التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

عباد اور عبید میں فرق

عباد اور عبید میں فرق
3 min read
نکتہ علمیہ - عباد اور عبید میں فرق
عباد اور عبید دونوں لفظیں عبد کی جمع ہیں لیکن استعمال میں عبید عام ہے اور عباد خاص ہے، عباد کی اضافت صرف اللہ کی طرف ہو اکرتی ہے مثلاً عبادُ اللہ اور عبید کی اضافت غیرُ اللہ کی طرف بھی جائز ہے۔
رَبَّا نِیّنَ: رَبَّانِیّ کی جمع ہے اور رَبَّانِیّ ربّ کی طرف منسوب ہے لیکن ربّ کی طرف نسبت دیتے ہوئے اس میں الف و نون کا اضافہ کیا گیا ہے جس طرح لِحْیَہ کی طرف نسبت دیتے ہوئی لِحْیَانِی کہہ دیتے ہیں اور اس سے مقصود صرف مبالغہ ہو ا کرتا ہے بنابریں لِحْیَانِی کا معنی ہوا کرتا ہے بڑی داڑھی والا اور یہاں معنی ہو گا ربّ کے ساتھ خصوصی نسبت رکھنے والا۔
وَلا یَاْ مُرُکُمْ: اس سے پہلی آیت کی نسبت اگر چہ قوم نصاریٰ سے زیادہ ہے کیونکہ وہ حضرت عیسیٰؑ کی طرف اپنے دعویٰ کو منسوب کر تے تھے لیکن اس کے مفہوم کا حصر صرف ان ہی میں نہیں تھا بلکہ تمام انبیا کی شان یہی ہے اور اسی اعتبار سے دوسری آیت میں باقی انبیا سے اپنے آپ کو منسوب کر نے والوں کے غلط عقائد کی بھی اسی لہجہ میں نفی فرمادی کہ جس طرح کسی نبی سے یہ نا ممکن ہے کہ اپنے لئے خدائی دعویٰ کرے اسی طرح کسی نبی سے یہ بھی ممکن نہیں کہ لوگوں کو ملائکہ اور انبیا کی ربوبیت کا درس دے پس اس میں صابی عرب جاہلی اور یہود کے اقوال کی تردید ہو گئی کہ صابی با وجود اہل کتاب کہلوانے کے ملائکہ کی عبادت کرتے تھے اور اسی کو اپنے دین کا جزو سمجھتے تھے! اور عرب جاہلی اپنے آپ کو حضرت ابراہیم ؑ کی طرف نسبت دیتے ہوئے حنفا کہلاتے تھے اور با جود اس کے ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے اور یہود حضرت عزیر ؑ کو ابن ُ اللہ کہتے تھے۔
یَا مُرُکُمْ: ان عقائد فاسدہ کی نسبت انبیا سے دینے کا استبعاد بیان فرمایا کہ تمام انبیا تو دین اسلام کی طر ف بلانے والے تھے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ تم کو اسلام کی دعوت دیں اور تم اسلام قبول بھی کر لو اور پھر تمہیں اس قسم کے کفریہ عقاید کی تعلیم دیں؟ بلکہ یہ صرف تم لوگوں کی بہتان تراشیاں اور افتراپر دازیاں ہیںا ن کا دامن عصمت اس قسم کی گندہ خیالیوں سے بالکل صاف اور مبرّا ہے اور اس جگہ اسلام سے مراد دین فطرت ہے جس کی تبلیغ کےلئے جملہ انبیا تشریف لائے اگرچہ جزوی فروعی اختلافات شریعتوں میں تھے لیکن وہ دین اسلام کے کلی عقائد سے منافات نہیں رکھتے تھے پس مقصد یہ ہے کہ کسی نبی کی شریعت میں بھی ان خرافات کی کوئی گنجائش نہیں۔
تنبیہ
یہ فرمائشات صرف ان لوگوں تک محدود نہیں جو گزر چکے ہیں بلکہ قیامت تک کے لوگوں کے لئے تازیانہ عبرت ہیں جس طرح گزشتہ نبی کو ربّ کہنے والے اس کی زد میں آتے ہیں اسی طرح تاقیامت کسی مخلوق کو ربّ کہنے والے اسی کی تحت میں آئیں گے اسی بنا پر حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ:
میرے بارے میں دو قسم کے لوگ ہلاک ہو ں گے ایک وہ جو میرے فضائل پر پردہ ڈالتے ہوئے مجھے اپنے عہدے سے گرائیں گے اور دوسرے وہ جو میرے مرتبہ سے بڑھائیں گے یعنی جو میر ی ربوبیت کے قائل ہوںگے جس طرح کہ حضرت عیسیٰؑ کے بارہ میں اس قسم کے دو گروہ گمراہ ہو گئے ایک یہودی جنہوں نے ان کی نبوت کا انکار کیا اور دوسرے نصاریٰ جنہوں نے ان کو خدا مان لیا
 پس جس طرح حضرت عیسیٰؑ نبی تھے اور مخلوق خدا تھے اسی طرح حضرت علی ؑ بھی عبد اللہ اور ولی اللہ ہیں اور یہی عقیدہ باعث نجات و فلاح ابدی ہے اور جو لوگ ان کی خدائی کے قائل ہیں وہ مذہب حق امامیہ کے اصول کے مطابق کا فر و مشرک ہیں اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا نے سب کچھ ان کے حوالہ کر دیا اور اب بے کار و بے اختیار ہے وہ بھی کافر و مشرک ہیں اور اس کو تفسیر کی پہلی جلد یعنی مقدمہ میں زیادہ واضح کیا گیا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں