التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

واقعہ مباہلہ کے متعلق روایات

واقعہ مباہلہ کے متعلق روایات
12 min read
واقعہ مباہلہ کے متعلق روایات
بنابر مشہور ۴۲ ذوالحجہ سنہ ۰۱ ھجری کو بعد از فتحِ مکہ یہ واقعہ پیش آیا کیونکہ آپ نے اطراف میں دعوتِ اسلام کے خطوط بھیجے چنانچہ ایک خط نصاریٰ نجران کو بھی لکھا پس تحقیق کے لئے ان کا وفد مدینہ میں آیا اور انہوں نے پہلے مناظرہ کیا اور بعد میں مباہلہ کا فیصلہ ہو ا۔
(۱)   بروایت تفسیرقمی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ نصاریٰ نجران کا وفد جب جناب رسالتمآب کے پاس پہنچا تو ان کے سردار تین شخص تھے اہتم عاقب اور سید جب ان کی نماز کا وقت آیا تو انہوں نے ناقوس بجائے اور پھر نماز ادا کی صحابہ کرام کو مسجد رسول میں ان کا یہ فعل ناگوار گزرا اور بارگاہِ رسالت میں دبی زبان سے عرض بھی کیا لیکن آپ نے فرمایا کہ رہنے دیجئے جب وہ فارغ ہو چکے تو آپ کے قریب آکر کہنے لگے آپ کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں؟ فرمایا اللہ کی توحید اور اپنی رسالت کی طرف اور یہ کہ حضرت عیسیٰؑ عبد خدا اور مخلوق خدا تھے کھاتے پیتے اور چلتے پھرتے تھے انہوں نے کہا اگر یہ صحیح ہے تو فرمائیے ان کا باپ کون تھا؟ پس وحی نازل ہوئی کہ ان سے سوال کیجئے تمہارا آدم ؑ کے متلعق کیا خیال ہے؟ کیا وہ عبد خدا تھا کھاتا پیتا تھا؟ اور نکاح وغیرہ کا محتاج تھا؟ تو آپ نے ان سے یہی سوالات کئے انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ! آپ نے فرمایا کہ بتایئے اس کا باپ کون تھا؟ پس وہ شرمسار ہو کر لاجواب ہو گئے چنانچہ اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہ سے لے کر آیت مباہلہ کے آخر تک آیتیں اتریں پس آپ نے فرمایا کہ تم میرے ساتھ مباہلہ کر لو اگر میں سچا ہوں گا تو تم پر خدا کی لعنت اور عذاب نازل ہو گا اور اگر تم سچے ہو گے تو مجھ پر خدا کی لعنت نازل ہو گی انہوں نے کہا کہ واقعی یہ منصفانہ فیصلہ ہے اور مباہلہ کا وعدہ کر کے چلے گئے تو ان کے رسا سید عاقب اور اہتم نے کہا کہ اگر وہ مباہلہ کرنے کے لئے اپنی قوم کو لائے تو ہم مباہلہ کریں گے کیونکہ وہ نبی نہ ہو گا اور اگر وہ اپنی خاص اہل بیت کو ہمراہ لا کر مباہلہ کرے گا تو ہم مباہلہ نہ کریں گے کیونکہ اس اپنی اہل بیت کو ساتھ لانا اس کی صداقت کی دلیل ہے جب صبح ہوئی تو آپ نے حضرت امیر المومنین ؑ اور جناب فاطمہ ؑ اور امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کو ساتھ لیا نصاریٰ نے دریافت کیا کر یہ کون لوگ ہیں؟ تو ان کو جواب دیا گیا کہ ایک ان کا چچا زاد وصی اور داماد علی بن ابی طالب ؑ ہے اور ایک ان کی شہزادی جناب فاطمہ زہرا ؑ ہے اور د و بیٹے امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ ہیں پس یہ سن کر بار گاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ ہم ٓپ کی مرضی کے تابع ہیں ہمیں مباہلہ سے معافی دیجئے پس آپ نے جزیہ پر ان سے صلح کر لی اور چلے گئے۔
(۲)   عیون الالخبار سے منقول ہے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ سے ہارون نے دریافت کیا تھا کہ تم کیسے ذرّیت پیغمبر کہلاتے ہو حالانکہ ہمارے پیغمبر کی نسل نہیں ہے کیونکہ نسل بیٹوں سے ہوا کرتی ہے نہ کہ بیٹیوں سے اور تم بیٹی کی اولاد ہو ؟ آپ ؑ نے فرمایا کہ میں تجھے قرابت اور قبر رسول اور صاحب قبرکا واسطہ دے کر اس سوال کے جواب سے معافی چاہتا ہوں تو ہارون نے جواب دیا کہ مجھے جہاں تک خبر پہنچی ہے آپ ؑ اولادِ علی ؑ میں سردار اور ان کے امام وقت ہیں لہذا میرے ساتھ اس مسئلہ میں دلیل و برہان سے بات فرمایئے اور میں جو کچھ آپ ؑ سے دریافت کر رہا ہوں اس کی ہر گز معافی نہ دوں گا جب تک آپ ؑ قرآن مجید سے اپنے دعویٰ کا ثبوت نہ دیں اے اولاد علی ؑ! تمہارا تو یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کی کوئی چیز تم سے پوشیدہ نہیں ہے اور اس کا کوئی حرف نہیں جس کی تاویل تمہارے پاس نہ ہو اور تم اس کے احتجاج میں پیش کرتے ہو مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْئٍ اور دیگر تمام علماکے قیا سیات اور خیالات سے تم استغنا ظاہر کرتے ہو؟
آپ ؑ فرماتے ہیںکہ میں نے کہا اچھا مجھے اجازت دیجئے تاکہ کچھ کہوں ہارون نے کہا اجازت ہے بیان کیجئے فرماتے ہیں کہ میں نے پڑھا: اَعُوْذُ بِااللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم خدا وند کریم ارشاد فرماتا ہے:




بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
وَ مِنْ ذُرِّیَّتِہ دَاوُدَ وَ سُلَیْمَانَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَھٰرُوْنَ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ وَ زَکَرِیَّا وَ یَحْیٰی وَعِیْسٰی وَاِلْیَاسَ
اور اس کی ذرّیت سے داد ؑاور سلیمان ؑاور ایوب ؑ اور یوسف ؑ اور موسیٰؑ اورہارون ؑ ہیں اورہم احسان کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں اورزکریا ؑ اوریحییٰؑ اور عیسیٰؑ اور الیاس ؑ بھی ان کی ذرّیت سے تھے
پس میں نے دریافت کیا بتائیے حضرت عیسیٰؑ کے باپ کون تھے؟ ہارون نے جواب دیا کہ عیسیٰؑ کا باپ نہیں تھا پس میں نے کہا کہ خدانے حضرت عیسیٰؑ کو ماں کی وجہ سے ذرّیت انبیا میں داخل فرمایا اوراسی طرح ہمیں بھی ماں کے ذریعے سے ذرّیت پیغمبر قرار دیاپھر میں نے کہا کچھ اوربھی کہوں اس کہا کہ ہاں پس میں نے آیت مباہلہ تلاوت کی اورکہاکہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ جناب رسالتمآب نے نصاریٰ کے مباہلہ کے دن علی ابن ابی طالب ؑ فاطمہ ؑ حسن ؑ اورحسین ؑ کے علاوہ کسی اورکو بھی دعوت دی ہو؟ اورآیت میںاَبْنَآئَنَا سے مراد حسن ؑ اورحسین ؑ ہیں نِسَآئنا سے مراد جناب فاطمہ ؑ ہیں اور اَنْفُسَنَا سے مراد جناب علی ابن ابی طالب ؑ ہیں۔
