التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

اصلاح نفس

اصلاح نفس

 اصلاح نفس



حقوق النفس کا پہلو صرف تعمیر کردار کے لئے عائد شدہ حدود و قیود اور فرائض و اعمال سے عہدہ بر آہونے  کے لئے ذمہ داریوں کو سمجھنے اور سلجھانے پر مشتمل ہے اور تعمیر کردار میں مثبت و منفی دونوں پہلوؤں کی رعایت نہ ہوتو مقصود تک رسائی صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتی ہے مثبت پہلو یہ ہے کہ انسان کو کیسا ہونا چاہیے ؟ اور منفی یہ ہے کہ انسان کو کیسا نہیں ہونا چاہیے پس وہ اوصف رزیلہ اور عادات خبیثہ جو صحیفہ انسانیت اور وقار شرافت کو داغدار کرتے ہیں ان سے بچنا ضروری ہے اور یہ تخلیہ کی منزل ہے اور وہ اوصاف جمیلہ اور عادات طیبہ جو انسان کو حضیض ناموت سے بلند کر کے اوج ملکوتی تک لے جانے کے لئے پیش خیمہ بنتے ہیں ان سے آراستہ ہونا انسانی شرافت کا تقاضا ہے تحلیہ کا مقام ہے پس عظمت کردار کے اس روشن میدان میں قدم رکھنے کےلئے عقل انسانی نظریاتی طور پر پوری بے چینی سے آمادہ رہتی ہے لیکن اپنے نظریات کو عملی جامہ پنچانے کےلئے اپنے گرد و پیش کی مخالف قوتوں سے یک بار ٹکرانا بھی اس کےلئے ایک عظیم جنگ لڑنے کے مترادف ہوتا ہے لہذا عقل کی مشکلات میں سے ایک مشکل یہ بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ تاسن بلوغ اپنی مخالف قوتوں میں دب کر رہنے اور قہراً خواہشات نفسایہ کے فیصلوں کو مسلسل قبول کرتے رہنے کے باعث اس کے اپنے نظریات میں بھی صحت و صداقت مخدوش ہو جاتی ہے اور فطری طور پر اگرچہ وہ پورے خلوص کے ساتھ انسانیت کے حق میں یہ صحیح فیصلہ چاہتی ہے تاہم بعض اوقات خواہشات سے مغلوبیت کی بناء پر لغزشوں کی امکان سے مبرا بھی نہیں قرار دی جا سکتی 

پس خداوند کریم نے اپنے کمال فضل و کرم اور لطف و احسان سے اپنی طرف سے ظاہری رسولوں اور نبیوں کا انتظام فرمایا اور ان کے بعد ان کی قائم مقامی کےلئے نائبین کا سلسلہ جاری کیا تا کہ ہر دور کے انسانوں کے لئے ان کی عقول کی خالق کائنات کی منشاء کے مطابق رہنمائی کی جا سکے تا کہ اوصالف رذیلہ اور اوصاف حمیدہ کو ان کی ہدایات کے ماتحت سمجھنے کے بعد عقل کی روشنی میں ذلت و پستی کی خاردار اور پر خطر وادی سے نکل کر عزت و رفعت کی پرسکون و پر بہار و پر امن فضا کی طرف منتقل ہو سکے پس ایسے عادات و اطوار سے بچے جو زمانہ بچپن میں جذبات سے وہیجانات نفسیہ کی پیداوار تھے جن کو اپنے چاہنے والوں کی ناز برداریوں کی بدولت قدغن نہ ہونے کی وجہ سے اپنا فطری حق اور آزادی نفس سمجھ بیٹھا تھا اور اسی کا نام تخلیہ ہے اور بد عادات سے گریز کرنے کے بعد ان اوصاف حسنہ کو اپنے اندر جذب کرے جو عقل کے عین مطابق ہیں اور خالق کائنات کے نمائندوں کے ذریعے سے انسان کو سمجھا دیئے گئے ہیں اور یہ ہے منزل تحلیہ اور اور اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ خواہشات نفس کے ساتھ عقل کی یہ جنگ ایک جہاد عظیم کا درجہ رکھتی ہے جو کفار و مشرکین و منافقین کے ساتھ ظاہری جنگوں کی بہ نسبت سخت تر ہے ۔

جس طرح ظاہری جسم کی زینت دینے کےلئے ضروری ہے کہ پہلے میل و کچیل سے اس کو پوری طرح صاف کر لے پھر عمدہ لباس زیورات اور خوشبویات وغیرہ سے اس کی زیب و زینت کا سامان کرے کیونکہ صفائی کے بغیر جسم کی آرائش ایک احمقانہ اقدام ہے یا جس طرح بیمار کی تندرستی  کےلئے دوا و غذا کے استعمال سے مضر اور نقصان دہ اشیاء سے پرہرز کا درجہ مقدم ہے ۔

مثال کے طور پر وہ زمین زرخیز جو مدت سے بنجر چلی آ رہی ہو اس میں قسم وقسم کے خاردار و نامناسب پودے اور جھاڑیاں پیدا ہو کر جہاں اس کی افادیت کو ختم کر دیتی ہیں وہاں وہ حیوانات صحرائی اور درندگان جنگلی کا مستقل مسکن بن کر انسانوں کےلئے ایک خطر نام وہشتناک اور قابل نفرت خطہ قرار پا جاتی ہے اب اگر کوئی باہمت انسان اسے ایک وادی حسین یا خوشنما و دلکش گلستان کی شکل میں ڈھالنا چاہے تو کافی محنت سے اسے  تمام نامناسب پودوں اور خاردار جھاڑیوں کو مناسب آلات و اسباب کی مدد سے ہٹانا پڑے گا پھر اس زمین کی ناہمواری کو ہل چلا کر آلات مناسبہ کے ذریعے سے دور کر کے اسے قابل کاشت بنانا ہوگا خواہ اس عمل میں اسے کس قدر ہی محنت یا مدت خرچ کرنا پڑے جب یہ کام پایہ تکمیل کو پنچ جائے تو مناسب موسم کے لحاظ سے اسمیں ستھرے اور نفع مند بیج کاشت کئے جائیں گے تب باران رحمت کا نزول زمین کی قوائے نامیہ کی صلاحیتوں کو اجاگر کر کے اسی اندوہناک خطہ ارض کو ایک قابل رشک سیر گاہ اور دلکش سبزہ زار کی حیثیت میں ڈھال دے گا پس وہی درنگان صحرائی کی آماجگاہ انسانوں کے لئے تفریح طبع کا موجب ہو گی اور خطرناک وادی ایک زرخیز اور سونا اگلنے والی زمین کہلائے گی اور تکوں کے بدلے میں بکنے والی زین اب زر و جواہر کی تھلیوں کے بدلے فروخت کے قابل ہو گی 

بعینہہ اسی طرح انسانی قوتیں اور مشاعر جو انسانی جسم میں خالق فطر کی جانب سے سموئے گئے ہیں جن کی بدولت انسان کو اشرف المخلوقات کے زرین تاج کے اہل قرار دیا گیا ہے بچپنے کی آزادیوں اور چاہنے والوں کی ناز برداریوں کی بدولت ہر قسم کے بے راہ رویوں کے ماتحت جذبات و خواہشات کا مرکز بن جاتی ہیں گویا معنوی طور پر انسانی وجود کی یہ فضیلت خیز اور شرافت آفرین زمین خواہشات و جذبات کی خاردار جھاڑیوں کے نشوونما کا مرکز بن جاتی ہے پس وقار انسان اور ناموس شرافت کے دشمن درندے غصہ کینہ لالچ جھوٹ حرام خوری بخل جلد بازی فساد و حسد وغیرہ وہاں اپنا مستقل مسکن بنا لیتے ہیں حتیٰ کہ متاع انسان شرافت حیا دیانت و متانت کا تصور بھی ادھر سے نہیں گذر سکتا جب سن بلوغ تک پہنچ کر عقل کی آنکھ کھلتی ہے تو متاع شرافت انسانیہ کا قابل کاشت رقبہ اور نماس کرامت بشر یہ کا قابل قدر ملکوتیت پذیر علاقہ اسے خطرناک و اندہناک بلکہ مسکن صفات درنگی نظر آتا ہے پس اگر عقل رسول ظاہری اور حجت معصوم سے ہدایات حاصل کر کے اس کی تعمیر کی طرف توجہ دے تو اس میں شک نہیں کہ اسے جہاد عظیم کا سامنا تو ہوگا لیکن اس کی خدادار فاتحانہ قوتیں ایک دن ضڑور اسے نفس مطمئنہ کے مرتبہ تک پہنچا دیں گی سب سے پہلے خواہشات و جذبات کے جنگلات کو متانت و شرافت کے آلات سے مناسب انداز میں کاٹنا ہو گا پھر ذہن و خرد کی قلبہ رانی سے اسے ہموار کرنا ہو گا چنانچہ صفات خبیثیہ و خسیسہ کی درندہ حیثیت یقیناً ختم ہو جائے گی اور عقل خدائی  نمائندگان کی ہدایات کی روشنی میں صفات جمیلہ اور عادات اصیلہ کی کاشت کریگی ادھر توفقیات الہیہ باران رحمت کی حیثیت سے برسیں گی اور قوائے انسانیہ اپنی خداداد استعدادات کے ماتحت اپنے جوہر نم و ارتقاء کو ظاہر کریں گی پس یہ زمین پر بسنے والا انسان اپنے ملکوتی صفات میں نمایاں ترقی کر کے عالم بالا کے سکان کے لئے قابل رشک ہستی بن کر ابھرے گا۔ 

از کتاب معیار شرافت

مصنف حسین بخش

صفحہ 9 تا 12، دوسرا ایڈیشن جنوری 1982


ایک تبصرہ شائع کریں