اِذْ
قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ
مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسٰی
ابْنَ مَرْیَمَ وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ
(45) وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلاً وَّمِنَ الصّٰلِحِیْنَ (46) قَالَتْ رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ
وَلَد وَلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَر قَالَ کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَا
یَشَآئُ اِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا
یَقُوْلُ لَہ کُنْ فَیَکُوْنَ (47) وَ یُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ
وَالتَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِیْلَ (48)
ترجمہ:
جب کہا فرشتوں نے اے مریم ؑ! تحقیق اللہ
تجھے بشارت دیتا ہے اپنے کلمہ کی جس کا نام مسیح عیسیٰؑ بن مریم ؑجو مقبول ہوگا دنیا
وآخرت میں اورمقرب بندوں سے ہوگاo اورکلام کرے گا لوگوں سے جھولے میں اوربڑا ہوکر
اورنیک بندوں میں سے ہوگاo عرض کیا اے میرے پروردگار! کیسے (پیدا ) ہوگا میرا
بچہ حالانکہ مجھے مس تک نہیں کیا کسی انسان نے؟ کہا(فرشتے نے ) اسی طرح اللہ پیدا
کرتا ہے جسے چاہے جب وہ کسی امر کے ہونے کا فیصلہ کرے تو بجزاس کے نہیںکہ فرماتا
ہے اس کو ہو جاپس وہ ہوجاتی ہےo اوراس کو علم دے گا کتاب اورحکمت وتورات اورانجیل کاo
بشارتِ عیسیٰؑ
وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰئِکَةِ: یہ بشارت
وہی ہے جس کو سروہ مریم میں تبدیلی الفاظ سے اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ فرماتا ہے
پس ہم نے اس کی یعنی مریم کی طرف اپنا روح بھیجا پس وہ بشکل بشر اس کے سامنے گیا
تو وہ کہنے لگی میں تجھ سے اللہ کی پناہ لیتی ہوں اگر تو خوف خدرکھتا ہے تو اس نے
جواب دیا کہ میں اللہ کافرستارہ تجھے پاکیزہ بچے کی خوشخبری دینے ایا ہوں پس یہاں ملائکہ
کا لفظ ہے اوروہاں اس کی بجائے روح کا لفظ رکھا گیا ہے
ملائکہ سے مراد بعض کہتے ہیں جبریل ہے
اورجمع کا صیغہ اس کی عظمت وسیادت کے لئے ہے بعض کہتے ہیں واقعا ً جبریل کے ساتھ
اور ملائکہ بھی تھے اور ملائکہ یا روح کا حضرت مریم ؑ کے ساتھ کلام کرنا اس امر کی
دلیل ہے کہ حضرت مریم ؑ محدثہ تھیں اور کلام مجید کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ
ملائکہ کا ان کے ساتھ کلام کرنا آواز اور الفاظ کی قسم سے اور برو تھا نہ کہ خطورِ
قلبی ۔
بِکَلِمَةٍ مِّنْہُ: کلمہ جب اللہ کی طرف
منسوب ہو تو اس کا معنی ہے وہ چیز جس سے اللہ کی مراد ظاہر ہو جیسے کَلِمَةُ
الْاِیْجَادِ اور کَلِمَةُ الْوَحْیِ اور اس مقام پر اس کی کئی توجیہیں بیان کی
گئی ہےں:
(۱) کلمہ سے مراد حضرت
مسیح ہیں کیونکہ ان سے پہلے انبیا ئے بنی اسرائیل بشارت کے طور پر یہ کلمہ کہہ چکے
تھے کہ ایک نبی آئے گا جو بنی اسرائیل کے نجات دلانے والا ہو گا پس حضرت مسیح وہی
کلمہ تھے جس طرح کہ حضرت موسیٰؑ کی آمد کی بشارت کے بعد ظہور موسیٰؑ کو خدا نے
کلمہ کہا چنانچہ فرمایا وَ تَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْ
اِسْرَائِیْل (اعراف)
(۲) کلمہ کا اطلاق چونکہ
عام پر بھی ہوتا ہے اور یہاں اس سے مراد ہے ارادہخداوندی کا مظہر کیونکہ اس کا
ملفوظی کلام سے اس کی ذات پاک ومنزہ ہے پس جس طرح عالم وجود میں ہر وجود کی ہر ادا
وجود خالق کی دلیل اور اس کی توحید کے اثبات کے لئے ناقابل تردید برہان ہے گویا ہر
شئے زبان بے زبانی سے اس کی تخلیق اور صنعت و حکمت کی ترجمان ہونے کی حیثیت سے اس
کا کلمہ و کلام ہے چونکہ بنی اسرائیل نے تورات میں تحریف کر کے اس کے مطالب و
مضامین کو بدل ڈالا تھا اور حضرت عیسیٰؑ خدا کی جانب سے اصل مراد خداوندی کے
ترجمان تھے چنانچہ ان کا اپنا ارشاد ہے کہ میں بعض وہ چیزین بیان کرنے کے لئے آیا
ہوں جن میں تمہیں اختلاف ہے پس اسی بنا پر ان کو کلمہ کہا گیا
(۳) کلمہ سے مراد بشارت کا
مفہوم ہے یعنی عیسیٰؑ کا حمل اور اس کی ولادت وغیرہ کی پیشین گوئی معنی یہ ہو گا
کہ خدا تجھے بشارت دیتا ہے کہ تجھے بغیر شوہر کے حمل ہوگا اور تجھ سے ایک بچہ پیدا
ہو گا جس کا نام مسیح عیسیٰؑ بن مریم ؑ ہو گا
(۴) کلمہ سے مراد کلمة
الایجاد ہے اور حضرت عیسیٰؑ خود کلمہ ایجاد خداوندی تھے یعنی یہ خود کلمہ کُن کے
مصداق تھے گرچہ تمام افراد انسانی تکوینی طور پر کُن سے عالم وجود میں آئے ہیں
لیکن باقی افراد انسان کی پیدائش چونکہ اسباب وعلل ظاہریہ کے ماتحت ماں اور باپ
دونوں کے ذریعے سے ہوئی اور حضرت عیسیٰؑ کی تخلیق اسباب عادیہ کی وساطت کے بغیر
صرف کلمہ تکوین سے ہوئی گویا وجود عیسیٰؑ بعینہ کلمہ کُن کا مصداق تھا چنانچہ ایک
اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے وَ کَلِمَتُہُ اَلْقَاھَا اِلٰی مَرْیَمَ (اعراف)
اور یہی توجیہ تمام توجیہات سے بہتر ہے اور
پہلی ہر سہ توجیہات پر اعتراض وارد ہو سکتا ہے مثلاً پہلی توجیہ کے متعلق کہا
جاسکتا ہے کہ اوّلاً تو سابق انبیا کی طرف سے حضرت عیسیٰؑ کے متعلق پیشین گوئیاں
قرآن مجید میں ثابت نہیں اور ثانیاً اگر ثابت ہوں بھی تاہم حضرت عیسیٰؑ کو اس بنا
پر کلمہ نہیں کہا جا سکتا بعد میں صاف طور پر ہے اِسْمُہُ الْمَسِیْحُ اور ان کی
پیشین گوئی ظہور عیسیٰؑ ہے نہ کہ خود عیسیٰؑ یعنی ان کا کلمہ تھا ظہور عیسیٰؑ کی
پیشین گوئی اور خود عیسیٰؑ ان کا کلمہ نہ تھا تاکہ کہا جائے کہ اس کا نام مسیح ہے
(الخبر)
اور بعینہ تیسری توجیہ پر بھی یہی ایراد
وارد کیا جا سکتا ہے کہ کلمہ سے مراد بشارت ہو تو اِسْمُہُ الْمَسِیْحُ اس کی
تائید نہیں کرتا اور دوسری توجیہ تصحیح معنی کےلئے خوب ہے لیکن کوئی دوسرا قرینہ
اس کی تائید نہیں کرتا۔
اِسْمُہُ الْمَسِیْحُ: بروزن فعیل بمعنی
مفعول یعنی مسح شدہ اور مسح کا معنی ہے پونچھنا پس حضرت عیسیٰؑ کو مسیح کہنے کی
کئی وجوہ بیان کی گئی ہےں:
ان
کو مسیح اس لئے کہا گیا ہے کہ ان کے وجود اطہر پر یُمن و برکت و خیر و خوبی کا مسح
کیا گیا کیونکہ ان کے وجود کو گناہوں سے پونچھ اور دھو دیا گیا اس لئے ان کو مسیح
کا لقب دیا گیا
کہتے
ہیں کہ انبیا زیتون کے تیل سے مالش کرتے تھے اور حضرت عیسیٰؑ کو بھی یہی مالش کی
گئی اسی وجہ سے اس کو مسیح کہا گیا
بوقت
ولادت ان کو جبریل نے اپنے پروں سے مس کیا تھا تاکہ ان کے لئے باعث تعویز ہو
چونکہ وہ یتیموں کے سر پر دست شفقت پھیرتے
تھے بنابریں ان کو مسیح کہا گیا لیکن اس صورت میں مسیح بمعنی ماسح صیغہ اسم فاعل
ہو گا
چونکہ نابینا کی آنکھ پر ہاتھ پھیر کر اس کو
بینا کر دیتے تھے یا یہ کہ ہر صاحب آفت پر مسح کر کے ان کو تندرست کر دیتے تھے اس
لئے ان کو مسیح کہا جاتا ہے اس صورت میں بھی صیغہ اسم فاعل کا ہو گا
مشیحا کا معر ّب ہے کہتے ہیں بنی اسرائیل کا
طریقہ تھاکہ جب ان کے بادشاہ کا جشن تاجبوشی منعقد ہوا کرتاتھا اور بادشاہ عنانِ
حکومت کو سنبھالتا تھاتو کاہن لوگ کتابِ مقدس سے اس کے جسم کو مسح کرتے تھے تاکہ
اس کے نظام ملک کے لیے باعث برکت ہو پس وہ اس کو مشیحا کہا کرتے تھے جس کا معنی
بادشاہے یامبارک ہوتاتھا۔
عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ: اس کی اصل یشُوع
بتلائی گئی ہے اور اس کا معنی نجات اور چھٹکارا دلانے والا اور بعض احادیث میں اس
کا معنی یعیش ہے اور حضرت یحییٰؑ کے نام سے مناسبت تو اسی معنی کے لحاظ سے ہو تی
ہے اور با وجودیکہ بشارت کا خطاب حضرت مریم ؑ سے ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ تیرا
بچہ پیدا ہو گا جس کا نام عیسیٰؑ ابن مریم ؑ ہو گا حالانکہ اس مقام پرابن مریم ؑ
کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ بات ہی مریم ؑ سے ہو رہی ہے پس اس سے مقصد صرف یہی
ظاہر کرنا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ بغیر باپ کے پیدا ہوںگے اسی بنا پر تو ہر دو عالمین
کے لیے آیت قراردیا گیا۔
وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ
وَکَھْلاً: کہولت جوانی اور بڑھاپے کے درمیان کے زمانہ کو کہا جاتا ہے پس کہل وہ
ہوگا جس کے بالوں میں سفیدی داخل ہو رہی ہواور بعض نے اس کی حد چونتیس (۴۳) سال
بیان کی ہے۔
سوال: کہولت
کے زمانہ میں ہر شخص بولا کرتا ہے البتہ گہوارے میں آرام کرنے والے بچے کا بولنا
خلاف عادت ہے پس اس بشارت میں گہوارے میں کلام کرنے کے ساتھ کہولت میں کلام کرنے
کی صفت کی کیا خصوصیت ہے؟
جواب: حضرت
مریم ؑ کی خشنود ی کا لحاظ رکھا گیا ہے تا کہ وہ آج ہی سے ذہن نشین کر لے کہ میرا
بن باپ کے پیدا ہونے والا بچہ بچپنے میں مر نہ جائے گا بلکہ طویل عمر پائے گا اور
کہولت کا زمانہ بھی اس کو نصیب ہو گا۔
سوال: نصرانیوں کی موجودہ انجیلوں سے تو پتہ چلتا ہے
کہ حضرت عیسیٰؑ دنیا میں کل تینتیس (۳۳) برس رہے اور اس کے بعد اٹھا لیے گئے پس
انہوں نے کہولت کے زمانہ میں کلام کیسے کیا؟اور کلام اللہ کی تصدیق کیسے ہوئی؟
جواب: انجیلوں
پر تحریف کے وقوع کی وجہ سے اعتماد نہیں کیا جا سکتا؟اور جہانتک تاریخ کا تعلق ہے
حضرت عیسیٰؑ دنیا میں تقریباَچونسٹھ (۴۶)سال رہے ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ
کہولت کے زمانے میں کلا م کرنے سے مراد ہے ان کا حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ کے زمانِ
ظہور میں آسمان سے اُتر کرکلام کرنا (تفسیرمیزان)
قَالَتْ رَبِّ: فرزند کی بشارت کا خطاب
اگرچہ فرشتوں سے یا روح سے سنا تھا لیکن حضرت مریم ؑ کو علم تھا کہ یہ خطاب اللہ
کی جانب سے ہی ہے اور باپ کے بغیر اولادکا ہونا چونکہ ظاہری طور پر ایک ناشدنی امر
تھا اس لئے مقام استعجاب میں کلام کا رخ پروردگار کی طرف کرتے ہوئے عرض گزار ہوئیں
کہ میرے ہاں بچہ کیسے ہو گا؟ حالانکہ میری تاحال شادی نہیں ہوئی اور نہ مجھے کسی
انسان نے مس کیاہے؟ تو فوراً جواب ملا:
کَذَالِکَ: بچہ ایسے ہی پیدا ہو گا یعنی
حضرت مریم ؑ کے ذہن میں اگر شادی کا احتمال ہوتو اس کلمہ سے رفع کر دیا کہ خدا
ایسے ہی بغیر شادی کے اور بغیر مرد کے ہی تجھے بچہ عطا کرے گا اور چونکہ حضرت مریم
ؑ کے استعجاب سے ایک صورت انکاری کا شائبہ تھا اور علل و اسباب کی دنیا کا تقاضا
بھی یہی ہے کہ بغیر مرد کے عورت کا بچہ پیدا نہیں ہوتا پس اس انکار کا جواب اس طرح
دیا:
اَللّٰہُ یَخْلُقُ: خدا جسے چاہے پیدا کر
سکتا ہے اور اس کی قدرت اسباب کی محتاج نہیں بلکہ وہ جب حتمی ارادہ کسی شئے کے
کرنے کا فرما لیتا ہے تو وہ شئے ہو جاتی ہے نیز لفظ کُنْ ہماری تفہیم کے لئے ہے
ورنہ خدا تخلیق میں کسی لفظ کا محتاج نہیں پس یہاں مراد یہ ہے کہ خدا کے ارادہ اور
فعل میں ذرّہ بھر بھی زمان کا فاصلہ نہیں ہو تا بلکہ اِدھر اس کا ارادہ ہوتا ہے
اُدھر چیز ہو جاتی ہے جس طرح کہنے والا کُنْ کہے اور شئے ہو جائے ۔
وَ یُعَلِّمُہُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَةَ:
کتاب اور حکمت پر جو لام داخل ہے جنس کا ہے ، کتاب سے مراد یہاں مطلق وحی اورحکمت
سے مراد مطلق معرفت جو عمل و اعتقاد سے متعلق ہو پس تورات و انجیل کا عطف ، عطف
خاص برعام ہے۔
وَ التَّوْرٰةَ: اس سے مراد وہ کتاب ہے جو
حضرت موسیٰؑ پر نازل ہوئی اور یہودی خود معترف ہیں کہ بخت نصر کے بعد تورات کی سند
محفوظ نہیں رہ سکی لیکن بایں ہمہ قرآن تسلیم کرتا ہے کہ یہودیوں کے پاس موجودہ
تورات جو زمانِ رسالت میں تھی اصلی تورات سے بالکل الگ نہیں اگرچہ تحریف سے بھی
خالی نہیں۔
وَالْاِ نْجِیْلَ: اس کا معنی ہے بشارت لفظ
کا واحد ہونا بتلاتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ پر انجیل صرف ایک اتری تھی اور زمانِ رسالت
میں موجودہ چار انجیلیں جو متی ، مرقس ، لوقا اور یوحنا کی طرف منسوب ہیں وہ بعد
کی تصنیف شدہ ہیں۔