تفسیر رکوع ۲ -- منافقین کا ذکر
وَ مِنَ
النَّاسِ مَن یَّقُولُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ھُمْ بِمُوْمِنِیْنَ (8) یُخٰدِعُوْنَ
اللّٰہَ وَ الَّذِیْنَ اَمَنُوْا وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنفُسَھُمْ وَ مَا یَشعُرُوْنَ
(9) فِیْ قُلُوْبِھِمْ
مَّرَضٌ
فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَ لَھُمْ عَذَابٌ
اَلِیْمٌ مبِمَا
کَا نُوْا یَکْذِبُوْنَ (10) وَ اِذَا قِیْلَ
لَھُمْ لَا تُفسِدُوْا فِیْ الْاَرْضِ قَالُوْآ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ (11) اَلا اِنَّھُمْ
ھُمُ المُفْسِدُوْنَ و لٰکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ (12) وَ اِذَا قِیْلَ
لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَآلُوا اَنُوْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ
السُّفَھَآءُ اَلَآ انَّھُمْ ھُمُ
السُّفَھَآءُ وَ لٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ (13)
ترجمہ:
اور بعض لوگوں میں سے وہ ہیں
جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ساتھ اللہ کے اور ساتھ یوم آخر کے حالانکہ وہ مومن
نہیں(8) وہ دھوکا دیتے ہیں اللہ کو اوران لوگوں کو جوایمان لائے
اوردرحقیقت وہ نہیں دھوکادیتے مگر اپنے نفسوں کو اورنہیں سمجھتے(9)ان کے دلوں میں بیماری ہے پس زیادہ کیا اللہ نے ان کو
بیماری میں اوران کےلئے درد ناک عذاب ہے اسلئے کہ وہ جھوٹ کہتے ہیں(10) اورجب کہاجائے ان کو کہ نہ فساد کرو زمین میں تو کہتے ہیں کہ
بجز اس کے نہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں(11) آگاہ رہو تحقیق وہی
فساد کرنے والے ہیں لیکن سمجھتے نہیں ہیں(12) اورجب کہا جائے ان کوکہ ایمان لاوٴ جس طرح ایمان لائے ہیں اورلوگ تو کہتے ہیں
کیا ہم ایمان لائیں جس طرح ایمان لائے ہیں بیوقوف آگاہ رہو تحقیق وہی بیوقوف ہیں لیکن جانتے نہیں(13)
تفسیر
رکوع ۲
منافقین کا ذکر
سورہ بقرہ کی پہلی چار آیتیں
مومنین کے حق میں اُتر یں اور ان کے بعد دو آیتیں کفار کے بیان میں اُتریں اور یہ
پورا رکوع )جس کی تیرہ آیتیں ہیں( منافقین کے بیان میں ہے خواہ ان آیات
کا شان نزول بعض مخصوص لوگوں سے ہی متعلق ہو لیکن قرآن چونکہ تاقیامت زندہ ہے لہذا
اس کی تاویل کسی ایک زمانہ کےلئے مخصوص نہیں قرار دی جاسکتی چنانچہ تفسیر ہذا کی جلد اوّل یعنی مقدمہ تفسیر میں اس چیز کو
پوری وضاحت سے پیش کیا جاچکا ہے- [1]
دَور نبوی میں حضرت علی کے بغض کو
نفاق سے تعبیر کرنا اکثر صحابہ سے مروی ہے جیسا کہ کتب ِصحاح اہل سنت سے حضرت علی کا فرمان مروی ہے کہ جناب رسالتمآبﷺ نے فرمایا:
لا یُحِبُّکَ اِلَّا
مُوْمِنٌ وَ
لا یُبْغِضُکَ اِلَّا مُنَافِقٌ تیرے