(۳)   امام علی رضا ؑ سے مامون نے جو سوالات کئے تھے منجملہ ان کے ایک یہ بھی تھا کہ مامون نے دریافت کیا کہ آپ ؑ کے جدّ پاک حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ کی خلافت پر دلیل کیا ہے؟ تو آپ ؑ نے فرمایا آیت اَنْفُسَنَا مامون نے کہا ٹھیک ہے بشرطیکہ نِسَائَنَا کا لفظ نہ ہو آپ ؑ نے فرمایا ہاں اگر اَبْنَائَنَا نہ ہو؟ روایت کے الفاظ یہ ہیں: مَا الدَّلِیْلُ عَلٰی خِلافَةِ جَدِّکَ عَلِیّ بْن اَبِیْ طَالِبٍ؟قَالَ آیَةُ اَنْفُسَنَا قَالَ لَوْلانِسَائَنَا قَالَ لَوْلا اَبْنَائَنَا
اس کی توجیہ یہ ہو سکتی ہے کہ جب مامون نے حضرت علی ؑ کی خلافت کی دلیل طلب کی تو آپ ؑ نے فرمایا کہ اَنْفُسَنَا کی آیت یعنی آیت مباہلہ کیونکہ اس آیت میں حضرت علی ؑ کو نفس رسول کہا گیا ہے اور حضرت علی ؑ کا نفس رسول ہونا استحقاق خلافت کے لئے کافی ہے کیونکہ جن پر رسول کو افضلیت حاصل ہے ان پر نفس رسول کوبھی افضلیت حاصل ہوگی اور شئے اور نفس شئے کا حکم ایک ہی ہوا کرتا ہے اس پر مامون نے اعتراض کیا لَوْلانِسَائَنَایعنی اَنْفُسَنَاسے حضرت علی ؑ کا نفس رسول ہونا ثابت نہیں کیونکہ یہاں اَنْفُسَنَا سے مراد مطلق مرد ہیں اور حضرت علی ؑ ان میں ایک فرد ہے اور اس پر قرینہ یہ ہے کہ اس کے مقابلہ میں خدا نے نِسَائَنَاکو ذکر فرمایا ہے اور اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اَنْفُسَنَا سے مراد مرد ہیں ہاں اگر نِسَائَنَا کی لفظ نہ ہوتی تو علی ؑ کا نفس رسول ہونا اس آیت سے سمجھا جا سکتا تھا، آپ ؑ نے اس کی تردید میں فرمایا لَوْلا اَبْنَائَنَایعنی اگرنِسَائَنَا کے قرینہ سے اَنْفُسَنَا کا معنی مطلق مرد ہو تو اَبْنَائَنَا کیوں ذکر کیا گیا یہ بھی تو مردوں میں داخل ہو سکتے ہیں یا یوں کہیے کہ نِسَائَنَا کے مقابلے میں اگراَبْنَائَنَا کا ذکر نہ ہو تا تونِسَائَنَا سے مراد عورتیں اور ان کے مقابلہ میں اَنْفُسَنَا سے مراد مرد لئے جاسکتے تھے لیکن جب ان کا مقابلہ اَبْنَائَنَا سے ہوتو باصطلاح قرآن نِسَائَنَا سے مراد لڑکیاں ہو جایا کرتی ہیں لہذا اَنْفُسَنَا اپنے معنی حقیقی پر رہتے ہوئے حضرت علی ؑ کے فضلیت مذکورہ کے اثبات کا موجب ہو جائے گا۔
اور ممکن ہے کہ مراد یہ ہو کہ حضرت امام رضا ؑ نے چونکہاَنْفُسَنَا سے حضرت علی ؑ کا نفس رسول ہو نا ثابت کرکے ان کا استحقاقِ خلافت بیان فرمایا تو مامون نے اعتراض کیا کہ حضرت علی ؑ کو نفس رسول کہنے میں ایک خرابی لازم آتی ہے اور وہ یہ کہ خاتونِ جنت حضرت علی ؑ کی زوجہ ہیں اور رسول اکرم کی دختر ہیں پس حضرت علی ؑ نفس رسول کیسے ہو سکتے تھے؟ جبکہ وہ رسول کی شہزادی کے شوہر ہیں؟ تو آپ ؑ نے اس کے اس شبہ کا جواب اس طرح دیا کہ حسنین شریفین ؑ کو جب خدا نے رسول کے بیٹے قرار دیا تو علی ؑ نفس رسول ثابت ہوئے کیونکہ علی ؑ کے بیٹوں کو خدا رسول کے بیٹے فرمارہا ہے گویا معنوی طور پر حضرت علی ؑ کا نفسِ رسول ہونا ظاہری رشتہ سے مانع نہیں ہوسکتا۔
(۴)   اہلسنت کی تفسیرثعلبی سے منقول ہے کہ حضرت رسالتمآب نے جب قوم نصاریٰ کومباہلہ کی دعوت دی تو نصاریٰ نے کہا کہ ہم سوچ کو جواب دیں گے جب علیحدہ مجلس مشاورت قائم ہوئی تو انہوں نے مل جل کر عاقب سے کہا جواُن کا صاحب رائے تھا عبد السمیع ( یہ اس کا لقب ہے) تیرا کیا مشورہ ہے؟ اس نے جواب دیا اے نصرانیو! خداکی قسم تمہیں معلوم تو ہے ہی کہ حضرت محمد مصطفیٰ نبی مرسل ہے اوراللہ کی جانب سے بھیجا ہوا ہے اورخداکی قسم کبھی کسی قوم نے کسی نبی سے مباہلہ کی جرات نہیں کی مگر یہ کہ اس کا پوری طرح ستیانا س ہو گیا ان کے چھوٹے بڑے سب فناہوگئے اگر تم ایسا کرو گے تو یقینا ہم سب تباہ ہوجائیں گے، ہاں اگر تم اپنے مذہب کے خیر خواہ ہو اوراسی دین پر رہنے کے متمنی ہو تو چپ چاپ واپس جانے میں اپنی خیر سمجھو۔
پس جب صبح ہوئی تو جناب رسالتمآب نے حسین ؑ کو گود میں لیا اورحسن ؑ کا ہاتھ پکڑا اورجناب فاطمہ ؑ ان کے پیچھے روانہ ہوئیں اورحضرت علی ؑ جناب فاطمہ ؑ کے پیچھے تھے اور آپ ان کو فرمارہے تھے کہ دیکھنا جب میں دعا مانگوں تو تم سب آمین کہنا نجران کے اسقف (پادری ) نے نصاریٰ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میں ایسے چہرے دیکھ رہاہوں اگر وہ اللہ سے سوال کریںکہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو ہٹ جائے گا پس ان لوگوں سے مبالہ نہ کرو ورنہ ہلاک ہوجا گے اورقیامت تک زمین پر کوئی نصرانی باقی نہ رہے گا پس انہوں نے یہ بات مانتے ہوئے بارگاہ رسالت میںعرض کیا کہ ہماری رائے یہ ہے کہ ہم مباہلہ چھوڑ دیں آپ اپنے دین پر رہیں اورہم اپنے دین پر رہیں آپ نے فرمایا کہ اگر تم مباہلہ سے انکار کرتے ہو تو پھر تمہیں اسلام قبول کرنا چاہیے پس مسلمانوں کے ساتھ تم نفع اورنقصان میں شریک ہوجا گے تو انہوں نے اس بات سے انکار کیا آپ نے فرمایاکہ پھر جہاد کی دعوت دیتا ہوں انہوں نے جواب دیاکہ ہم آپ کے ساتھ لڑنے کی جرات نہیں کرتے البتہ ہم آپ سے مصالحت کے خواہشمند ہیں جس کی شرائط یہ ہوں گی:
آپ ہمیں نہ چھیڑیں گے
ہمیں خوفزدہ بھی نہ کیاجائے گا بلکہ پر امن زندگی گزارنے کی سہولت ہمیںدی جائے گی
ہمیں اپنے دین کے چھو ڑنے پر مجبور نہ کیا جائے گا
ہم ہر سال ۲ہزار لباس ایک ہزار ماہ صفر میں اورایک ہزار رجب میں اور تیس زرہ لوہے کی ادا کرتے رہیں گے
پس آپ نے منظور فرمالیا اورفرمایاکہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تحقیق موت اہل نجران پر اپنے پر کھول چکی تھی اوراگر وہ مباہلہ کرتے تو بندر اورسور کی شکل میں مسخ ہوجاتے اورپوری وادی ان کے لئے آگ سے بھڑک اٹھتی اورخدانجران اوراہل نجران کو تباہ کردیتا یہاں تک کہ درختوں پر پرندے بھی زندہ نہ رہ سکتے اورایک سال کے اندر اندر تمام روئے زمین کے نصرانی لقمہ اجل ہوجاتے۔
نوٹ: ا س روایت میں جزیہ کی شرائط میں ہے کہ دوہزار لباس سالانہ ادا کریں گے ایک ہزار ماہ صفر میں اورایک ہزار ماہ ِرجب میں لیکن یہاں صفر سے مراد ماہِ محرم ہے کیونکہ عرب لوگ ماہِ محرم کو صفر اوّل اورماہ صفر کو صفر ثانی کہا کرتے تھے جب اسلام نے صفر اوّل کے مہینے کو بھی حرمت والے مہینوں میں شمار کردیا تو اس کا نام شَہْرُاللّٰہِ الْمُحَرّم پڑ گیا اورآہستہ آہستہ شَہْرُاللّٰہ کا لفظ بھی کٹ گیا اورصرف محرم مشہور ہوگیا
(۵)   تفسیر درّمنثور سے مروی ہے کہ جنا ب رسالتمآب نے اہل نجران کو دعوت نامہ لکھا کہ میں تم لوگوں کو اللہ کی عبادت اوراسی کی ولایت کی طرف دعوت دیتا ہوں اوراگر انکار کرو گے تو تمہیں جزیہ اداکرنا پڑے گا ورنہ ہم تمہارے ساتھ جہاد کریں گے جب خط وہاں پہنچا اوروہاں کے اسقف (پادری) نے خط پڑھا تو بہت گھبرایا اورخوفزدہ ہوا اوراہل نجران کے ایک شخص شرجیل ابن وداعہ کو بلابھیجا اوراس کو یہ خط پڑھنے کےلئے دیا جب وہ خط پڑھ چکا تو اسقف نے اس سے اس بارہ میں مشورہ طلب کیا؟ شرجیل نے جواب دیاکہ تجھے معلوم ہے کہ خداوند کریم نے حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ ذرّیت اسمعیل ؑ میں نبوت کو قرار دوں گا تو ممکن ہے یہ وہی شخص ہو؟ بہر کیف مجھے نبوت کے معاملہ میں دخل اندازی کی مجال نہیں البتہ کوئی دنیاداری کا مشورہ ہوتا تو اپنی رائے ظاہرکرسکتا اورتجھے کوئی صحیح نظر یہ قائم کرکے مطلع کرتا اس کے بعد اسقف نے اہل نجران کے ہر ہر شخص کو یہ خط پڑھو ا کر ان سے فرداًفرداً رائے طلب کی اورہر ایک نے وہی جواب دیا جو شرجیل نے دیا تھا اس کے بعد تمام کی رائے اس بات پر جم گئی کہ شرجیل بن وداعہ اورعبداللہ بن شرجیل اورجبار بن فیض کو معلومات حاصل کرنے کےلئے مدینہ روانہ کیا جائے اوراس کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے۔
پس یہ وفد مدینہ پہنچا حضرت عیسیٰؑ کے متعلق بات چیت ہوئی جب انہوں نے بغیر باپ کے پیدا ہونے کا سوال کیا تو آپ نے فرمایاکہ میں کل جواب دوں گا چنانچہ اسی رات کو یہی آیات اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی سے لے کر آخرتک نازل ہوئیں بالآخر جب مباہلہ تک نوبت پہنچی اورصبح کو جناب رسالتمآب بمعہ ساتھیوں کے میدان مباہلہ میں پہنچے تو شرجیل نے ساتھیوں سے کہا کہ ان سے مباہلہ ہماری ہلاکت کا موجب ہوگا چونکہ اس کو اپنے ساتھیوں نے اپنی طرف سے کلی اختیار دے دیا تھا پس شرجیل نے جزیہ دینا منظور کرکے آپ سے مصالحت کرلی۔
بہر کیف نصاریٰ کے وفد کے ناموں میں اختلاف ہے لیکن تمام مفسرین کو اس بات پر پورا اتفاق ہے کہ جناب رسالتمآب کے ہمراہ سوائے علی ؑ وبتول ؑ وحسنین ؑ کے اورکوئی نہ تھا اوراس روایت کو شیعہ و سنی مفسرین نے متفقہ طور پر لکھا ہے اورابن طاوس فرماتے ہیںکہ میں نے روایت مباہلہ کو اکاون (۱۵)صحابہ وتابعین سے نقل کیا ہے کہ مصداق آیت حضرت علی ؑ وفاطمہ ؑ وحسن ؑ وحسین ؑ ہیں اورجو لوگ اس قسم کی متواترات سے انکار کرتے ہیں ان کے پاس سوائے عنادوحسدو بغض وکینہ کے اورکچھ نہیں اورخداخود ہی ان سے حساب لینے کےلئے کافی ہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں