انتخاب مریم ؑ
وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَةُ: گزشتہ اِذْ قَالَتِپر عطف ہے اور آیت بتلاتی
ہے کہ حضرت مریمؑ محدثہ تھیں کہ ان فرشتے سے کلام کرتے تھے اور پہلے اصطفٰا سے
مراد قبول کر لینا اور دائرہ محبت میں لے لینا ہے اوردوسرے اصطفٰاسے مراد منتخب
وبرگزیدہ کرنا دوسروں کے مقابلہ میں ہے اسی لئے پہلا مطلق ہے اوردوسرااعلیٰ کے
ساتھ مستعمل ہے نیز ان کی طہارت سے مراد عصمت ہے اوربعض نے بتول ہونا مراد لیا ہے
یعنی آلائش حیض سے پاک وصاف تھی تاکہ ہر وقت بیت المقدس میں رہ کر عبادت کرسکے
اوربعید نہیں کہ دونوں معانی اس مقام پر مراد ہوں اورپہلا معنی زیادہ مناسب ہے اس
لئے کہ چونکہ حضرت عیسیٰؑ کی ولادت کا بعد میں تذکرہ ہے اوروہ بغیر باپ کے پیدا
ہوئے تھے پس حضرت مریمؑ کی عصمت کی پہلے شہادت دے دی تاکہ کسی کو اس کے متعلق شک
وشبہ کی مجال نہ رہے اوربدگمانی کی طرف کوئی ذہن اقدام نہ کرے۔
سوال: کیا حضرت مریمؑ کو پورے عالمین کی عورتوں پر
برگزید گی کا شرف حاصل ہوا ہے؟
جواب: آیت مجیدہ کہ ظاہری الفاظ تواسی مطلب کی
تائید کرتے ہیں کیونکہ عالمین جمع کا صیغہ ہے اوراس پر الف ولام بھی داخل ہے
اورقواعد کے لحاظ سے اس کا معنی استغراق ہوتا ہے یعنی حضرت مریمؑ کو تمام جہانوں
کی عورتوں پر خدا نے سبقت دی ہے اور نیز استثنا کا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ
ان کو تمام جہانوں کی عورتوں پر ترجیح دی گئی لہذا یہ کہنا کہ اس کو صرف اپنے
زمانہ کی عورتوں پر فوقیت عطا کی گئی آیت مجیدہ کا ظاہراس مطلب کو ہرگز قبول نہیں
کرتا۔
سوال: عقیدہ
شیعہ کی رو سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا عالمین کی عورتوں کی سردار ہے،
چنانچہ جناب رسالتمآب سے اس بارہ میں متعدد فرامین صادر ہوئے ہیں نیز کتب فریقین
میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا میری شہزادی فاطمہ ؑ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہے
اور یہ ظاہر ہے کہ جنت صرف ایک عالم کی عورتوں کے لئے نہیں بلکہ تما م عالمین کی
پاک و نیک عورتیں وہاں ہوں گی اور جناب فاطمہؑ بلا استثنیٰ سب کی سردار ہےں لیکن
آیت مجیدہ میں حضرت مریمؑ کو تمام جہانوں کی عورتوں میں سے برگزیدہ کہا گیا ہے اب
ان ہر دو مقاموں پر غور کرنے کے بعد تعارض سامنے آجاتا ہے اور آیت اور حدیث میں
تعارض کی صورت میں آیت ہی کو ترجیح دی جایا کرتی ہے؟
جواب: آیت
مجیدہ میں حضرت مریمؑ کو بر گزیدہ کا تمغہ عطا کیا گیا ہے اور حدیث پاک میں جناب
فاطمہ زہرا ؑ کو سیادت کا تاج دیا گیا ہے لیکن ہر دہ مقام پر حصر نہیں ہے لہذا
مریمؑکا انتخاب جناب فاطمہؑ کے انتخاب کے منافی نہیں اور حضرت فاطمہؑ کی سیادت
جناب مریمؑ کی سیادت سے متصادم نہیں پس ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں بلکہ ان کے علاوہ
کچھ اور خواتین بھی اس کرامت میں ان کے ساتھ شریک ہوں چنانچہ شیعہ و سنی ہر دو کی
کتب میں اس کی تائید موجود ہے:
عَنِ الدُّرِّ الْمَنْثُوْرِ عَنْ اٰنَسٍ
اَنّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ حَسْبُکَ مِنَ النِّسَائِ الْعَالَمِیْنَ مَرْیَمُ
بِنْتِ عِمْرَانَ وَ خَدِیْجَةُ بِنْتِ خُوَیْلِدٍ وَ فَاطِمَةُ بِنْتِ مُحَمَّدٍ
وَ آسِیَّةُ امْرَاَةِ فِرْعَوْنَ
درّ منثور انس سے مری ہے کہ جناب رسالتمآب
نے فرمایا کہ تمام جہانوں کی عورتوں میں سے مریمؑ بنت عمران خدیجہ ؑ بنت خویلد
جناب فاطمہ ؑ بنت محمد اور آسیہ ؑ زوجہ فرعون فضیلت و شرف کے لئے کافی ہیں
وَ فِیْہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ
رَسُوْلُ اللّٰہِ اَفْضَلُ نِسَآئِ الْعَالَمِیْنَ خَدِیْجَةُ وَ فَاطِمَةُ و
مَرْیَمُ وَ آسِیَةُ امْرَاَة فِرْعَوْنَ
ابن عباس سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا
عالمین کی عورتوں میں سے افضل خدیجہ ؑ فاطمہ ؑ مریمؑ اور آسیہ ؑ زوجہ فرعون ہیں
وَ فِیْہِ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ رَسُوْلُ
اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی عَلٰی نِسَائِ الْعَالَمِیْنَ اَرْبَعاً آسِیَةُ
بِنْتِ مُزَاحِمٍ وَ مَرْیَمُ بِنْتِ عِمْرَانٍ وَ خَدِیْجَةُ بِنْتِ خُوَیْلِدٍ
وَ فَاطِمَةُ بِنْتِ مُحَمَّدٍ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہ وَسَلَّمَ
حسن بصری سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ تمام
جہانوں کی عورتوں میں سے خدا نے چار کو چن لیا:
آسیہ ؑ بنت مزاحم مریمؑ بنت عمران خدیجہ ؑ
بنت خویلد فاطمہ ؑ بنت محمد صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہ وَسَلَّمَ
عَنِ الْخِصَالِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ
خَطَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ اَرْبَعَ خُطُوْطٍ ثُمَّ قَالَ خَیْرُ نِسَائِ اَھْلِ
الْجَنَّةِ مَرْیَمُ بِنْتِ عِمْرَانٍ وَ خَدِیْجَةُ بِنْتِ خُوَیْلِدٍ وَ
فَاطِمَةُ بِنْتِ مُحَمَّدٍ وَ آسِیَةُ بِنْتِ مُزَاحِمٍ اِمْرَاة عِمْرَانٍ
خصال میں ابن عباس سے مروی ہے کہ جناب
رسالتمآب نے چار خط کھینچے اور پھر فرمایا کہ جنت کی عورتوں میں سب سے بہترین
مریمؑ دختر عمران خدیجہ ؑ دختر خویلد فاطمہ ؑ دختر محمد اور آسیہ دختر مزاحم زوجہ
فرعون ہیں
وَ فِیْہِ عَنْ اَبِیْ الْحَسَنِ الْاَوَّلِ
عَلَیْہِ السَّلام قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ
اِخْتَارَ مِنَ النِّسَائِ اَرْبَعاً مَرْیَمُ وَآسِیَةُ وَ خَدِیْجَةُ
وَفَاطِمَةُ
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے منقول ہے کہ
جناب رسالتمآب نے فرمایا تحقیق اللہ سبحانہ نے عورتوں میں سے چارکو منتخب فرمایا:
مریمؑ آسیہ ؑ خدیجہ ؑ اور فاطمہ ؑ( الخبر)
بہر کیف اس مضمون کی احادیث کتب فریقین
میںحدِّ تواتر تک پہنچتی ہےں:
جس طرح ایک سکول کی ایک کلاس میں مختلف
مضامین کے لحاظ سے چند طلبہ نمبر اوّل پر فائز ہو جایا کرتے ہیں اگرچہ مجموعی طور
پر ان کے مراتب میں کافی فرق ہوتا ہے مثلاً ایک لڑکا ایک مضمون میں فسٹ ہے اور
دوسرا دوسرے میں تیسرا تیسرے میں اور چوتھا چوتھے میں تو کہا جائے گا کہ چاروں
پورے سکول میں فسٹ ہیں لیکن مجموعی نمبرو ں کا تناسب ہو گا تو ان چاروں میں ایک
فسٹ ہو گا دوسرا سیکنڈ و علیٰ ہذا القیاس بہر کیف یہ ضروری نہیں کہ جس طرح وہ اپنے
ایک ایک مضمون میں امتیازی شان کے حامل ہیں مجموعی طور پر بھی وہ سب کے سب یکسانیت
رکھتے ہوں بلکہ عام عادت کا تقاضا یہی ہے کہ ان میں تفاوت ہو گا اور ان کا یہ
باہمی تفاوت ان کے پورے سکول یا جماعت میں فسٹ آنے کے منافی نہیں پس اسی طرح درست
ہے کہ پورے عالمین میں سے چند خواتین ممتاز ہوں لیکن بعض خصوصیا ت کے اعتبار سے
اور مجموعی طور پر ان سب میں سے صرف ایک ہی ممتاز ہو اب دیکھنا یہ ہے کہ حضرت
مریمؑ کس صفت میں امیتازی شان کی حامل ہےں اور ان کی مصطفائی و بر گزیدگی کا محور
و مدار کونسی صفت ہے؟
تو اگر قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے
اورحضرت مریمؑ کے متعلق آےات الٰہیہ کو غور سے دیکھا جائے تو جناب مریمؑ کا کوئی
فضیلت کا پہلوایسا نہیں جس کو قرآن مجید نے بیان نہ کیا ہو چنانچہ حضرت مریمؑ کی
خصوصی صفات میں سے جن کا قرآن مجید میں ذکر ہے یہ ہیں:
حضرت مریمؑ حیض اوراس قسم کی آلائشاتِ
نسوانی سے پاک ومنزہ تھیں
عفیفہ اور پاکدامن تھیں اور دونوں صفتوں
کو طَھَّرِکِ کا لفظ ظاہر کر رہا ہے اور نیز اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا کا جملہ بھی
حضرت مریم ؑ کی عفت پر نص ہے
کلماتُ
اللہ کی تصدیق کرنے والی تھیں
ز کتب
سماویہ کی تصدیق کرنے والی تھیں چنانچہ خدا فرماتا ہے صَدَّقَتْ بِکَلِمَاتِ
رَبِّھَا وَ کُتُبِہ
قنوت کرنے والی تھیں چنانچہ ارشاد ہے وَ
کانَتْ مِنَ الْقَانِتِیْنَ
فرشتے ان سے کلام کرتے تھے پس محدثہ تھیں
اور ظاہر ہے کہ ان صفات کے لحاظ سے حضرت
مریم ؑ کو کوئی امیتازی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ ان میں دوسری متعدد خواتین
بھی ان کے ساتھ شریک ہیں ہاں حضرت مریم ؑ کی وصف و ثنا جو قرآن میں خصوصیت کے ساتھ
اور متعدد مرتبہ نہایت اہمیت سے بیان ہوئی ہے وہ ہے حضرت عیسیٰؑ کے بغیر باپ کے
تولد کا قصہ چنانچہ ابھی بعد کی آیتوں میں بیان ہو گا:
ء اِذْ قَالَتِ الْمَلٰئِکَةِ یَا مَرْیَمُ
اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِکَلِمَةٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسٰی بْنَ
مَرْیَم (آل عمران)
ء فَنَفَخْنَا فِیْھَا مِنْ رُوْحِنَا وَ
جَعَلْنَاھَا وَ ابْنَھَاآیَةً لِّلْعَالَمِیْن (سورہ انبیا )
ء وَ مَرْیَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ الَّتِیْ
اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْھَا مِنْ رُوْحِنَا (سورہ تحریم)
پس قرآن مجید میں حضرت مریمؑ کی جملہ مذکورہ
صفات میں سے صرف حضرت مسیح کی والدہ ہونا اور کسی مرد کے مس کئے بغیر حضرت عیسیٰؑ
کی ماں بننا ان کا ایک ایسا خصوصی نشان ہے کہ اس میں عالمین کی عورتوں میں سے اس
کا کوئی بھی شریک نہیں پس وہ اس صفت اور شان میں امیتازی کلی کی حامل ہیں اور تمام
جہانوں کی عورتوں میں سے وہ اس لحاظ سے برگزیدہ اور منتخب ہیں نہ کہ تمام باقی
صفات کے اعتبار سے جیسا کہ ظاہر ہےپس جن روایات میں حضرت مریمؑ کو عالمین کی
عورتوں میںسے ایک امیتازی حیثیت کی حامل کہا گیا ہے ان میں ان کی صرف اسی خصوصیت
کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
اسی طرح حضرت مریمؑ کے علاوہ جناب خدیجہؑ
اور جناب آسیہ بھی عالمین کی عورتوں میں سے دامن انتخاب خداوندی کے اندر داخل ہیں
اور یہ انتخاب ان کی نمایاں اور مخصوص بعض صفات کے تحت ہے جو ان کی عالمین میں
امتیازی حیثیت کی حامل ہیں پس باقی تمام عورتوں پر ان کی فضیلت ثابت ہو گئی لیکن
کیا یہ چاروں پاک بیبیاں مساوی اور یکساں رتبہ پر فائز ہیں؟ حضرت مریمؑ کے متعلق
قرآنی تصریح صرف ان کے اپنی مخصوص صفت کے لحاظ سے منتخب اور ممتاز ہونے کا اعلان
کر رہی ہے اور الفاظ آیت اور ترکیب جملہ قطعاً مریم ؑ میں اصطفٰا کے محصور ہونے پر
دلالت نہیں کرتے اور فرمانِ نبوی میں چاربیبیوں کے انتخاب کا اعلان بھی مریمؑ میں
انتخاب کے حصر کے منافی ہے، جب یہ معلوم ہوا کہ قرآن حضرت مریمؑ کے مجموعی صفات کے
نتیجے کے اعلان سے ساکت ہے تو فرمانِ نبوی جناب فاطمہؑ کی عمومی سیادت کے اعلان کے
متعلق یقینا تعارض سے خالی ہے بلکہ بعض روایات میں تو حضرت مریمؑکی سیادت کی حضرت
فاطمہ ؑ کے مقابلہ میں صاف طور پر نفی موجود ہے جیسا کہ درّ منثور سے منقول ہے:
عَنْ فَاطِمَةَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہ
اَنْتِ سَیِّدَةِ نِسَائِ اَھْلِ الْجَنَّةِ لا مَرْیَمُ الْبَتُوْلِ
یعنی جناب رسالتمآب نے
فاطمہ ؑ سے فرمایا کہ جنت کی عورتوں کی صرف تو ہی سردار ہے نہ کہ مریم ؑ بتول
احادیث آئمہ علیہم السلام میں اس امر کی
تصریح موجود ہے کہ حضرت مریمؑ کا اصطفٰا صرف عیسیٰؑ کی ولادت کےلئے تھا چنانچہ:
عَنْ تَفْسِیْرِ الْقُمّی قَالَ عَلَیْہِ
السَّلام اِصْطَفَاھَا مَرَّتَیْنِ اَمَّا الْاُوْلٰی فَاصْطَفَاھَا اَیْ
اِخْتَارَھَا وَ اَمَّا الثَّانِیَة فَاِنَّھَا حَمَلَتْ مِنْ غَیْرِ فَحْلٍ
فَاصْطَفَاھَا بِذَالِکَ عَلٰی نِسَائِ الْعَالَمِیْنَ
تفسیر قمی سے منقول ہے کہ معصوم ؑ نے
فرمایاخدا وند کریم نے مریمؑ کو دو دفعہ چنا پہلی دفعہ تو اپنی عبادت کے لئے اسے
مختار بنایا اور دوسری دفعہ وہ چونکہ بغیر شوہر کے حاملہ ہوئی پس اس کو تمام
عالمین کی عورتوں پر اس خصوصیت کے لحاظ سے منتخب فرمایا
عَنِ الْمَجْمَعِ قَالَ اَبُوْ جَعْفَرٍ ؑ
مَعْنَی الْآیَةِ اِصْطَفٰکِ لِذُرِّیَّةِ الْاَ نْبِیَِائِ وَ طَھَّرَکِ مِنَ
السّفَاحِ وَ اصْطَفٰکِ لِوِلادَةِ عِیْسٰی مِنْ غَیْرِ فَحْلٍ
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا آیت
کا معنی یہ ہے کہ خدا نے تجھے ذرّیت انبیا ہونے کےلئے برگزیدہ کیا اور بدکاری سے
پاک کیا اور بغیر باپ کے عیسیٰؑ کی پیدائش کے لئے تجھے انتخاب کیا
پس قرآن مجید میں تدبر کرنے او ر احادیث میں
نظر دوڑانے کے بعد یہ نتیجہ بخوبی سامنے آجاتا ہے کہ حضرت مریمؑ کا عالمین کی
عورتوں پر اصطفٰا صرف اسی خصوصی صفت کی بنا پرہے اور یہی وہ صفت ہے جس سے عالمین
کی عورتیں محروم ہیں لیکن جناب خاتونِ جنت کی سیادت کسی ایک وصف کے پیش نظر نہیں
بلکہ علی الاطلاق اُن کو سیدة النسائِ العالمین کا خطاب دیا گیا ہے پس وہ مریمؑ سے
بھی افضل ہیں اور باقی عام عورتوں سے بھی ان کو سبقت حاصل ہے اور یہ ممکن ہے کہ یہ
چاروں عصمت مآب بیبیاں بعض اوصافِ مخصوصہ میں عالمی امتیاز رکھتی ہوں لیکن جملہ
صفات حسنہ کے لحاظ سے ان میں باہمی طور پرتفاوت مراتب ہوں اور بعض بعض سے افضل ہوں
چنانچہ مثال سابق سے اس کی وضاحت کی جا چکی ہے۔
اعتراض: اب
رہا یہ سوال کہ حضرت مریمؑ کے اصطفٰا کا اعلان خدا وند کریم نے بذریعہ قرآن مجید
کے فرمایا اور خاتونِ جنت کی سیادت کا اعلان حدیث کے ذریعے ہوا قرآن کی سند قطعی
اور حدیث کی سند ظنی ہے تو قطعی کے مقابلہ میںظنی کو کوئی اہمیت ہی حاصل نہیں؟
جواب: سند
حدیث بےشک ظنی ہے لیکن تواتر کے بعد اسے بھی قطعیت کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے اور
حدیث مذکور کا کتب فریقین میں تواتر ہونا ثابت ہے اور اگر بالفرض تواتر ثابت نہ
بھی ہو تب بھی اس سے تمسک پکڑنے میں خرابی تب لازم آتی کہ آیت اور حدیث میں تعارض
ہوتا اور ہم گزشتہ بیان میں ثابت کر چکے ہیں کہ مفہوم آیت و حدیث میں قطعاً تعارض
نہیں کیونکہ اولاً تو آیت مجیدہ اصطفٰا کا مریمؑ میں حصر نہیں بتلاتی اور ثانیا ً
جس خصوصیت کا مریمؑ میں حصر ہے اس سے کسی حدیث کا تعارض نہیں بلکہ وہ وصف صرف
مریمؑ کی ہی ہے اور قرآن مجید کا ایک امر کے بیان سے سکوت اس کی نفی کی دلیل نہیں
بن سکتا بلکہ بہت سے شرعی امور ایسے ہیں جن سے قرآن خاموش ہے لیکن بذریعہ حدیث ان
پر ایمان فرض ہے پس من جملہ ایسے امور کے ایک یہ بھی سمجھ لینا چاہےے۔
حضرت مریمؑ کی متذکرہ صفات جناب زہرا سلام
اللہ علیہا میں بھی موجود تھیں چنانچہ تفسیر عمدة البیان میں جناب رسالتمآب سے
مروی ہے کہ جناب فاطمہ ؑ عالم کی عورتوں کی سردار میری پارہ جگر نورچشم اورمیوہ دل
ہے، جب وہ عبادت خدا کےلئے محراب ہیں کھڑی ہوتی ہے تو اس کے نور سے ملائکہ اس طرح
فیض حاصل کرتے ہیں جس طرح اہل زمین آسمانی ستاروں کی روشنی سے استفادہ کرتے ہیں
اور خدا فرشتوں سے خطاب فرماتا ہے کہ میری کنیز خاص فاطمہ کو دیکھو کہ میرے خوف سے
محرابِ عبادت میں مشغول گریہ ہے اور اس کا بدن کانپتا ہے وہ تمام عورتوں کی سردار
ہے اور میں تم کو گواہ کرتا ہوں کہ میں اس کو اور اس کے شیعوں کو آتش جہنم سے بے
خوف کروں گا۔
اور ادھر اگر مریمؑ کےلئے
اِصْطَفٰکِ وَطَھَّرَک کا خطاب ہے تو جناب فاطمہ کےلئے یُطَھِّرُکُمْ تَطْھِیْرًا
کا ارشاد ہے اگر وہ بتول تھیں تو یہ بھی بتول تھیں اگر ان سے ملائکہ کلام کرتے تھے
تو ان کے ساتھ بھی ملائکہ کا کلام کرنا ثابت ہے چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام
سے منقول ہے کہ جناب فاطمہؑ کا لقب محدثہ اس واسطے ہے کہ ملائکہ ان سے باتیں کرتے
تھے اور جناب مریمؑ کی طرح ان سے بھی خطاب کر کے کہتے تھے:
یَا فَاطِمَةُ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰکِ وَ
طَھَّرَکِ وَ اصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَائِ الْعَالَمِیْنَ یَافَاطِمَةُ اقْنُتِیْ
لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ
اے فاطمہ! تحقیق اللہ نے تجھے چن لیا اور
پاک کیا اور عالمین کی عورتوں پر تجھے برگزیدہ فرمایا اے فاطمہ! اپنے ربّ کے لئے
قنوت اور سجدہ کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر
ایک شب جناب فاطمہ ؑ نے فرشتوں سے کہا کیا
مریمؑ عالمین کی عورتوں سے افضل تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ صرف اپنے زمانہ کی
عورتوں کی سردار تھی اور تو تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار ہے۔
اقول
حضرت
مریمؑ اس ایک خصوصی صفت کے لحاظ سے عالمین کی عورتوں سے ممتاز ہے اور مجموعی صفاتِ
حسنہ کے اعتبار سے فقط اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار ہے اور جناب فاطمہ زہرا ؑ
مجموعی صفات کے اعتبار سے عالمین کی عورتوںکی سردار ہے
حضرت مریمؑ صرف ایک حجت خدا حضرت عیسیٰؑ
کی ماں ہے اور حضرت فاطمہ گیارہ اماموں کی اصل ہے جن کے آخری امام حضرت عیسیٰؑ کے
بھی مقتدا ہوں گے
حضرت مریمؑ کی وہ خصوصی صفت جو عالمین کی عورتوں
کے مقابلہ میں اس کا امتیازی نشان ہے یعنی بغیر شوہر کے عیسیٰؑ کی ماں بننا غالباً
اس ضرورت کے ماتحت ہے کہ مریمؑ معصومہ ہے اور اس زمانہ میں ان کا کفو مردوں میں سے
کوئی موجود نہ تھا کیونکہ حضرت زکریا ؑ ان کے بہنوئی تھے اور حضرت یحییٰ ان کے
بھانجے تھے اور ان کے علاوہ مردوں میں سے کوئی ایسا فرد موجود نہ تھا جو مریمؑکا
کفو ہو سکتا؟ لیکن جناب فاطمہ ؑ کا کفو حضرت علی ؑ موجود تھا اور حضرت مریمؑ کی یہ
صفت اگر چہ ان کی امیتازی حیثیت کی حامل ہے لیکن عوام کی نظروں میں اسے عیب کی
نگاہوں سے دیکھا گیا یہاں تک کہ حضرت مریمؑ کےلئے وہ اتہام و بد گمانی کا موجب بن
گیا لیکن جناب فاطمہ ؑ کی ساحت عصمت اور دامن عفت اس بد نما عیب سے پوری طرح محفوظ
و مصون تھا پس ان کی ناکتمذائی نے واقعیت کے لحاظ سے اگر چہ ان کو ممتاز کیالیکن
ظاہری طور پر ان کی بد نامی اور شر مساری کی موجب ہوئی چنانچہ اپنی پاکدامنی و عفت
کے ثبات میں اسے اپنے نوزائیدہ فرزند حضرت عیسیٰؑ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس
ہوئی لیکن اس طرف جانب حضرت فاطمہ ؑ کی حضرت علی ؑ سے شادی جس طرح واقعیت کے لحاظ
سے ان کے علوِّ شان کی موجب تھی اسی طرح ظاہری نگاہوں میں بھی ان کی برتری و سیادت
کےلئے غیر متزلزل علامت ہے پس جناب فاطمہ ؑ کو اس اعتبار سے بھی حضرت مریم ؑ سے وہ
فوقیت حاصل ہے جس سے کسی منصف مزاج کو انکار کی مجال نہیں۔
یُلْقُوْنَ اَقْلامَھُمْ: تفسیر قمی سے منقول ہے کہ جب حضرت مریم ؑ کا تولد
ہوا تو آلِ عمران نے اس کی کفالت و تربیت میں نزاع کیااور ہر ایک اس کی کفالت اپنے
ذمہ لینا چاہتا تھاپس جب تمام نے اکٹھے ہو کر قرعہ اندازی کی تو قرعہ حضرت زکریا ؑ
کا نکلا لہذا حضرت مریمؑ کی تربیت ان کے سپرد ہوئی لیکن تفسیر عیاشی سے مروی ہے کہ
حضرت محمد باقرؑنے فرمایا جب حضرت مریمؑ کا والد فوت ہو گیاتب انہوں نے اس کی
تربیت میں جھگڑا کیا اور قرعہ اندازی کی۔
تنبیہ
حضرت مریم ؑ کی ولادت تربیت حضرت زکریاؑکی
کفا لت اس کے بعد حضرت مریم ؑ کی برگزیدگی طہارت قنوت رکوع سجوداور ان کے بعد قرعہ
اندازی کا ذکر اِس امر کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ قرعہ اندازی ان سب باتوں کے
بعدواقع ہوئی تھی چنانچہ بعض نے یہ احتمال کیا ہے کہ حضرت مریم ؑ کے جوان ہونے
اوران کے اصطفٰا وطہارت وغیرہ کے بعد جب حضرت زکریاؑ بڑھا پے کی وجہ سے ان کی دیکھ
بھال سے عاجز ہوگئے تب ان لوگوں نے حضرت مریم ؑ کی تربیت میں جھگڑا کیا اورباہمی
قرعہ اندازی کی کیونکہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے بلکہ قرعہ اندازی شروع میںکی گئی
تھی البتہ اس کا ذکر تربیت وکفالت وطہارت وغیرہ کے بعد کیا گیا جس کی وجہ یاتو یہ
ہے کہ جمع قرآن میں ترتیب نزول کو ملحوظ نہیں رکھا گیا اوریایہ کہ کلام مجیدکی
اعجازی حیثیت کو واضح کرنے کے لئے قصہ کی بعض خصوصیات کو دہرایا گیا اوروہ یہ کہ
آنحضرت اوراوران کے صحابہ اس قصہ کے موقعہ پر موجود نہ تھے اورنہ انہوں نے بنی
اسرائیل کی کتب کا مطالعہ کیا تھا نہ ان کے ساتھ کوئی خاص آمدورفت یانشست وبرخاست
تھی تاکہ ان کی زبانی بعض واقعات ان کو معلوم ہوگئے ہوں بایں ہمہ اس قصہ کا مطابق
واقع ہونا اوربنی اسرائیل کے علماکا مان لینا قرآن اورحامل قرآن کی صداقت کی کھلی
ہوئی دلیل ہے اسی بناپر قصہ کو مختصر الفاظ میں ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ آپ تو
اس وقت موجود نہ تھے جب ان کی باہمی قرعہ اندازی ہو رہی تھی اورجب حضرت مریم ؑ کو
بشارت دی جارہی تھی پس یہ غیب کی خبریں ہیں جو بذریعہ وحی کے ہم آپ کو بتارہے ہیں
یہ اس طرح ہے جس طرح حضرت یوسف ؑکا قصہ تمام ہوچکنے کے بعد ارشاد فرمایا:
ذَالِکَ مِنْ اَنْبَائِ الْغَیْبِ
نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ اَجْمَعُوْا اَمْرَھُمْ وَھُمْ
یَمْکُرُوْنَ
یہ غیب کی خبریں جن کی ہم آپ کو وحی کرتے
ہیں حالانکہ آپ اس وقت موجود نہیں تھے جب انہوں مکروفریب کا یہ معاملہ آپس میں طے
کیا تھا(سورہ یوسف)