ساتھ نہ محبت کرے گا مگر مومن اورتجھ سے نہ بغض رکھے گا مگر منافق-[2]
اس کو” تاریخ الخلفا“ میں
علامہ سیوطی نے بھی نقل کیاہے، نیز صحابہ کرام مثلاًحضرت ابُو ذر غفاری، ابوسعید
خدری ،جابربن عبداللہ انصاری ،ابوسعید محمد بن ہثیم ،ابوداوٴد ،عبداللہ ابن
عباس اوراُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ کے اعترافات (کہ حضرت علی کا دشمن منافق ہواکرتا ہے اورہم عہد رسالت میں منافق کی نشانی علی کے ساتھ بغض رکھنے کو قرار دیتے تھے) ہم نے جلد اوّل میں
بمعہ حوالہ کتب درج کئے ہیں-[3]
اسی بنا پر انہی آیات کی
تاویل تفسیر آئمہ میں بیعت غدیر کے توڑنے والوں سے
کی گئی جیسا کہ تفسیر برہان میں اس کے متعلق بہت زیادہ حدیثیں مذکور ہیں اور فِی قُلُوبِھِم مَرَض میں مرض کی تاویل کلام اہل بیت میں عداوت علی سے کی گئی ہے- [4]
مرض کی زیادتی کی نسبت اللہ تعالی
سے اس واسطے ہے کہ چونکہ خداوند کریم وحی قرآن کے ذریعہ سے جناب رسالتمآبﷺ اوران کے اوصیائے طاہرین کے فضائل کو وضع فرماتا ہے
لہذا حاسدین کا حسداُن فضائل کو دیکھ کر اوربڑھتا ہے اس مناسبت سے زیادتی مرض کی
نسبت اللہ تعالی سے ہوئی ورنہ مسئلہ جبر میں اس امر کو ادلہ عقلیہ ونقلیہ سے ثابت
کر چکے ہیں کہ انسان افعال اختیار یہ میں مجبورنہیں اورنہ خداکسی کو مجبور کرتا ہے-
منافقین کے تمسخر کی تفسیر
میں تفسیر برہان میں امام موسیٰ کاظم سے ایک تویہ روایت منقول ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ منافقین کا سر کردہ گر وہ جب
کسی مقام پر خالص مومنین مثلاً سلمان وغیرہ سے ملاقات کرتا تھا تو ان کا پہلا
دوسرے اور تیسرے اور دیگر ساتھیوں سے کہتا تھا کہ دیکھو میں ان مومنوں سے مسخری
کرتا ہوں پہلے سلمان کو خطاب کر کے کہتا آئیے مرحبا سلمان تیرے متعلق ہی تو حضور
پاکﷺ نے فرمایاہے کہ اگر دین ثریا سے معلّق کر دیا جائے تو
ایرانی وہاں سے بھی حاصل کر لیں گے اور تجھے ہی تو حضورﷺ نے فرمایا اَلسِّلْمَانُ مِنَّا اَھَلَ البَیتِ[5]، پھرمقدادسے مل کر یوں کہتا مرحبا مقدادتیرے لئے ہی تو
حضورﷺنے علیکوفرمایا تھا کہ یا علی مقداد تیرا دین کا بھائی ہے تیرے لئے طوبی ہے، پھر ابو
ذر کو مل کر کہتا مرحبا ابوذر تیرے لئے حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ زمین کے اُوپر اور فلک کے نیچے ابوذر سے زیادہ کوئی صادق
اللسان نہیں، اسی طرح عماربن یاسر کو مل کر ان کے تعریف کرتا پھر جب ان سے ہٹ کر
علیحدہ ہوتے تو وہ پہلا دوسرے منافق ساتھیوں سے کہتا دیکھو میں نے ان سے مسخری کی
ہے یہ سن کر باقی ساتھی اس کو تحسین و آفرین کہتے تھے اور جب یہ گروہ منافقین کی
مجلس عام میں بیٹھتا تھا وہ لوگ ان کو کہتے تھے کہ تم تو مومنوں سے ایسی ایسی باتیں کرتے ہو
تو یہ ان کے جواب میں کہتے تھے کہ ہم نے ان سے تمسخر کیا تھا در حقیقت ہم تمہارے ساتھی ہیں اب رہا یہ کہ اللہ ان کے ساتھ تمسخر
کیسے کر تاہے تو اس کے متعلق روایات میں ہے کہ جب مومن جنت کی نعمتوں سے ہمکنار
ہوں گے اور منافقین جہنم کے عذاب میں مبتلا ہو ں گے تو بحکم خدا اُن کے سامنے جنت
کا دروازہ کھولا جائے گا اور جب وہ اس طرف آنے کی کوشش کریں گے تو ملائکہ ربّانیہ
جہنم کے گرزوں کے ساتھ ان کو ما ر مار کر پیچھے ہٹادیں گے اور مومن اُن کا برا حشر دیکھ کر ان پر ہنسیں گے چنانچہ
خدا خود فرماتاہے فَالیَوْمَ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الکُفَّارِیَضحَکُوْنَ[6] طول سے بچتے ہوئے روایت کو مختصر کر دیا ہے-
وَ اِذَا لَقُوْا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْا اٰمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ قَالُوْا
اِنَّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِءُوْنَ (14) اَللّٰہُ یَسْتَھْزِیءُ
بِھِمْ وَ یَمُدُّھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ (15) اُوْلٰٓئِکَ
الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْھُدٰی فَمَا رَبِحَتِ تِّجَارَتُھُمْ وَ
مَا کَانُوا مُھْتَدِیْنَ (16) مَثَلُھُمْ
کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّآ اَضَآءَتْ مَا حَوْلَہٗ ذَھَبَ
اللّٰہُ بِنُوْرِھِمْ وَ تَرَکَھُمْ فِی ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ (17) صُمٌّ بُکْمٌ
عُمْیٌ
فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ (18)
ترجمہ:
اورجب ملاقات کریں ان لوگوں
سے جوایمان لائے ہیں کہتے ہیں ہم مومن ہیں اورجب تنہا ہوں ساتھ اپنے شیطانوں کے تو
کہتے ہیں تحقیق ہم تمہارے ساتھ ہیں بجزاس کے نہیں ہم تو ہنسی کرنے والے ہیں(14) ساتھ مومنوں کے اللہ ہنسی کا (معاملہ) کرتا ہے ساتھ ان کے
اورڈھیل دیتا ہے ان کو اپنی سرکشی میں درحالیکہ وہ حیران ہوتے ہیں(15) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مول لی ہے گمراہی بدلے ہدایت کے،
پس نہ نفع مند ہوئی ان کی تجارت اور نہ وہ ہدایت یافتہ ہوئے(16) ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی ہو پس جب آگ نے
روشن کر دیا اس کے اردگرد کی چیزوں کو تو سلب کر لیا اللہ نے ان کا نور اور ان کو
چھوڑ دیا ایسی تاریکیوں میں کہ وہ کچھ نہ دیکھتے ہوں(17) وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں پس وہ رجوع نہیں کر سکتے(18)
اُوْلٰٓیئِکَ الَّذِیْنَ :منافقین نے چونکہ واضح دلائل اور آیات قرآنیہ کی اتباع کو
چھوڑ کر وساوس شیطانیہ اور عقائد باطلہ کو اپنا ئے رکھا گویا راہ جنت پر چلنے کی قوت
رکھنے کے باوجود راہ جہنم کو اختیار کیا اسلئے ان کے اس فعل کو خداوندکریم نے
ہدایت کے بدلہ میں گمراہی کو خرید نے سے تعبیر فرمایا اور ساتھ ہی ان کو اس غلط کا
ری پر متنبہ فرمادیا کہ یہ سودا اُن کے لئے فائدہ مند نہ ہو گا اب بھی توبہ کر کے
سنبھل جائیں اور اپنے کر توتوں سے باز آجائیں تو ان کےلئے بہتر ہے-
مَثَلُھُمْ الخ: خدا وندکریم نے منافقین کی روش کو
دومثالوں سے واضح فرمایا ہے:
پہلی مثال: جس طرح تاریکی شب
میں راہ گم کر دہ انسان تلاش راہ کےلئے مشعل جگائے اور ماحول کے روشن ہوجانے کے
فوراً بعد قدرتی اسباب سے اس کی مشعل خاموش ہوجائے تو اس کی آنکھوں کے سامنے بالکل
اندھیرا ہو جاتا ہے اور اب وہ کسی شئے کو نہیں دیکھ سکتا اسی طرح ظلمات کفر سے منافقین نے مشعل اسلام کی بدولت
اپنے ماحول کو روشن تو پالیا لیکن چونکہ اس مشعل سے ان کا تعلق محض لسانی اور غیر
مضبوط ہے لہذا وہ راہ ہدایت پر گامزن ہونے سے قاصر رہے جب قدرتی سبب یعنی موت کے
ذریعہ سے ان کی یہ روشنی چھن جائے گئی تو ایسی ظلمات میں گرفتار بلا ہوں گے کہ اس
سے نکلنے کا ان کےلئے کوئی رستہ نہ ہوگا-
صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ الخ: معجزاتِ باھِرات اورآیاتِ بینات کو دیکھ کر صحیح راستہ پر گامزن ہوسکنے
کے باوجود چونکہ راہِ حق سے منحرف ہیں لہذا بمنزلہ اندھوں کے ہیں، علاماتِ حق و
صداقت کو دیکھ کر بوجہ عنادوسر کشی کلمہ حق زبان سے ادا کرنے سے کنارہ کش ہیں لہذا
بمنزلہ گونگے اور اندھے بھی ہیں اسی طرح ان کا قیامت میں حشر بھی اسی حالت میں
ہوگا ،چنانچہ ارشاد
فرماتا ہے وَنَحشُرُھُم
یَومَ القِیَامَةِ عَلٰی وُجُوْھِھِم عُمیاً وَ ُبکْمًا وَ صُمًّا ہم ان کو قیامت کے دن منہ کے بل اندھا، بہرہ اور گونگا محشور کریں گے- [7]
اَوْ کَصَیِّبٍ
مِّنَ السَّمَآءِ فِیْہِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌ یَّجْعَلُوْنَ
اَصَابِعَھُمْ فِیْ اٰذَانِھِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ المَوْتَ ط
وَاللّٰہُ مُحِیْطٌ بِالْکٰفِرِیْنَ (19) َیکَادُ البَرْقُ
یَخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ کُلَّمَا اَضَآءَلَھُمْ مَّشَوْا فِیْہِ وَ اِذَآ اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَامُوْا وَ لَوْ شَآءَ
اللّٰہُ لَذَھَبَ بِسَمْعِھِمْ وَ اَبْصَارِھِمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ
قَدِیْرٌ (20) ع
ترجمہ:
یا ان کی مثال ایسی ہے جس
طرح بارش ہو آسمان سے جس میں تاریکی اور گرج اور بجلی ہو کہ وہ اپنی انگلیاں اپنے
کانوں میں ڈالتے ہوں (صاعقہ) کڑک کی وجہ سے موت کے ڈر سے اور اللہ کی قدرت محیط ہے
کافروں پر(19) (معلوم ہوتا
ہے) کہ عنقریب بجلی (اچک لے گی ان کی آنکھوں کو جب روشنی ہو گئی ان کےلئے تو اس
میں چلنے لگے اور جب تاریکی چھا گئی تو رک گئے اور اگر چاہے تو سلب کرے ان کے
کانوں اور آنکھوں کو تحقیق اللہ ہر شئے پر قدرت رکھنے والا ہے(20)
اَوْکَصَیِّبٍ الخ: دوسری مثال: یہ دوسری مثال ہے یعنی جس
طرح آسمان سے موسلادھار بارش برس رہی ہو اور اس میں سخت تاریکی، بادلوں کی گرج اور
بجلی کی چمک بھی ہو اور چلنے والے کڑک سے گھبرا کر موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں
انگلیاں رکھ لیں اور بجلی کی چمک اتنی تیز ہوکہ ان کی آنکھیں خیر گی کر رہی ہوں
ایسامعلوم کہ ابھی بجلی ان کی آنکھوں کو لیا چاہتی ہے جب بجلی کی چمک سے روشنی
پیدا ہو تو وہ چلنے لگ جائیں اور جب تاریکی ہو تو ٹھہر جائیں پس اسی طرح قرآن
بارانِ رحمت ہے اور اس بارانِ رحمت میں منافقین کی حالت یہی ہے کہ جب عذاب کی خبر
سنتے ہیں تو کانوں میں انگلیاں ڈالتے ہیں اور جب مومنین کے لیے جنت کی بشارت سنتے
ہیں تو آگے بڑھنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں، یا جب جہاد کا حکم سنتے ہیں تو گھبرا جاتے ہیں اور جب مومنین کے لیے جنت کی بشارت
سنتے ہیں تو آگے بڑھنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں، یا جب جہاد کا حکم سنتے ہیں تو
گھبرا کر پیچھے ہٹتے ہیں اور جب فتح کی خبر سنتے ہیں تو غنیمت کے لیے ان کے دل للچاتے
ہیں اور یہ ڈر بھی ان کو دامن گیر رہتا ہے کہ کہیں ہمارے خبث باطن کی خبر پیغمبرﷺ کو بذریعہ وحی نہ ہوجائے ورنہ کفار کی طرح ہمارے اوپر بھی عذاب ظاہری کی بجلی
گر کر ہمیں تباہ و برباد کردے گی اس کے بعد پھر تنبیہ فرمادی کہ اگر خدا چاہے تو ان کی سرکشی اور بد باطنی کی پاداش
میں ان سے آنکھوں اور کانوں کی قوت کو سلب کر سکتا ہے اور ان کو اس دنیاوی عذاب
میں بھی گرفتار کر سکتا ہے کیونکہ اس کی قدرت سے یہ بعید نہیں ہے لیکن وہ اپنی
کمال مہربانی سے ایسا نہیں کرتا بلکہ مزید سوچنے کے لیے مہلت دیتا ہے تاکہ
بروزمحشر ان کو عذر پیش کرنے کی جراٴت نہ ہو-
تفسیر برہان میں آئمہ اہل بیت کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات ان لوگوں پر صادق ہیں جنہوں نے زبان
سے حضرت علی کی ولایت کا جناب رسالتمآبﷺ کے سامنے اقرار کیا اور دل سے ان کے مخالف رہے-
ابن مسعود سے مروی ہے کہ دو منافق جناب رسالتمآبﷺسے خوفزدہ ہو بھاگے اور رستہ میں بارش اور رعدو برق کا سامنا ہوا اور آخر کا ر حضورﷺ کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہو کر تائب ہوئے اور سچے دل سے مسلمان ہوگئے پس خدا وند
نے مدینہ کے منافقین کو ان کے حال سے تشبیہ دی ہے-
[2] ارشاد مفید
ص ۱۸، بحار الانوار ج ۳۹ ص ۳۴۶-۳۱۰، صحیح مسلم ج۱ص۴۸«باب الدلیل علی حسب الانصار»،
صواعق محرقه ابن حجر ص ۱۲۰، شرح ابن ابی الحدید ج۱۸ ص ۱۷۳
[5]
مستدرک حاکم ج۳ ص۵۹۸، طبرانی ج۶ص ۲۶۱،مجمع ھیثمی ج۶ص۱۳۰،میزان الاعتدال ج ۳ ص
۴۰۶،سیرۃ ابن ہشام ج۱، الاحتجاج ص۱۳۹،عیون اخبار الرضا ج۱ ص ۷۰