التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

انسان زندگی کی پہلی منزل میں

انسان زندگی کی پہلی منزل میں

انسان زندگی کی پہلی منزل میں

فرزند آدم جب کتم عدم اور پردہ نیستی سے منصہ شہود اور صفحہ ہستی پر قدم رکھتا ہے تواس کی آنکھ بالکل ایک نئے اور اجنبی ماحول میں کھلتی ہے جب کہ نہ اس کے مشاعر و حواس میں سمجھنے کی اہلیت ہوتی ہے اور نہ اعضائ  و جوارح میں گردو پیش کے ناموزوں حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور نہ موزوں و مناسب اشیاء کے استعمال کا طریقہ اسے معلوم ہوتا ہے ۔

شکم مادر سے جنم لینے کے بعد اس کی زندگی صرف اپنے چاہنے والوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونے کی حیثیت سے شروع ہوتی ہے جو اسے ہر لحاظ سے خوش رکھ کر اپنے لئے تسکین جذبات و محبت کا سامان فراہم کرنے میں سرور محسوس کرتے ہیں آہستہ آہستہ اس کے شعور و احساس میں حرکت و بیداری پیدا ہو کر روز افزوں رو بترتی رہتی ہے پس وہ اپنے فطری خدا داد قویٰ و جوارح کے خواس کی بدولت جذب مناسب اور دفع منافر کا جذبہ اپنے اندر محسوس کرنے لگتا ہے لہذا ہر وہ شئے جو اسے پسند ہو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتا ہے ماں باپ اور اس کے باقی تمام چاہنے والے اس کی کسی خواہش کو ٹھکرانا اپنی محبت کی توہین سمجھتے ہیں پس ہر وہ کھلونا مہیا کرنا ضروری سمجھتے ہیں جاس کے لئے جاذب نظر ہو ہر وہ آواز اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بچے کا کان مانوس ہوں اس کے ماکول و مشروب میں ہر اس چیز کو لانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے اس کی نشو و نما کے ساتھ ساتھ اس کے ذوق کی مناسبت موجود ہو اور اس کی تن آسانی کےلئے ہر ممکن طریقہ سے ہر ممکن الحصول سامان سہولت فراہم کرنے میں بخل نہیں کرتے گویا اس کی زیبائش آسائش کےلئے اپنی حسب حیثیت کسی قسم کی کوشش سے دریغ نہیں کرتے ۔

اپنے چاہنے والوں کی ناز برداریوں کو بچہ بھی پوری طرح محسوس کر لیتا ہے پس وہ بھی اپنی من مانی منوانے میں سرور محسوس کرتا ہے اور اپنے ہر مطالبہ پر ڈت کر اسے ہر قیمت پر منوا لینے میں اپنی ذہنبی فتح سمجھتا ہے پاس اس کے اندر جذبہ خود پرستی خود غرضی خود کوشی خود بینی خود نماز خود سنائی اس کی زندگی کی منازل کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا جاتا ہے پس ہر مرغوب کا حاصل کرنا اور ہر نا پسند کو دور کرنا وہ اپنا فطری حق سمجھتا ہے خواہ اس کے حصول مقسد کے ذریع جائز ہوں یا نا جائزحتا کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کےلئے معمولی سے دیر بھی گوارا نہیں کرتا لہذا متانت، صبر ،حوصلہ، ایثار، سخاوت ،فکر، صلاح ،شرافت ، سچائی، شرم ، حیا ، دیانت ، امانت، حلال وغیرہ تمام اچھی صفات جو اس کی نفس پرستی اور عیش کوشی کے راستہ میں سنگ گراں بننے والی ہوں کو اپنی آزادی کا دمشن سمجھتے ہوئے ان سے گریزاں رہتا ہے اور ان کے مقابلہ میں چھر چھر اپن ، جلد بازی، لالچ، بخل ، بے فکری، فساد، گالی گلوچ ، جھوٹ ، بے شرمی ، بے حیائی ، بد دیانتی ، خیانت ، حرام وغیرہ تمام اوصال بد حواس کی عیاشی طبع کےلئے ممد ومعاون ہوں کو اپناتے ہوئے زندگی کی منازل میں قدم بڑھاتا چلا جاتا ہے پس وہ اپنی مرغوب چیز کی تحصیل میں نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے ہر اس صفت بد کو اپناتا ہے جس سے اس کی مطلب براری آسان ہو مثلاً پہلے تو حکم کر کے مانگے گا پھر منت سماجت سے کرے گا اور رو کر مانگے گا اگر کام نہ چلا تو جھوٹ بول کر حتا کہ لڑ بھڑ کر مطلب نکالنے کی کوشش کرے گا اور آخر میں چوری کر کے اپنا کام چلائے گا اور اپنے گھر سے مطلب پورا نہ ہو تو ہمسایہ سے مانگ کر یا چوری کر کے اپنی نفس پرستی کی عادت کو پورا کر ے گا اور اس کی غلط کاریوں کو اس کے چاہنے والے اس کے بچنے کے دامن میں جگہ دیکر چشم پوشی کر لیتے ہیں جس سے اس کے حوصلے بڑھتے جاتے ہیں اور عالم شباب تک پہنچتے پہنچتے وہ پوری طرح حرص و ہوس کا بندہ بن جاتا ہے ۔

ادھر دماغ میں عقلی شعور و احساب جب متحرک ہوتا ہے تو پہلے صرف بدیہیات ودواضحات تک محدود رہتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کے اندر اپنے معلومات کو بڑھانے کا جذبہ تیز سے تیز تر ہوتا چلا جاتا ہے اور کچھ وقت کے بعد اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ میرا یہ مطالبہ  غلط ہے یا صحیح لہذا اپنے غلط اقدامات کو اپنے چاہنے والوں سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے اور صحیح افعال کو نمایاں طور پر پیش کرتا ہے تا کہ اس کے ساتھ محبت کرنے والوں میں اس کی چاہت مزید بڑھے اور وہ اس کی ناز برداری میں مزید دلچسپی کا اظہار کریں دس برس کی عمر میں بچہ طفل ممیز کہلاتا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اچھی اور بری کا سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے لیکن اس کی ناتواں عقل اس کی نفسی خواہشات و جذبات میں کنٹرول لانے سے قاصر ہوتی ہے لہذا وہ خواہشات نفس کا مقابلہ کرنے کے بجائے ان کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنی آزادی کے تصور سے بے نیاز ہوتے ہوئے مکمل طور پر ان ان کے قیدی کا روپ دھار لیتی ہے  پس خواہشات کے ہر غلط فیصلے پر تنقید کرنا تو بجائے خود اپنی ضمیر و غیرت کے خلاف اسے اپنانے میں اپنی بھلائی سمجھتا ہے گویا طائر عقل خواہشات نفس کے آہنی پنجرے  میں مستقل طور پرایک قیدی کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے جب انسان سن بلوغ کو پہنچتا ہے جس کی حد مرد کے لئے پندرہ برس ہے تو اس کی عقل میں بھی نیک و بد کی پہنچان کی پوری صلاحیتیں موجود ہو جاتی ہیں پس وہ اپنے آپ کو ایک قیدی کی حیثیت سے دیکھتی ہے  جس کے گرد خواہشات نفس کی ناقابل شکست سلاخوں کا ایک پنجرہ ہو جن کو توڑ کر نکلنا اور آزادی کے ماحول میں قدم رکھ کر آگے بڑھنا اس کے لئے نا ممکن ہو تا ہے ۔

لیکن اس دور میں یہ عقل ، عقل ناتواں نہیں ہوتی بلکہ توانا ہوتی ہے وہ صحیح فیصلہ کر کے خواہشات ہفس کے جذباتی پنجرہ کی جس سلاخ سے ٹکرائے اس کو توڑ سکتی ہے اور شرعی حیثیت سے انسانی عقل کو رسول باطنبی بھی نام دیا گیا ہے اور جس تاریک ماحول میں کسی رسول کو نور ہدایت کی ضیا پاشیوں کےلئے مبعوث کیا جاتا ہے اسے ایسی صلاحیتوں سے آراستہ اور تمام ایسے ہتھیاروں سے مسلح کر کے بھیجا جاتا ہے جن کی اس تاریک اور مخالف ماحول میں ضرورت محسوس کی جا سکے

ایک تبصرہ شائع کریں