التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

عدل قضا و قدر

عدل قضا و قدر

عدل

توحید کے ساتھ ساتھ یہ اعتقاد رکھنا قرین عقل ہے کہ خدا وندکریم ظالم نہیں بلکہ عادل  ہے اور لوگوں کو بھی عدل وانصاف کا حکم دیتاہے  پس بروز محشر اپنے عدل سے گنہگاروں  اور نافرمانوں کو جہنم  میں ڈالے گا اور اپنے فضل وکرم سے نیک لوگوں کو جنت عطافرمائے گا

قضاء وقدر یعنی جبرواختیار

مسلمانوں میں جبر یہ وقدریہ  دو فرقے ہیں جبر یہ صرف جبر وقضاء کے قائل ہیں یعنی قضاء اللہ کے ہاتھ میں ہے اور انسان بالکل مجبور ہے  گویا نیکی یابرائی میں اس کو کوئی اختیار حاصل نہیں کیونکہ خیر وشر اللہ کی جانب سے ہیں انکے مقابلہ میں قدریہ صرف قدر واختیار کے قائل ہیں یعنی اپنے تمام افعال

میں مختار کل ہے اور قضاوجبر کو انسانی افعال میں کوئی دخل نہیں ہے شیعہ مذہب کی رو سے یہ دونو نظریئے  باطل اور غلط ہیں بلکہ شیعہ مذہب یہ ہے لا جبر ولا تفریض بل امر  بین الامر ین  یعنی نہ انسان بالکل مجبور ہے اور نہ مختار کل ہے بلکہ دونو کے میں ''''ہے  اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ تمام افعال کے بجالانے کےلئے بنیادی قوتیں اللہ کی عطاکردہ ہیں اور ان قوتوں کے استعمال میں انسان کو اختیار دیا گیا ہے چنانچہ نماز میں کہا جاتاہے باحواللہ وقوتہ اقوم واقعد یعنی اللہ کے حول وقت سے میں قیام وقعود کرتاہوں حول وقت خدا کی طرف سے ہے اور قیام وقعود بندے کافعل ہے

جبریہ اور قدریہ دونو فرقوں پر بعض اوقات قدریہ کا اطلاق کیا گیا ہے  اور ان دونو کے مقابلہ میں شیعہ فرقہ کو عدلیہ کہاجاتاہے کیونکہ عدل پروردگار کا تقاضایہ ہے کہ انسان کو اپنے افعال نیک وبد میں مختار ہونا چائیے  پس ہمارے نزدیک جبریہ کا قول باطل ہے کیوں ؟"

کیونکہ ان کے قول سے عدل پروردگار کی نفی لازم آتی ہے اور قدریہ کا قول  بھی باطل ہے کیونکہ اکےقول سے قضاء پروردگار کی نفی لازم آتی ہے چنانچہ حدیث فارسی میں وارد ہے من لم یرض بقضائی ولم یصبر علی بلائی فلیعبف ربا سوای ولیخرج من ارضی وسمائی  یعنی جو شخص میری قضا پر راضی نہ ہو اور میری آزمائش پر صبر نہ کرے تو اسے چاہئے کہ کسی اور پروردگار کی عبادت کرے اور میرے زمین وآمان سے نکل جائے

ایک انسان پوری محنت اور جدوجہد سے ایک زمین کو آباد

کر کے اس میں اچھے بیج کی کاشت  کرتاہے جس  سے اس کوکافی آمدنی کی توقع ہوتی ہے لیکن فصل کی برداشت کے موقع پر کسی آفت ناگہانی کی بدولت اس کا سارا فصل یاکچھ حصہ تباہ ہوجاتاہے تو یہ دو نتیجے بالکل واضح ہیں ایک ہے انسان کی محنت  اور کدوکاوش کا نتیجہ جو متوقع  تھا اور دوسرا  ہے قضاء پروردگار کا نتیجہ  جو فصل  کی تباہی کی صورت میں ظاہر  ہوا پس اس مقام پر انسانی فطرت اورعقل  دانش کا صحیح  فیصلہ یہ ہے کہ قضاء پروردگار کا نتییجہ  ہمارے اختیاری افعال کے نتیجہ  پر غالب ہے یعنی ہم کچھ سوچتے ہیں اور نتیجہ کچھ ہوتا ہے گویا ہمارے ظاہری اسباب  وذرائع  پر ایک مخفی طاقت غالب ہے جو ہمارے متوقع نتائج کو بدل سکتی ہے اور وہی خدا ہے جس کا فیصلہ ہر فیصلے پر غالب ہے اور اس کے فیصلہ کےسامنے سرتسلیم خم کرنا یہ دانشمند کا فریضہ ہے  بعض  اوقات ہمارے متوقع نتیجہ کے مطابق اسکا فیصلہ ہوتاہے تو ہم خوش ہوتے ہیں اور بعض اوقات اس کا فیصلہ ہماری توقعات کے خلاف ہوتاہے جس سے ہم گھبراجاتے ہیں  اور دونو حالتوں  میں اس کی قضاء پر راضی  رہنا بہت بڑی ایمانی جرات ہے بہر کیف اس خلاف توقع نتائج  کے باوجودعقل وخرد ہاتھ  دھر کر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتی اور نہ انسانی فطرت اس مایوسی کو گوارا کرتی ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس انسان کی ایک ناگہانی آفات کے ماتحت فصل تباہ ہوجاتی ہے وہ پھر دوبارہ بھی اپنی پوری سمنگوں اور امیدوں کےساتھ اسی زمین کی کاشت کرتاہے اور قضاکے نتائج سے بے نیاز ہوکر پوری محنت وہمت کو کام میں لاتاہے  اور بسااوقات  اسکو توقعات سے بھی زیادہ اس کو محنت کا پھل نصیب ہوتاہے جس سے اس کی پہلی کوفت  بھی دور ہوجاتی ہے اورزندگی کے ہر شعبہ میں  انسانی کدوکاوش پر تقدیر اور قضا کی بالا تری کاکوئی بھی انکار نہیں کرسکتاپس  کوئی بھی کاروباری انسان اپنے اختیارات میں قضاکی بالادستی کرنہیں ٹھکراسکتا اور کوئی بھی قضاء کو تسلیم کرنے کے بعد قضا کے ڈر سے ہاتھ پر ہاتھ دھر کے کاروبار کو ٹھپ کرنے  کا بھی قائل نہیں ہوتا اسی طرح حفظان صحت  کےتمام تراصولوں کی پاسداری کے باوجود اچانک بیماری میں مبتلا ہونے والا انسان قضاکے فیصلے کا کیسے انکار کرسکتاہے ؟ یازندگی کی حفاظت میں ہر ممکن ومناسب تدابیر پر عمل کرنے کے باوجود اچانک موت کوکیسے  ٹھکرایا جاسکتاہے  لیکن اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ تقدیر  وقضا کے ان اچانک فیصلوں سے گھبرا کر انسان حفاظتی  تدابیر کو بھی نظر انداز کردے  

جبریہ لوگوں نے تقدیر وقضا کے اچانک ناکہانی فیصلوں سے گھبرا کر اپنے اختیارات  کاسرے سے انکار کردیا اورکہے دیاکہ ہر نیکی یابدی اللہ کی جانب سے ہے اور انسان مجبور محض ہے حالانکہ  یہ بالکل خلاف عقل اور غلط ہے اور اس سے عدل پروردگار کی نفی ہوتی ہے کیونکہ اگر نیکی اور بدی دونو اللہ کی حرف سے  ہوں تو جنت یاجہنم کا استحقاق فضول ہے  اورگنہگار  کو جہنم   میں ڈالنا ضلم  ہے جبکہ گنہگار کو گناہ  کرنے میٰں مجبور مانا جائے

قدریہ لوگوں  نے انسان کی تگ ودواور کدوکاوش کو سامنے رکھا اور قضاء پروردگار  کی بالادستی کو بھول گئے پس ہمارا عقیدہ بین بین ہے  کہ قضابھی حق ہے اور ختیار بھی درست ہے پر انسان جن جن امورمیں خود مختار ہے ان میں نیکی کرنے پر وہجنت کا مستحق ہوگا اور گناہ کرنے پر وہ جہنم کا سزاوار ہوگا اچھی زندگی کے کاروبار میں اپنی تمدنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا اس کےفرائض میں سے ہے اور قضا کے فیصلوں کےسامنے سرتسلیم خم کرنا اس کی بلندہمتی اور ایمانی سلامتی کی دلیل ہے اور خداوندکریم خود بھی عادل ہے اور اپنی تمام مخلوق سے عدل وانصاف چاہتاہے  ہم نے اس مسئلہ پر اپنی ممختلف نصانیف میں بحث  کی ہے مثلا تفسیر انوار النجف جلد دوم 54پر ملاحظۃ فرمائیں اور حسب مواقع دوسری جلد وں میں بھی یہ بحث موجود ہے ہر کتاب عقائد لمعتہ الانوار میں بھی اس موضوع پر سیر حاصل تبصرہ کیا گیا ہے اور اسلامی سیاست میں عدل کے باب میں اس پرکافی روشی ڈالی گئی ہے شائقین حضرات کو مطالعہ کی دعوت دی جاتی ہے

ایک تبصرہ شائع کریں