التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

جہاد اکبر

جہاد اکبر

حضرت رسالتمابؐ سے مروی ہے مضبوط انسان وہ ہے جو اپنے نفس کی عیب جوئی کرے اور مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ حضرت پیغمبرؐ نے ایک لشکر کسی محاذ پر بھیجا جب وہ فاتح ہو کر پلٹا تو آپ نے بطور تحسین و آفرین کے فرمایا ان لوگوں کے لئے جنہوں نے جہاد اصغر کا فریضہ انجام دیا کیونکہ جہاد اکبر ابھی ان کے ذمہ ہے لوگوں نے عرض کی حضور! جہاد اکبر کیا چیز ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ ہے اپنے نفس سے جہاد کرنا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے منقول ہے آپ نے فرمایا جو شخص رغبت خوف شہوت اور غصہ کے مقامات پر اپنے نفس کو پوری طرح اپنے قابو میں رکھے خداوند کریم نے ایسے شخص کے جسم پر آتش نار کو حرام کیا ہے ۔

دشمنان دین کے مقابلہ میں میدان کار زار میں جا کر لڑنے کا نام جہاد اصغر اور خواہش نفس کا مقابلہ کر کے بری عادات کا قلع قمع کرنے اور صفات حسنہ سے متصف ہونے کا نام جہاد اکبر ہے اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ دوسروں کو قوت بازو اور طاقت جسمانی کا مظاہرہ کر کے کلمہ حق کا قائل کرنا یا دینی اقدار کا پابند کرنا آسان ہے لیکن اپنے نفس کے ابھرے ہوئے جذبات و خواہشات پر کنٹرول کرنا اور اپنے غصہ کو ضبط کر کے تعلیمات اسلامیہ کے ماتحت نفس کو رام نہایت مشکل ہے جس کی معقول وجہ میرے گذشتہ بیان سے آشکار ہو چکی ہے کیونکہ جس طرح ایک طویل عرصہ تک ایک زمین کو بنجر چھوڑ دیا جائے تو اس میں نشیب و فراز اور خار دار جھاڑیاں اور غیر مقسود گھاس وغیرہ کا پیدا ہونا قرین قیاس اور مطابق واقع ہے پس ایسی حالت میں وہ زمین جنگلی حیوانات اور خونخوار درندوں کا مسکن بن جاتی ہے حتا کہ راہگذاروں کے لئے  اس کے پاس سے گذرنا بھی دشوار ہوجاتا ہے اسی اندازہ سے انسانی بچہ روز پیدائش سے تاسن بلوغ مطلق العنان حکمران کی حیثیت سے زندگی گذارتا ہے اور اس کے چاہنے والے اس کی ہر جائز و ناجائز بات پر تحسین و آفرین کی آوازیں بلند کر کے اس کی ہمت بڑھاتے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے چلے جاتے ہیں حتا کہ اس کا نفس ایک بد لگام اور بے مہا حیوان کی طرح اپنی ہر خواہش کی تکمیل کو اپنا فطری و پیدائشی حق تصور کرنے لگتا ہے اور اس غیر معمولی مدت میں اس کے وجد کی کردار آفرین زمین صفات حسنہ اور اعمال صالحہ سے محروم ہو کر پوری طرح بنجر ہو جاتی ہے پس اس کی ناہمواری اور خواہشات و جذبات ناشائستہ کی بے روک ٹوک فراوانی غصہ کینہ ظلم بغض اور حسد وغیرہ جیسی خونخوار درندہ صفات کا اس کو مسکن بنا دیتی ہے اور عقل قبل از بلوغ جب اپنی ناتوانی کے زمانہ میں مملکت انسانیہ پر افواج جہالت کی یلغار کا معائنہ کرتی ہے تو اپنی بے بسی کے پیش نظر جہالت کی ظالمانہ حکومت اور اس کی افواج کے استبدادی رویے سے مرعوب ہر کر اس سے مقابلہ کرنا تو درکنار اس کی آنکھ میں آنکھ ڈالنے کی بھی جرات نہیں کر سکتی بلکہ اس کی ہاں میں ہاں ملاتی ہے کیونکہ اس کے ہر فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کئے بغیر اس کےلئے کوئی اور چارہ کار بھی نہیں ہوتا۔

پس عالم شباب میں قدم رکھنے کے بعد ہادیان برحق کی ہدایت کے ماتحت جب اپنی زندگی کے قیمتی مقصد کو دیکھتی ہے اور وجود انسانی پر جہالت کی اجارہ داری کا بھی جائزہ لیتی ہے جو انسان کو اپنے مقصود اصلی سے غافل کر کے کسی ناموزوں اور غیر مناسب انجام تک پہنچانے کی موجب ہے تو اب عقل کے سامنے علی الترتیب دو مرحلے ہیں پہلا یہ کہ مدت مدید تک جہالت کے جن فیصلوں کو اپنی بے بسی کے زمانہ میں حق کہہ کر تسلیم کر چکی ہوتی ہے اور جن جاہلانہ نظریات کی تصدیق کر چکی ہوتی ہے اور خاندان یا ماحول کے زیر اثر جس مسلک و مذہب کو زندہ باد کے نعروں کا مستحق قرار دے چکی ہوئی ہے یا گردو پیش کی ہاؤہوسے متاثر ہو کر جس سیاسی تحریک کو ملک و ملت اور قوم دو وطن کے لئے مفید سمجھ چکی ہو تی ہے ان کے خلاف زبان کشائی کرنا اور اپنی سابقہ روش کو غلط قرار دینا اور اپنے سابق مسلک کو زندہ باد کے بجائے مردہ باد کا مستحق قرار دینا اس قدر بھیانک دلدل ہے جس میں پھنسےنے کے بعد خیریت سے نکل آنا انتہائی کٹھن اور مشکل مرحلہ ہے میدان عمل میں قدم رکھنا اور نظریاتی و عملی طور پر میدان جہاد میں کود پڑنا اور یہ پہلے مرحلہ سے بھی کٹھن اور مشکل تر ہے اور یہ جہاد اکبر ہے گویا قبل از بلوغ کے عادات ونظریات استقلالی طور پر عقل سلیم کے فیصلے ماتحت نہیں ہوتے بلکہ ان پر خواہشات و جذبات کا سایہ ہوتا ہے خواہ وہ نفس امارہ کی پیداوار ہوں یا خاندان و ماحول و تربیت کاشاخسانہ ہو یا گروپیش کی ہاؤ ہو کا نتیجہ ہوں ہاں بعض عادات و نظریات مبنی برصحت بھی ہوتے ہیں جن کو عقل سلیم بعد از بلوغ بھی تسلیم کر کے ان پر مہر تصدیق ثبت کر دیتی ہے اور وہ یا تو ذاتی و فطری رجحان کی بدولت ہوتے ہیں یا حسن تربیت کا نتیجہ قرار دئیے جا سکتے ہیں پس عقل بعد از بلوغ صحیح نظریات اور اچھی عادات کو مملکت انسانیہ میں اپنا پایہ تخت قرار دیکر اسی مملکت میں رونما ہونے والے غلط نظریات اور بری عادات کو چلینج کر کے ان سے نبرد آزما ہو تو یہ اس کا نام جہاد اکبر ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں