التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

مزید تشریح

مزید تشریح

مقصد یہ ہے کہ ہر انسان فطری طور پر اپنے اندر ہر بری صفت کے اپنانے کی قوت اور جذبہ رکھتا ہے لیکن س کے مقابلہ میں عقل کے پاس اس کا متبادل انتظام بھی خالق فطرت کے فیض عظیم کا مرہون منت ہے بلکہ جس طرح فرمان ہے ۔ و سعت رحمۃ غضبہ یعنی اس کی رحمت اس کے غضب سے وسیع ہے اسی طرح عقل انسانی پر صفات حسنہ کی افواج کی فیاضی اس کی رحمت بےپایاں اور فضل نمایاں کی ناقابل فراموش دلیل ہے اور اس کی بدولت ہی تو انسان کو باقی تمام مخلوقات کے مقابلہ میں تاج کرامت کا اہل قرار دیا گیا ہے۔

صفحہ ہستی پر جنم لینے کے بعد ابتدائیں چونکہ عقل ایک سر بمہر خزانہ کی طرح دماغ کے خلیوں اور پردوں میں مکتوم و محفوظ بلکہ ساکن و ساکت ہوتی ہے اور اعضاء جسم کی تردریجی ترقی کے ساتھ ساتھ اس میں حرکت نمودار ہوتی ہے اور دماغ کے پردوں سے جھانک جھانک کر کبھی کبھار وہ مملکت جسم میں ہونے والی ان دھاندلیوں کا جائزہ لیتی رہتی ہے جو جہالت کی افواج کی پیداوار ہوتی ہیں لیکن اپنی انتہائی ناتوانی سے بے بس ہو کر اس کا ایکش لینے کی جرآت نہیں کرتی اور جسم کے سن بلوغ تک پہنچتے پہنچتے عقل بھی جوانی کے میدان میں قدم رکھتی ہے لیکن اس سفر میں باوجود خاموش رہنے کے مملکت انسانی کے اندر واقع ہونے والی ہر خرابی اور افواج جہالت کی لائی ہوئی ہر غلط پالیسی کا نوٹس لے چکی ہوتی ہے پس اس مرحلہ پر اگر اس کو صحیح قیادت مل جائے اور حکومت الٰہیہ کے معصوم نمائندگان کی ہدایت سے بہرہ اندوز ہو جائے تو عقل کو مقصود زنگی بھی نظر آ جاتا ہے اور اپنی افواج کی طاقت کا اندازہ کر کے اس میں افواج جہالت سے ٹکرانے کا جذبہ بھی تیز سے تیز تر ہو جاتا ہے کیونکہ بچپنے میں عقل خود بھی بے بس اور دم بخود تھی تو اس کی افواج و عساکر بھی دم بخود تھے پس جہالت اور اس کی افواج بچپنے میں بلا مقابلہ مملک جسم پر قابض تھے گویا حرص و ہوس بخل و غفلت اور جلد بازی بلکہ تمام اوصاف خسیسہ کا دور دورہ تھا اب جو عقل نے آنکھ کھولی اور وہ سمجھی کہ اس مملکت کا پایہ تخت میری جاگیر ہے اور جہالت ناجئز طور پر قابض ہے تو اس نے اپنی طاقت اور افواج کی پختگی و عظمت کا جائزہ لے کر حکومت جہالت کو چلینج کر دیا (بشرطیکہ اس کی قیادت خدائی نمائندوں کے ہاتھ میں ہو)

یہ یاد رکھئے کہ جاہلانہ صفات منفی پہلو ہیں جبکہ عاقلانہ صفات انسانی کردار میں مثبت پہلو کا درجہ رکھتی ہے یعنی عقلی صفات وجودی ہیں اور جہالت کی صفات عدمی ہیں ۔۔۔ مثلاً علم و جہالت میں سے علم مثبت اور جہالت منفی حیثیت رکھتی ہے جس طرح روشنی کے مقابلہ میں تاریکی اور یہ ظاہر ہے کہ جب مثبت و منفی کا مقابلہ ہو تو کبھی منفی پہلو مثبت پہلو سے ٹکرایا نہیں کرتا بلکہ مثبت کو دیکھتے ہیں وہ میدان چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے جس طرح علم کے آتے ہی جہالت خود بخود بھاگ جاتی ہے روشنی کو دیکھتے ہی تاریکی خود بخود کافور ہو جاتی ہے اور حیا کے آتے ہی بے حیائی اپنی موت خود مرجاتی ہے و علیٰ ہذا القیاس پس افواج عقل کے مقابلہ میں افواج جہل کا انا صرف افہام و تفہیم کے لئے ہے ورنہ جب افواج عقل مملکنت انسانی میں پیش قدمی کرتی ہیں تو افواج جہالت خودبخود میدان چھوڑ کر بھاگ جاتی ہیں بلکہ اپنی موت خود مرجاتی ہیں ۔

لہذا افواج عقل کے لئے افواج جہل سے ٹکر لینے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ۔

البتہ مشکل یہ ہے کہ عرصہ شباب میں قدم رکھتے تک یا عقل کے اپنی افواج کی کمان سنبھالنے کے عرصہ تک جو اس مملکت میں افواج جہالت نے دھاندلی مچائی ہوئی تھی حتا کہ خواہش نفس نے انسانی قوتوں کو جہالت کے زیر سایہ رہ کر اپنا مطیع و فرمانبردار بنایا ہوتا تھا اس کے اثرات کو یکسر ختم کر دینا اور ان کے مزاج کو فوراً بدل دینا اس عمل و اسباب کی دنیا میں اگر محال نہیں تو دشوار ضرور ہے اس لئے عقل کی تمام افواج کا بیک وقت اپنے اپنے مخصوص محاز کا رخ کرنا ظاہراً اشدنی امر ہوتا ہے پس انبیاء و اوصیاء کے لئے تو یہ بات اس لئے مشکل و دشوار نہیں کہ وہ ابتداء ہی سے جہالت اور اس کی افواج کی دسترس سے بحفظ خدا مامون و مصون ہوتے ہیں لیکن عام انسانوں کے لئے یہ امر وقت طلب ہے پس سب سے پہلے آسان ترین محاز پر قدم جمانا ہوگا پھر رفتہ رفتہ بڑھتے بڑھتے پوری مملکت پر قبضہ جمانے کی نوبت آئے گی کیونکہ ہر صفت خیر آمد صفت شر کی موت کا باعث ہو گی اور مومن وہ ہے جو نیکیوں کی طرف قدم بڑھاتا رہے پس اس کے وجود سے تدریجاً برائیاں ختم ہو جائیں گی یہاں تک کہ وہ اپنے مقصود اعلیٰ تک پہنچ جائے گا جو ارتقاء انسانی کی آخری منزل ہے اور افواج عقل کی افواج جہل کے ساتھ جنگ کا دوسرا نام جہاد اکبر ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں