التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

انسانی مزاج

انسانی مزاج
2 min read
 مزید وضاحت 
نوعِ انسان مزاج کے اختلاف کی بنا پر تین قسموں پر ہے: منصف مزاج ، ضدی مزاج ، متلون مزاج
 منصف مزاج: جوبات کو سنتے ہیں اورسمجھتے ہیں اورپرکھ کر اچھی چیز کو اپناتے ہیں اوربری چیز سے دور ہوجاتے ہیں یعنی حق کو لے لیتے ہیں اورباطل کو ٹھکرا دیتے ہیں-
ضدی مزاج: وہ جو کسی کی سنتے نہیں یاسمجھنے کی کوشش نہیں کرتے یاپھر پرکھ نہیں کرتے یاسننے سمجھنے پرکھنے کے بعد بھی باطل کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے ان کا نظریہ صرف یہی ہوتا ہے کہ جوکچھ اپنا خیال ہے خواہ درست خواہ غلط بس اُسی پر ہی رہنا ہے اوردوسرے نظریہ کا خواہ حق ہی ہو ہر ممکن طریقہ سے مقابلہ کرنا ہے، پس اس مزاج کے انسان دوسرے کے نظریہ کا مقابلہ کرنے کیلئے دلیل وبرہان یاکسی دوسرے معقول فیصلے کو قطعا ًاہمیت نہیں دیتے بلکہ ہنگامہ آرائی ہی اُن کا آخری ہتھیاراورتشدد ہی اُن کا آلہ کار ہوتا ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ معقول فیصلہ ہمیں اپنے مسلک سے دستبرداری پر آمادہ کرے گا جس کو وہ کسی قیمت پر قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے-
متلو ّن مزاج: وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کو تماشائی صورت میں بسر کرنا اپنی کامیابی سمجھتے ہیں وہ حق والوں کے بھی دوست اورباطل پر ستوں کے بھی ہمنوا ہوتے ہیں، نہ اُن کی دل شکنی کرتے ہیں اورنہ اُن سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں گویا اُن کے پاس ہوں تو اُن کے اوراِن کے پاس ہوں تو اِن کے ہوجایا کرتے ہیں-
پس قرآن مجید کا پُر ازحکمت کلام پہلے پہل ان ہر سہ قسم کے لوگوں کے نظر یات واعمال کی وضاحت کرتا ہے پہلی قسم کو ”متقین “سے تعبیر فرمایا اوردوسری قسم والوں کو ”کفر“ کی صفت سے ذکر کیا اورتیسری قسم کے صرف اوصاف وعلاما ت کا ذکر فرمایا اور اصطلاحِ قرا ٓن میں اس قسم کو ”منافقین “کہا جاتاہے-
پس قرآن مجید اگر چہ تمام نوعِ انسانی کے لئے باعث ہدایت ہے لیکن پہلی قسم کے لوگ ہی اس سے نفع اُٹھاتے ہیں پس وہی مومن ومتقی کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں اورقرآنی ہدایت چونکہ صرف اُنہی کے کام آتی ہے لہذا قرآن مجید کو ھُدًی لِّلمُتَّقِین کہا اوردوسری قسم والے چونکہ قرآن کی فرمائشات کو ٹھکرادیتے ہیں خواہ اُن کو ہزار سمجھایا جائے وہ ہرگز اس کو قبول کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے پس اُن کو کافر کہا گیا کیونکہ کفر کا معنی ہے انکار اورتیسری قسم کو منافق کہا گیا کیونکہ نفاق کا معنی ہے مقبولیت ِعامہ چونکہ وہ اپنی دوطرفی پالیسی سے اپنی مقبولیت ِعامہ چاہتے ہیں لہذا اُن کو منافق کہاگیا-

ایک تبصرہ شائع کریں