التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

آل محمؐد کا مقام

آل محمؐد کا مقام

آل محمؐد کا مقام

حضرت علیؑ سے حضرت حجتہ العصرؑ عج تک بارہ امام ہیںجو یکے بعد دیگرے حضرت محمد مصطفؐے کے صحیح قائمقام  اورجانشین ہیں لہذاگذشتہ  تمام انبیاء سے افضل واکمل ہیں اور انبیاء چونکہ باقی نوری وخاکی اور علوی وسفلی مخلوقات  سےافضل ہوتے ہیں لہذا محمد وآل محمد علیہم السلام  کی کل جائناتومخلوقات سے اعلیٰ واشرف ہیں اور تمام موجودات عالم کی سلطانی کاتاج ان کےسر پر ہے پس وہ اللہ کی اعلیٰ وافضل مخلوق ہیں اور اللہ ومخلوق کےدرمیان کامل وسیلہ ہیں

عزاداری 

چونکہ عقل کا اہم  اور اٹل فیصلہ ہے کہ جہاں ہادیان دین کی  کی رہبری میں انسان اوصاف رذیلہ سے بچتے ہوئے  خصائل حمیدہ کو اپناکر اللہ کے نزدیک  اپنا صحیح  مقام قرب حاصل کرے وہاں ان ہادیان  برحق کی یاد کو تازہ رکھنے  کا بھی انتظام واہتمام  کرے  جن کی بدولت اس کی انسانیت کاصحیح مقام نصیب ہواہے  تاکہ ان کے آثار  حمیدہ اور ماٰثر جلیلہ کے تذکرہ سے دلوں کو غذاء ایمانی  پہنچتی  رہے اور اقوام عالم کے سامنے ان کے روشن کردار کی شمع تبلیغ حق کے طور پر انسانوں کو اپناگروویدہ بناتے ہوئے ان کواسلامی تعلیمات سے  مانوس کرسکے اور تاریخ اسلام  کا منہ کالاکرتے ہوئے امیر شام معاویہ بن ابی سفیان نے اپنے دور حکومت میں حضرت علی علیہ السلام  کے ذکر خیر پر پابندی عائد کی تھی اور سرکاری آرڈی ننس  کے ذریعے حضرت علیؑ کو توہین وتنقیص  کی نشر واشاعت کو خوشنودی حکومت کا وسیلہ قرار دیاتھا چنانچہ ا سزمانہ کے تمامذرائع وابلاغ عامہ کو اسی مقصد کےلئے بے دریغ استعمال کیاگیا تھا پسمبلغ وواعظ مقرر وخطیب اور مصنف ومؤلف سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے حکومت  کے دام تزدیر ہیں پھنس گئے تھے  اور انہوں نے اس بارے میں جھوٹی حدیثیں بھی گھڑلی تھی

ہم نے اپنی کتاب اسلامی  سیاست میں افسوسناک امویتحریک سے اچھا خاصا اثر لیااور علی وااولاد علی علیہم السلام  کے خلاف اگلی جانے والی زہر نے آنے والی نسلوں  کے لئے بھی مسلسل  زہر یلے جراثیم چھوڑے چنانچہ آج تک بعض  علاقوں میں حضرت علی علیہ السلام  کا نام تک سننے کو طبیعتیں  گوار نہیں کرتیں اور یہ صرف اسی دور کے دور رس پروپیگندے  کی قلعی کھول کے رکھ دی پس لوگوں کےلئے حق وباطل کے دونو راستوں  کو جانناآسان  ہوگیا لیکن جابر وقاہر حکومتوں نے اس واقعہ کودبانے اوربے اثر ثابت  کرنے کےلئے فقہاء اسلام  کے سامنے  اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے لیکن جوجو وقت گزرتا گیا اور تشدد واکرہ کے شکنجے  ڈھیلے ہوتے گئے  تو زبانوں  سے بھی قفل کھلتے گئے اور نیز حقیقت  پرڈالے ہوئے باطل کے پردے بھی روز بروز اٹھتے گئے  پس دنیا نے دیکھ لیاکہ حق کسی بھی صورت میں باطل  کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود مٹ نہیں سکتا بلکہ جتنا اسے دبایا جائے وہ اس سے بھی زیادہ ابھرتاچلاجاتاہے

حضرت امام محمدباقر اور حضرت امام جعفر صادق علیہما  اسلام  کے زمانہ  میں اموی وعباسی  دونوں طاقتیں اپس میں ٹکرارہی تھیں  امویوں  کےدور اقتدار کی انتہاء اور عباسیوں کی ابتداء  کازمانہ تھا پس انہوں نے  مسجد نبوی میں علوم قرآنیہ  کےدرس  دئیے  اور لوگوں کو حقیقی اسلام کی تعلیمات سے بہرہ در کیااوراموی پروپگنڈے کے زہریلے اور دور رس  اثرات کوزائل کرے  کےلئے مجالس عزا کے انعقاد کاحکم دیا تاکہ لوگ ظالم اور مظلوم کےدرمیان فرق معلوم کرکے حق اور باطل کے درمیان فرقکرسکیں  پس اس سلسلہ میں اہل ایمان پر عائد  شدہ ذمہ داریوں میں سے یہ بھی اہم ذمہ داری ہے کہ آل محمد  کے ایام کو پورے اہتمام سے منایاجائے  پس اس کی ولادت کے ایام میں انکے فضائل سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے  اور ان کے مصائب  کے ایام پر دشمنوں  کے مظالم اور آل محؐمد کی مظلومی کو منظر عام پرلایا جائے تاکہ سیدھے سادے مسلمان حقائق  کا علم حاصؒ کرنے کے بعد آل محمد کےدامن سے وابستہ ہونے کی سعادت حاصل کرسکیں

اموی پروپگنڈے سے متاثر ہونے والے بعض مولویوں  نے فتویٰ دیدیا  تھاکہ امام حسین علیہ السلام  کی مظلومیت کی داستا کا منبروں پر بیان کرنا گناہ ہے کیونکہ اس واقعہ سے سابق بزرگوں  کے متعلق بدگمانیاں  بڑھتی ہیں اس سے معلوم ہوتاہے کہ واقعہ ہائلہ  کربلا صرف  یزید تک محدود نہیں بلکہ اس سے  پہلے کے حکمرانوں کا بھی اس میں ہاتھ ہے

ایک تبصرہ شائع کریں