التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

خوف و رجا

بکثرت احادیث محمدؐ و آل محمد علیہم السلام سے وارد ہیں کہ مومن کا یمان خوف اور رجا کے دونوں پہلوؤں میں ہوتا ہے پس مومن وہ ہے جس کے دل میں جس قدر خوف خ

بکثرت احادیث محمدؐ و آل محمد علیہم السلام سے وارد ہیں کہ مومن کا یمان خوف اور رجا کے دونوں پہلوؤں میں ہوتا ہے پس مومن وہ ہے جس کے دل میں جس قدر خوف خدا ہو اسی قدر امید رحمت بھی ہو اگر دل میں خوف ہو اور امید رحمت نہ ہو تب بھی مومن نہیں ہوتا اور برعکس اس کے اگر امید رحمت ہو اور اس کی گرفت کا کوئی ڈر نہ ہو تب بھی مومن نہیں ہوتا اسی بناء پر اللہ کی گرفت سے نڈر ہونا اور اللہ ی رحمت سے مایوس ہونا گناہان کبیرہ میں سے ہیں چنانچہ جب ھمام نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے متقین کے اوصاف بیان کرنے کی درخواست کی تھی تو مولائے کائنات نے اپنے ایک تفصیلی بیان میں متقین کے اوصاف بیان فرمائے جن کا حال اور باز گشت انہی دو پہلوؤں کی طرف ہے یعنی متقی وہ ہوتا ہے کہ خوف جہنم اور گرفت پروردگار کا تصور اس پر اتنا غالب ہو کہ گویا جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلے اس کی آنکھوں کے سانے ہیں اور جہنمیوں کی چیخ و پکار اور فریاد واویلا اس کی کانوں میں پہنچ رہے ہیں اور اس کی گرمی سے اس کا بدن جھلسا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ امید بخشش اور طمع جنت کا تصور اس قدر ہو کہ گویا نسیم جنت کی خوشبو اس کے مشام سے آ رہی ہے اور نعمات جنت سے وہ بہرہ ور ہو رہا ہے ۔

اور اس میں شک نہیں کہ خوف کا درجہ رجا سے مقدم ہے کیونکہ خوف آنے والے خطرات و مصائب کے تصور سے ہوتا ہے اور رجا رحاصل ہونے والے منافع و فوائد کے تصور کی بناء پر ہوتی ہے اور عقلاء کے نزدیک حاصل ہونے والے نفع کی بہ نسبت رونما ہونے والی مصیبت سے بچاؤ کا سامانا مہیا کرنا زیادہ اہم و ضروری ہوا کرتا ہے تو گویا مقام خوف کے مقدم ہونے کا مقصد یہ ہے کہ انسان نفس کی ان غلطیوں اور لغزشوں سے کنارہ کشی کرے جو آنے والے مصائب کا پیش خیمہ ہوں اور پھر ایسے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے جو آنے والے منافع کا شبب ہوں پس غلطیوں سے رکنا جہنم سے نجات حاصل کرنے کا پروانہ ہو گا اور نیکیوں کی بجآواری جنت میں داخلہ کی ٹکٹ ہو گی پس عملی طور پر متقی لوگ ہی ہو سکتے ہیں جو نا مناسب کردار سے بچنے والے ہوں اور مناسب و موزوں عادات و اطوار سے آراستہ ہونے والے ہوں پس خوف و رجا کے درمیان مومن کے ایمان کی تحدید اسی نکتہ کے پیش نظر ہے۔

قرآن میں اتقو و احسنوا کی بندش بھی اسی مقصد کو ظاہر کر رہی ہے کیونکہ اتقوا لغوی معنی کے اعتبار سے منزل خوف کو ظاہر کرتا ہے اور احسنوا منزل رجا کا پیش خیمہ ہے گویا تکمیل انسانیت کے لئے رفتار عمل اسی طریق سے ہونی چاہیے کہ ہپلے نفس کو منزل خوف پر لاکھڑا کر کے تمام ان اوصاف خسیسہ سے گریز کرے جو ناراضگی پروردگار کی موجب ہیں اور جہنم تک جانے کی محرک ہیں اس کے بعد پھر وجود انسانی کو نیکیوں کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوشش کرے جو اہل جنت کے شایان شان ہیں اور رضائے پوردگار کا زینہ ہیں اور واللہ یحب المحسنین کا جملہ اللہ کی خوشنودی حاصل ہوجانے کی سند کی حیثییت رکھتا ہے ۔

نیز ارشاد پروردگار یا ایھا الذین امنو اتقوا اللہ و کونو مع الصادقین اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہو جاؤ۔ بھی اسی مقصد کی دوسری تعبیر ہے کہ تعمر کردار میں غلطیوں اور برائیوں سے بچنا پہلے ہوتا ہے اور صادقین کی ہدایات کے ماتحت اوصاف حسنہ سے آراستگی کی نوبت بعد میں آتی ہے کیونکہ صفائی کا درجہ آرائش سے مقدم ہے اور بیماری کا علاج کرنا اور تندرستی  حاصل کرنا غذا کی افادیت کا مقدمہ اور پیش خیمہ ہوا کرتا ہے ۔


ایک تبصرہ شائع کریں