التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

حضرت مریم ؑ کی پیدائش و تربیت

حضرت مریم ؑ کی پیدائش و تربیت
9 min read
 حضرت مریم ؑ کی پیدائش و تربیت

اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّی نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرً ا فَتَقَبَّلْ مِنَّی اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (35) فَلَمَّا وَضَعَتْھَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّی وَضَعْتُھَآ اُنْثٰی وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی وَ اِنِّی سَمَّیْتُھَا مَرْیَمَ وَاِنِّیْٓ اُعِیْذُھَا بِکَ وَذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ (36)
ترجمہ:
جب عرض کیا زوجہ عمران نے اے ربّ ! میں نے نذر کی ہے تیرے لئے وہ جو میرے شکم میں ہے کہ (وہ عبادت کےلئے ) آزاد ہوگا پس تو قبول فرمامیری نذر کو تحقیق تو سننے جاننے والاہےo پس جب اس کو جنا تو عرض کیا اے ربّ! میں نے لڑکی جنی ہے اورخدا بہتر جانتا ہے کہ کیا جنا ہے اورنہیں لڑکا مثل لڑکی کے اورمیں نے اس کا نام مریم ؑ رکھا اورمیں تیری پنا ہ میں دیتی ہوں اس کو اوراس کی اولاد کو شیطان رجیم (کے شرّ) سےo
حضرت مریم ؑ کی پیدائش و تربیت
امراة عمران: بعض کہتے ہیں کہ یہ عمران بن ہاشم حضرت سلیمان بن داد کی اولاد سے تھے اور بعض کہتے ہیں یہ عمران بن ماتان تھے جو یہود بن یعقوب کی ستائسویں پشت میں تھے اور عمران بن یصہر جو حضرت موسیٰ کے والد تھے ان کے اور ان کے درمیان اٹھارہ سو سال کافاصلہ تھا ارو ماثان کی اولاد اس زمانہ میں بنی اسرائیل کی سردارتھی قاقود بن قبیل کی دو لڑکیاں تھیں ایک کا نام حنہ تھا جو عمران کی زوجہ اور مریم کی والدہ تھیں اور دوسری کا ایشاع تھا جو حضرت زکریا کی زوجیت میں تھیں یعنی حضرت مریم اور حضرت یحییٰ ایک دوسرے کے خالہ زاد تھے ۔ رب انی نذرت لک الخ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ عمران کو خدا نے وحی کی تھی کہ میں تجھے ایک مبارک فرزند عطا کروں گا جو مادر زاد نابینا اور مبروص کو شفایاب کر ے گا اور میرے اذن سے مردوں خو زندہ کرے گا ارو میں اس کو بنی اسرائیل کا نبی بناں گا تو عمران نے اپنی زوجہ حنہ سے یہ بات بیان کی پس جب اس کو حمل ہوا تو نذر مان لی کہ اے اللہ یہ بچہ جو میرے پیٹ میں ةے اسکو خدمت مسجد اور عبادت ککےلئے اپنی طرف سے آزادکرونگی (بروایت بحارالانوار) ابو بصیر سے مروی ہے کہ میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کیا عمران نبی تھا ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں وہ اپنی قوم میں نبی و مرسل تھا (المیزان)
محرراً: یعنی آزاد اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اس سے اپنے کام کاج نہ کراں گی اورکہتےہ یں خہ جب کوئی لڑکا اس مطلب کے لئے آزاد کی اجتا تھا تو اسے عبادت خانہ میں ٹھیرا یا جاتا تھا اور اس عبادت خانہ کی جھاڑو براداری ، صفائی اور خدمت سن بلوغ تک اس کے ذمہ میں ةوتی تھی اور بلوغ کے بعد اس کو اختیار ہوتا تھا کہ وہاں ٹھیرا رہے یا چلا جائے پس یہاں تحریر کا معنی غلامی سے آزاد ہونا نہیں بلکہ حق ولدیت جو اولاد پر ماں باپ کےلئے ثٓبت ہے اس کا ساقط کرنا یہاں مراد ہے ۔
کہتے ہیں کہ حنہ کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی یہاں تک کہ بوڑھی ہوگئی ایک دن ایک درخت کے نیچے بیٹھی تھی کہ دیکھا ایک پرندہ درخت پر اپنے بچہ کو دانہ بھرا رہا ہے یہ کیفیت دیکھتے ہی دل میں اولاد کی محبت بھر آئی اور اللہ سے طلب فرزند کی دعا کی تو خدا نے اس کو قبو ل فرمایا اور حضرت مریم ؑ سے حاملہ ہوئیں اور منت مانی کہ اس کو عبادت خانہ کی خدت اور عبادت گزاری کےلئے آزاد رکھوں گی ۔
فلما و ضعتھا: زمانہ حمل میں حنہ کے شوہر عمرنا کا انتقال ہو گیا تھا ارو حنہ کو یہی خیال تھا کہ میرے پیٹ میں لڑکا ہی ہو گا اس لئے کہ خدا کی طرف سے بشارت تھی کہ میں اس کو رسول بناں گا اور عہدہ رسالت صرف مردوں کےلئے ہی ہوا کرتا ہے لیکن ان کے خلاف توقع جب لڑکی پیدا ہوئی تو گھبراگئیں اور شرمساریمحسوس کرتے ہوئے سر جھکا کر عرض کی کہ اے پالنے والے یہ تو لڑکی پیا ہوئی ہے اور لڑکے اور لڑکی میں بڑا فر ق ہے ۔
حضرت امام جعفر صادق ؑ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ جب تمہارے بیٹوں یا پوتوں یا پڑ پوتوں میں خوئی بات ہونے والی ہو اورہم کہہ دیں کہ تم میں ایسا ہو گا تو اس بات پر تعجب نہ کرو یجیسا کہعمران کے نواسہ کو خدانے رسول بنانا تھا لیکن ان کو وحی یہ کی کہ میں تجھے فرزند دوں گا جو رسول ہو گا۔
سمیتھا مریم: ان کی زبان میں مریم کا ترجمہ عبادہ ہوتا تھا جناب رسالتمآب سے مروی ہے کہ تمام عالم سے خدا نے چار عورتوں کو منتخب فرمایا (۱) مریم آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون خدیجہ بنت خویلد فاطمہ بنت محمد
 فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَاَنْبَتَھَا نَبَا تًا حَسَنًا وَکَفَّلَھَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْھَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَا عَنْدَ اھَا رِزْقًا قَالْ یٰمَرْیَمُ اَنَّی لَکِ ھٰذَ ا قَالَتْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ  اِنَّ اللّٰہَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ(37)ھُنَا لِکَ دَعَازَکَرِیَّارَبَّہ قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآ ئِ (38)
ترجمہ:
 تو اس (نذر ) کو قبول فرمایا اس کے ربّ نے اچھا قبول کرنا اوراس کو بڑھایا خوب بڑھانا اورکفالت دی اس کی زکریا کو جب بھی داخل ہوتے اس لڑکی پر زکریا محراب (عبادت ) میں پاتے اس کے پاس رزق پوچھتے اے مریم کہاں سے تجھے یہ (پہنچا) وہ کہتیں کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے تحقیقی اللہ رزق بھیجتا ہے جسے چاہے بغیر حساب کےo وہیں (حضرت ) زکریا نے اپنے ربّ سے دعامانگی کہا اے پروردگار مجھے عطا فرمااپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد تحقیق تو بھی دعا کے سننے والاہےo

اَنْبَتَھَا نَبَاتًا حَسَنًا: حضرت مریم ؑ کے حسن قبول اور حسن تربیت کے متعلق کہتے ہیں کہ ان سے پہلے کوئی لڑکی بیت المقدس میں عبادت کےلئے نذر نہ کی جاتی تھی پس یہ پہلی لڑکی تھی جس کو اس مطلب کے لئے خدا نے قبول فرمالیا اور حسن تربیت یہ کہ کبھی دن یا رات میں ایک گھنٹہ بھر کےلئے بھی ان کو بیماری لاحق نہ ہوئی یا کہ حسن قبول کا مطلب ہے کہ سعادت کے راستے پر چلنے کی خدا نے زیادہ توفیق عطا فرمائی حتی کہ جب بعمر نو سال پہنچی تو دن کو متواتر روزہ اور رات بھر عبادت میں بسر کرتیں یہاں تک کہ تمام عابدوں سے سبقت لے گئیں اور حسن تربیت کا مطلب یہ ہے بہت جلد ترقی کرتی تھیں کہ عام بچوں کی سال کی ترقی اور ان کی ایک دن کی ترقی برابر تھی۔
وَ کَفَّلَھَا زَکَرِیَّا: کہتے ہیں جب حضرت مریم ؑ کی ولادت ہوئی تو ان کی والدہ حنہّ نے ان کو ایک کپڑا میں لپٹا اور مسجد میں لا کر اَحبارِ بنی اسرائیل سے فرمایا کہ یہ میری لڑکی ہے جس کے متعلق میں نے نذر کی تھی چونکہ بنی ماثان بنی اسرائیل کے سردار تھے لہذا اپنے پیشوا اور سردار کی لڑکی سمجھ کر ہر ایک دل میں اس کی کفالت اور تربیت کی حرص پیدا ہوئی تو حضرت زکریا ؑ نے فرمایا کہ یہ چونکہ میر ی زوجہ کی بھانجی ہے لہذا میں اس کی تربیت کا سب سے زیادہ حقدار ہوں (صاحب تفسیر صافی فرماتے ہیں کہ ہماری روایات میں حضرت زکریا ؑ کی زوجہ حضرت مریم ؑ کی بہن تھی نہ کہ خالہ چنانچہ قمی اور عیاشی نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے بھی یہی روایت کی ہے)
تو احبارِ بنی اسرائیل نے جواب دیا کہ اگر اس کا حق تربیت قرابت داری کی بناپرہے تو پھر اس کی ماں کو اس کی تربیت کا زیادہ حق ہے پس اب اس کا فیصلہ یہ ہے کہ قرعہ اندازی کی جائے اور جس کانام قرعہ سے نکل آئے وہی اس کی تربیت کا حقدار ہوگا تو ۹۲آدمی یا بقولے ۷۲آدمی اس قرعہ اندازی میں شریک ہوئے پس سب کے سب دریا کے کنارے پہنچے اورہر ایک نے اپنے اپنے قلم پانی میں پھینکے سوائے حضرت زکریا ؑ کے سب کے قلم ڈوب گئے اور ان کا قلم پانی کی سطح پر تیرتا رہا اور بعض کہتے ہیں کہ باقی لوگوں کے قلم دریا میں بہہ گئے اور حضرت زکریا ؑ کا قلم پانی میں ایک مقام پر ٹھہر گیا، پس حضرت زکریا ؑ کے سپرد حضرت مریم ؑ کی کفالت و تربیت ہوئی اور حضرت زکریاؑحضرت سلیمان ؑ بن داد ؑ کی اولاد سے تھے اور ان موجودہ احبار کے رئیس بھی تھے اور نبی بھی پس حضرت زکریاؑ نے حضرت مریم ؑ کےلئے علیحدہ حجرہ بنایا جس میں وہ رہتی تھیں اور اپنی زوجہ یعنی حضرت یحییٰ کی والدہ کو اس کے رضاع پر مامور فرمایا لیکن بعض کہتے ہیں کہ حضرت مریمؑ نے کسی عورت کا دودھ نہیں پیا بلکہ خدا وند کریم نے ابتداسے اس کےلئے جنت کے رزق کا انتظام فرما دیا تھا۔
القصہ
 جب جوان ہوئیں تو حضرت زکریاؑ نے مسجد میں ان کے لئے ایک علیحدہ محراب عبادت بنایا تا کہ وہ با پردہ اس میں مشغول عبادت رہیں اور ان کسی کی نظر نہ پڑے لیکن حضرت زکریا ؑ جب ان کے پاس تشریف لاتے تھے تو ان کے پاس بے موسم میوہ جات موجود پاتے تھے مثلاً موسم گرما میں موسم سرما کے میوے اور موسم سرما میں موسم گرما کے، اور بالکل تروتازہ اور حیرت سے دریافت فرماتے کہ یہ کہاں سے آیا؟ تو وہ جواب میںکہتیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے اور خدا جسے چاہے بے حساب رزق دیتا ہے اور حضرت مریمؑ کی خوبصورتی کا یہ عالم تھا کہ جب محراب عبادت میں مشغول نماز ہوتیں تو ان کی جبین مبین سے ایک نور ساطع ہو کر محراب کو منور کر دیتا تھا (صافی)
سبحان اللہ یہ مریم ؑ کی شان تھی، مناسبت مقام کے لحاظ سے حضرت مریمؑ کبریٰ صدیقہ طاہرہ جناب فاطمہ زہراؑ سلام اللہ علیہا کے شان کے متعلق بھی صرف ایک روایت عرض کرتا ہوں جو اس مقام پر نہایت موزوں ہے:
امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جناب فاطمہ ؑ اور حضرت امیر ؑ کے خانگی معاملات کا دستور یہ تھا کہ گھر کے تمام کا م کاج بتولِ معظمہ کے ذمہ اور باہر کے اُمور حضرت امیر علیہ السلام کے ذمہ تھے ایک دن جب امیر المومنین ؑگھر میں تشریف لائے تو دریافت فرمایا اے فاطمہ ؑ! کوئی چیز کھانے کےلئے ہے؟ تو خاتون جنت نے عرض کیا کہ آج تیسرے روز سے گھر میںکھانے کی کوئی چیز نہیں ہے آپ ؑ نے فرمایا کہ مجھے پہلے اطلاع کیوں نہ دی؟ تو مخدومہ نے عرض کیا کہ بابا جان نے فرمایا ہے کہ اپنے ابن عم(شوہر) سے کسی چیز کی فرمائش نہ کیا کرو اگر وہ خود کچھ لائیں تو احسان سمجھو ورنہ کسی شئے کے لانے کی فرمائش نہ کرو پس آپ ؑ باہر تشریف لائے اور کہیں سے ایک دینار قرض لیا بوقت شام واپس تشریف لارہے تھے کہ راستہ میں مقداد بن اسود سے ملاقات ہوئی آپ ؑ نے اس سے بے وقت گھر سے نکلنے کا سبب دریافت فرمایا تو اس نے عرض کیا کہ یا امیرالمومنین ؑ بھوک کے مارے گھر سے نکلا ہوں آپ ؑ نے فرمایا کہ میرے گھر سے نکلنے کی وجہ بھی یہی تھی اور ایک دینار قرض لایا ہوں لیکن تیر ی ضرورت کو اپنی ضروری پر مقدم سمجھتا ہوں لہذا یہ دینار تو لے لے پس دینار مقداد کو دے کر خالی ہاتھ واپس گھر کی طرف متوجہ ہوئے دیکھا کہ جناب رسالتمآب تشریف فرماہیں اور خاتونِ معظمہ مصروف عبادت ہیں اور درمیان میں ایک سر پوش سے ڈھکی ہوئی چیز موجود ہے بی بی پاک جب نماز سے فارغ ہوئیں اور سر پوش اُتارا تو دیکھا ایک بڑا برتن ہے جو گوشت و روٹی سے پُر ہے اس مقام پر جناب امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا یَا فَاطِمَةُ اَنّٰی لَکِ ھٰذَا اے فاطمہ ؑ! آپ ؑ کو یہ چیز کہاں سے پہنچی؟ تو جناب سیدہؑ نے عرض کیا ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ یہ اللہ کی جانب سے ہے اور خدا جسے چاہے بے حساب رزق عنایت فرماتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں