہذا اس عذاب میں تم بھی ان کے ساتھ برابر کے شریک ہو ۔
پس حضرت ارمیاؑ نے عرض کیا کہ میرے اللہ ! مجھے بتا کہ وہ کون شخص ہو گا تاکہ میں اس سے جا کر اپنے اور اپنے بال بچوں کے لئے امان طلب کر لوں؟ تو وحی ہوئی کہ تو فلاں مقام پر جا وہ ابھی لڑکا ہے جو اس وقت سخت بیمار ہے چلنے پھرنے کے قابل نہیں اس کی پیدائش خبیث تر اس کا جسم نحیف تر اور اس کی غذا خسیس تر ہے۔
پس حضرت ارمیاؑ اسی شہر میں تشریف لائے تو دیکھا کہ ایک سرائے میں وہ ایک مزبلہ پر کس مپرسی کے عالم میں پڑا ہوا ہے اس کی ماں روٹی کے ٹکڑے ایک پیالہ میں لے کر اس پر سُورنی کا دودھ دوہتی ہے تاکہ وہ نرم ہو جائے اس کو کھلاتی ہے، حضرت ارمیا ؑ نے جانا کہ یہ وہی ہے جس کی اللہ سبحانہ نے خبر دی تھی پھر اس سے دریافت کیاکہ تیرا نام کیاہے؟ تو اس نے اپنا نام بخت نصر بتایا اب تو ان کو یقین ہو گیا کہ یہ وہی ہے، پس اس کے علاج میں مشغول ہو گئے یہاں تک کہ وہ تنددرست ہو گیا، پھر فرمایا کیا تو مجھے پہچانتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ صرف اتنا جانتاہوں کہ تو ایک نیک آدمی ہے آپ ؑ نے فرمایا کہ میں بنی اسرائیل کا نبی ہوں میرا نام ارمیا ؑ ہے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ تجھے بنی اسرائیل پر غلبہ دے گا اور تو ان کو قتل کرے گا، یہ سن کر بخت نصر اس وقت حیران و ششدر سا ہو گیا اس کے بعد حضرت ارمیا ؑنے فرمایا کہ تو میرے لئے امان نامہ لکھ تو حضرت ارمیا ؑ کے فرمانے پر اس نے امان نامہ لکھ دیا۔
تندرست ہو جانے کے بعد بخت نصرکا دستور تھا کہ رات کے وقت پہاڑ کی طرف نکل جاتا اور لکڑیاں جمع کر کے لاتا اور ان کو بازار میں بیچ کر گزر اوقات کرتا تھا اور اسی سے ترقی کرتے کرتے ایک با رُ سوخ سفید پوش انسان ہو گیا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس نے لوگوں کو بنی اسرائیل سے لڑنے کےلئے اپنی طرف بلانا شروع کر دیا اور لوگ بھی کافی تعداد میں اس کے حلقہ بگوش ہو گئے یہاں تک کہ کثیر تعدادمیں ایک جر ّ ار لشکر لے کر بیت المقدس کی طرف متوجہ ہوا کیونکہ وہ بنی اسرائیل کا مسکن تھا۔
حضرت ارمیا ؑ کو جب بخت نصر کی فوج کشی کی خبر پہنچی تو وہ امان نامہ ساتھ لئے گدھے پر سوار ہو کر شہر سے باہر تشریف لائے لیکن لشکر اس قدر زیادہ تھا کہ ان کی بخت نصر تک رسائی نہ ہو سکی تو انہوں نے ایک لکڑی کے سرے پر اس امان نامہ کو باندھ کر بلند کیا جب بخت نصر نے یہ دیکھا تو ان کو اپنے پاس بلا کر دریافت کیا کہ آپ ؑ کون ہیں؟ فرمایا کہ میں وہی ارمیا ؑ نبی ہوں جس نے تجھے بادشاہی کی بشارت دی تھی اور یہ وہی امان نامہ ہے جو تو نے مجھے لکھ کر دیا تھا پس بخت نصر نے جواب دیا کہ تجھے بےشک امان ہے لیکن تیرے اہل بیت (گھر والوںکےلئے) کوئی امان نہیں، پس وہ بیت المقدس کے شہر میں داخل ہوا شہر کے وسط میں ایک ٹیلہ دیکھا کہ اس کے درمیان سے خون جوش مار کر ابلتا ہے اور بند نہیں ہوتا اس نے لوگوں سے دریافت کیا کہ اس کا ماجرا کیاہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ بنی اسرائیل کے بادشاہ نے ایک نبی کو قتل کیا تھا اوریہ اس نبی کا ناحق خون ہے کہ ہم لوگ جس قدر اس پر مٹی ڈالتے ہیں یہ اور زیادہ جوش زن ہوتا ہے اور یہ نبی حضرت یحییٰ بن زکریا تھے اور ان کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ اس دور کا بنی اسرائیل کا بادشاہ زانی و بدکار تھا جب حضرت یحییٰ سے اس کا گزر ہوتا تو آپ ؑ اس کو اس فعل بد سے روکتے تھے اور خوفِ خد اکی طرف متوجہ فرماتے تھے۔
بنی اسرائیل کی بد کار عورتوں میں سے ایک عورت نے جب کہ بادشاہ نشہ شراب میں چور تھا بادشاہ سے کہا کہ اے بادشاہ! یحییٰ کو قتل کر دیا جائے کیونکہ یہ ہماری عیش پسندی میں رخنہ اندازی کرتا ہے بادشاہ نے فوراً اس کے قتل کا حکم دے دیا پس حضرت یحییٰ کے سر کو طشت میں اٹھا کر بادشاہ کے سامنے لایا گیا تو اس پاک سر سے آواز آئی کہ خدا سے ڈر تیرے لئے زناکاری حلال نہیں پس طشت میں خون کھولنے لگ گیا ، یہاں تک کہ زمین پر جاری ہو گیا اور اس کا جوش بڑھتا گیا اور جو ںجوں کوشش اس کو روکنے کی کی گئی توں توں وہ زیادہ ہوتا گیا یہاں تک کہ یہ مٹی کا پہاڑ بن گیا اور بخت نصر کے خروج اور حضرت یحییٰ کے قتل ہونے کے درمیان ایک سو برس کا فاصلہ تھا۔
پس بخت نصر نے قسم کھالی کہ میں بنی اسرائیل کو اس وقت تک قتل کرتا رہوں گا جب تک یہ خون بند نہ ہوگا مردوں عورتوں بچووں حتیٰ کہ ان کے حیوانوں کو بھی قتل کر تا جا تا یہانتک کہ ان کو تباہ و برباد کر ڈالا لیکن باوجود اس کے حضرت یحییٰ کے خون کا جوش بند نہ ہو ا، اس نے دریافت کیا کہ کیاابھی ان شہروں میں بنی اسرائیل سے کوئی آدمی موجود ہے؟ تو کہا گیا کہ ایک بڑھیا فلاں مقام پر رہتی ہے پس اس کو قتل کرنے کا حکم دیا چنانچہ وہ قتل کر دی گئی اور جب وہ قتل ہوئی تو حضرت یحییٰ کو خون بند ہو ا کہتے ہیں کہ یہ وہی عورت تھی جس نے بادشاہ کو حضرت یحییٰ کے قتل کا مشورہ دیا تھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں