التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

عقل کی تخریب کاری یا تعمیر کاری

 عقل کی تخریب کاری یا تعمیر کاری

انسانی دماغ صفحہ گیتی پر جنم لینے کے بعد ابتدائی طور پر ایک ساکن و جامد چربی نما مادہ کی حیثیت سے کاسہ سر میں محفوظ ہوتا ہے جس میں ایک وقت معین کے بعد حرکت پیدا ہوتی ہے اور اس کے خلیوں میں احساس و شعور کی پوشیدہ قوتیں ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں گویا اس تاریک و تارفضا میں بیروانی اثرات کے دباؤ سے اندروانی تحریک کی بدولت قندیل دماغ میں نور عقل کی ایک شعاع جنم لیتی ہے جس میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور عقل عقل ہیولانی کے مرتبہ سے نکل آہستہ آہستہ عقلی مستفاد عقل بالملکہ اور عقل بالفعل کی منازل کو طے کرتی ہے گویا عقل ناتوانی سے توانائی تک تدریجاً پہنچ جاتی ہے جس زمانہ میں عقل بالکل ناتوانی کے عالم میں گوشہ ہائے دماغ کے تنگ و تار خلیوں میں چمک کو ذہنی فضا کے دھندلکوں میں ضیا پاشی کرتی ہے اس وقت جذبات و خواہشات کی تکمیل میں دنیا کا یہ نووارد مولود پورے طور پر مطلق العنانی سے خود بینی خود غرضی خود پرتی کا دلدادہ ہوتا ہے اور اس کے چاہنے واے اس کی جائز و جائز ہر آواز پر لبیک کہنے میں سرور محسوس کر رہے ہوتے ہیں لہذا اس کا نازک مزاج اور نازنین طبع تکمیل خواہش اور نفس پرستی کی راہ میں کسی بھی رکاوٹ کو برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں ہوتے کیونکہ وہ پوری طرح خواہش نفس کے ہاتھوں میں ایک کھلونے کی حیثیت سے ہوتا ہے لہذا عقل ناتواں کو نفسانی خواہش کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے پس جب عقل عالم شباب و توانائی میں قدم رکھتی ہے تو خواہشات نفسانیہ کے سامنے مسلسل اور طویل جھکاؤ کے بعد اس میں ہمت ہی نہیں رہتی کہ خواہشات نفس کے غلط فیصلوں کے سامنے صدائے احتجاج بلند کر سکے۔

ادھر رسول باطنی کی حیثیت سے وہ اپنے فرائض کو احساس بھی رکھتی ہے اور باقی مخلوق سے اپنی امتیازی شان کو بھی سمجھتی ہے لیکن قوائے جسمانیہ پر جن خواہشات و جذبات نے مدت سے قبضہ جما رکھا تھا ان کے قبضے کو چیلنج کرنا اور اسے لڑ بھڑ کر اپنا سکہ جمانا بھی ایک بہت بڑی ہمت کے بغیر نہیں ہو سکتا  تو عقل کے لئے اس دشوار گزار مرحلہ پر پہنچ کر دو راستے ہیں یا تو مستقل طور پر خواہشات کے سامنے جھک کر ان کے ماتحت زندگی کے لمحات بسر کرنے پر رضا مند ہو جائے اور یا اپنی خدا داد و قوت و قابلیت کے بل بوتہ پر خواہشات نفس کے ناجئز قبضہ کو چیلنج کر کے ان کے ساتھ نپٹنے کے لئے ہر ممکن ذرائع کو عمل میں لائے اور بالآخر انسانیت کو نفسانی قید و بند سے آزاد کرالینے کے بعد اسے روح انسانیت اور شرافت آدمیت کے بلندترین منازل تک لے جانے کی سعادت حاصل کرے۔

پس اس دوراہے پر اگر عقل کو صحیح قیدت میسر اگئی اور خدائی نمائندوں کی بدولت اسے اپنے صحیح فرائض کا احساس اور ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا جذبہ مل گیا تو وہ خواہشات نفس کے خلاف علم جہاد بلند کرنے میں بخل نہ کرے گا پس زمین انسانیت پر پیدا ہونے والی خواہشات و جذبات کی تمام خاردار جھاڑیوں کو اپنی دیانت و متانت و شرافت و نجابت کی افواج کی مدد سے کاٹ دے گا حتا کہ عادات رذیلہ و صفات روئیہ سے صفائی کر کے صفات جمیلہ اور عادات حسنہ سے اس کی تعمیر میں جان توڑ کوشش کر کے وجود انسانی کو عالم ملکوت کے باسیوں کی نظروں میں بھی ایک قابل رشک ہستی بنا دے گا کیونکہ عقل کی صحیح تربیت انسانی کردار میں تعمر کاری کا زینہ ہے

لیکن اگر خدانخواستہ عقل کو اس منزل پر صحیح قیادت دستیاب نہ ہو سکی اور خواہشات نفس  کی اسیری اس کا مقدر بن گئی تو یہی عقل خواہشات نفسل کی وکالت میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کرے گا پس خواہشات نفس کی ترجمانی میں وقار انسانیت اور شرافت آدمیت کو روند ڈالنے میں اپنا زور لگائے گا اور یہی وجہ ہے کہ عقل انسانی کی تربیت اگر ہادیان دین کی تعلیمات کی روشنی میں ہوتو خواہشات نفس سے جہاد کر کے تعمیر انسانیت میں وہ بترین کردار ادا کر سکتی ہے لیکن اگر  تربیت صحیح نہ ہوتو یہی عقل تخریب کاری میں بھی بھیانک اقدام کو موجب ہو سکتی ہے اسی لئے ذہین ترین انسان جس طرح صحیح خطور پر چل کر کے انسانیت کے لئے بہترین تعمر کار ہو سکتا ہے اس کے بر عکس ذہین ترین انسان ہی اگر غلط راستہ پر چل نکلے تو دنیا کا بد ترین تخریب کار بھی بن سکتا ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں