التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

تمدن انسان کی بقاوارتقاء کا دارومدار اس پر ہے کہ ہر قوم وملت میں ایسے افراد مومود ہوں جو افراد کے کردار کا نوٹس لیں اور افراط وتفریط کی روک تھام ۔۔

تمدن انسان  کی بقاوارتقاء  کا دارومدار اس پر ہے کہ ہر قوم وملت میں ایسے افراد مومود ہوں جو افراد کے کردار  کا نوٹس لیں اور افراط وتفریط کی روک تھام کے لئے مناسب اقدام کرکے توازن  کو برقرار رکھنے  کی سعادت راصل کریں  پس معاشرہ کی رائیوں  کو دور کرنے اور معاشرہ میں نیکیوں  کی ترویج کرنے میں ان کامثبت اقدام قوم وملت کی فلاح  کا ضامن ہوتا ہے حضور  نے فرمایا  الدال علی الفعل کفاعلہ  یعنی کسی کام کی طرف رہبری کرنے والا ایسا ہے جس طرح کہ اس نے خود وہکام کیا ہو حضور سے ایک شخص نے سوال کیا کہ اسلام میں بہترین  عمل کونسا ہے تو آپ  نے فرمایا اللہ پر ایمان رکھنا  اس نے عرض کی کہ اس کے بعد کونسی چیز ہے تو آپ  نے فرمایاکہ صلہ رحمی اس نے عرض کی پھر کیا آپ نے فرمایا امر بالمعروف اور نہی  عن المنکر اس نے عرض کہ بدترین عمل کیا ہے آپ نے فرمایا شرک اس نے کہا پھر آپ نے فرمای اقطع رحمی اس نے کہا پھر آپ نے فرمایا برائیوں کا حکم دینا اورنیکیوں سے روکنا

حضرت رسالتمآب  سے منقول  ہے کہ جس شخص میں تین صنعتوں میں سے ایک صفت بھی ہو وہ اس دن اللہ کے عرش کے سایہ میں ہوگا جس دن کوئی دوسرا سایہ موجود نہ ہوگا اور ان تین صفتوں میں سے ایک صفت یہ ہے کہ جب کسی دوسرے مومن مسلمان کا عیب دیکھ  کر بیان کرنے لگے تو پہلے اپنے عیب کو دور کرلے کیونکہ جب وہ اپنے عیب کو دور کرے گا تو اسے اپنے اندر ایک اور عیب نظر آجائے گا پس وہ اس کو بھی دور کرے گا پھر تیسرا عیب نظر آئے  گا اور اس کو بھی دور کرنے کی کوشش کرے گا حتیٰ  کہ وہ شخص اپنے عیوب کے دور کرنے میں مشغول ہوکر دوسروں  کے عیب بھول جائے گا

حضرت امام محمد باقر علیہ السلما  نے فرمایا جو شخص کسی جابر حکمران  کےسامنے جائے اور اس کو خوف خدا اور تقوی کی نصیحت کرے تو اس کو جن وانس اکے اجر کے برابر  اجر ملے گا

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام  سے سوال کیا گیا کہ کیا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پوری امت پر واجب ہے تو آپ نے فرمایاکہ نہیں جب وجہ پوچھی گئی تو آپ  نے فرمایاکہ یہ ان لوگوں پر واجب ہے جو طاقتور ہوں اور ان کی بات مانی جاتی ہو اور معروف ومنکر کی پہچان بھی رکھتے ہوں بخلاف  اس کے جو شخس کمزور ہے یاجس کو خود معروف ومنکر کی سمجھ نہیں اس سے یہ فریضہ ساقط ہے چنانچہ ارشاد خداوندی ہے ولتکن منکم امتہ یدعون  الایہ  یعنی تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو نیکیوں کا حکم  دے  اور برائیوں سے  روکے گویا  یہ فریضہ عام نہیں بلکہ ایک خاص گروہ کے لئے ہے اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا ومن قوم موسی  امتہ یھدون الایہ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم  میں سے ایک گروہ تھا جو نیکیوں کی ہدایت کرتا تھا یعنی پوری موسیٰ کی اُمت پر یہ فریضہ عائد نہ تھا بلکہ ایک مخصوص  گروہ کا فریضہ تھا الحدیث  آپ  سے پیغمبر کی اس حدیث کے متعلق سوال کیا گیا افضل الجھاد کلمتہ عدل عند امام جائر یعنی حاکم ظالم کے سامنے کلمہ عدل کہنا بہت جہاد ہے  کہ اس کا پھر کیا مطلب ہے تو آپ  نے فرمایا اسکا مطلب یہ ہے کہ پہلے جان لے کہ آیا  وہ نصیحت کوقبول  کرے گا  ؟ یانہ  اگر یہ یقین پیدا ہوجائے کہ  اس پر نصیحت اثر انداز  نہیں ہوسکتی تو ایسی صورت میں یہ فریضہ ساقط ہے آپ نے فرمایا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مومن کے لئے ہے جو نصیحت حاصل کرے یاجائل کے لئے ہے جو درس سیکھے  لیکن وہ شخص جس کے پاس تازیانہ یا تلوار ہو نصیحت کرنے والے کو جان کا خطرہ ہو تو وہاں پر فریضہ ساقط ہے  بلکہ آپ نے فرمایا   ناسازگار حالات میں اگر سلطان جائز کو اس نے امر بالمعروف کے طریقہ پروعظ  کیا اور اس پرکوئی مصیبت  بن گئی تو اس کو کوئی اجر نہ ملے گا  کیونکہ اس نے خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا ہے

 مروی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کہیں جارہے تھے اور کسی شخص کو امر بالمعروف کیا لیکن اس نے پرواہ نہ کی پس آپ نے سرجھکالیااور وہاں سے چل دئیے اور  فرمایاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمایاکرتے تھے کہ اگر کوئی شخص کسی زخمی آدمی کے زخم کا علاج  کرسکتا ہو اور علاج نہ کرے تو گویا اس کو زخمی کرنے کا مجرم ہے پھر آپ فرماتے تھے کہ دانائی کی باتیں ایسے لوگوں سے نہکہوں جو اس کے اہل نہ  ہوں ورنہ تم خود جاہل کہلاؤ گے اور علم کی باتوں کا اہل سے بخل نہ کیاکرو ورنہ گنہگار  ہوگے  اور تمہیں طبیب ہونا چائیے  کہ اگر دوا موثر ہو تو علاج کرو ورنہ چھوڑ دو اور آپ نے فرمایاامر بالمعروف اور نہی المنکر واجب ہیں لیکن اس شخص پر جو کرسکتا ہو اور اپنی اور ساتھیوں کی جان  کا خطرہ نہ ہو ورنہ یہ فریضہ ساقط ہے

حضرت رسالتمآب  سے ایک حدیث میں منقول  ہے کہ خداوندکریم  نے ایک قوم کو عذاب  کرنے کا ارادہ فرمایا اور جبرئیل  کو حکم دیا تو جبریل نے عرض  کی اے پروردگار ان میں سے فلاں آدمی  تو بالکل بے گناہ  ہے پس ارشاد قدرت ہواکہ اس کو بھی شامل عذاب کردے کیونکہ وہ ان بدکار لوگوں کو منع نہیں کرتا تھا حالانکہ میں نے اس کو منع کرنے کی طاقت     ورنہ عذب خدا تم کو بھی شامل  ہوجائے گا آپ نے فرمایا جب تمکسی کو گناہ کرتے دیکھو تو             طاقت ہو تو زبر دستی  اس کو روک دو ورنہ صرف زبان سے نصیحت کرو  اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر دل سے اس کو بڑاجانو  حضرت امیر المومنین علیہ السلام  سے منقول ہے کہ جو شخص اپنے ہاتھ یازبان سے یادل سے برائی کا انکار نہ کرے وہ زندہ ہونے کے باوجود  مردہ ہے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام  سے  منقول ہے ظلم کرنے والا ظلم پر راضی ہونے والا اور ظالم کی مدد کرنے والا تینوں برابر ہیں

 حضرت امیرالمومنین  علیہ السلام  نے جنگ جمل کے بعد ایک خطبے میں ارشاد فرمایاکہ   اگر وہ لوگ صرف ایک مسلمان کو بھی ارادہ قتل کرتے تو میرے لئے اس پورے لشکر کا قتل کرنا جائز تھا جبکہ انہوں نے نہ ان کو روکا اور نہ انکار کیا اس سے معلوم ہوا کہ قاتل کوقتل سے روک سکنے کے باوجود نہ روکنا ہے جیساکہ وہ خود اس کے قتل میں شریک ہو  حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام  نے ایک کوفی سے فرمایا  کہ تم امام حسین علیہ السلام  کے قاتلوں کو دیکھتے رہتے ہو  ؟ تو اس نے عرض کی حضور  ان میں سے اب تو کوئی موجود نہیں  ہے آپ نے فرمایا تو صرف انہی لوگوں کا قتل سمجھتاہے  جو خود قتل کرے حالانکہ خداوندکریم نے پیغمبر کے زمانہ کے یہودیوں کو سابق انبیاء  کے قتل کا ذمہ دار قرار  دیا ہے اور ان کی مذمت  کی ہے اور یہ اس لئے کہ یہ لوگ اپنے اکابر کے فعل بد پر راضی تھے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام  سے مروی ہے کہ جب قائم آل محمد  خروج فرمائیں گے تو قاتلان امام مظلوم کی ذریت سے بدلہ لیں گے راوی نے عرض کی وہ کام تو ان کے باپ دادا نے کیاتھا  پھر ان کو کیوں سزادی جائے گی؟تو آپ  نے فرمایا یہ چونکہ ان کے فعل بد پر راضی تھے اور ازراہ فخر  ان کےکار نامے بیان کرتے تھے  اس لئے وہ بھی ان کے جر م میں شریک ہیں اور جو شخص کسی کے فعل پر راضی ہو وہ اس فعل کے کرنے والے کی طرح مجرم ہے حتاکہ اگر کوئی قتل مشرق میں ہوا اور مغرب میں رہنے والا انسان اس قتل پر راضی ہو تو وہ اس قتل کا مجرم ہوگا  آپ سے سوال کیا گیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی امت کو کیوں غرق کیاگیا حالانکہ ان میں بچے بھی تھے آپ نے فرمایا عذاب کے فیصلہ سے چالیس برس پہلے ان کی عورتوں  کو بانجھ کردیا گیا تھا لہذا ان کی نئی پود رک گئی  پھر ان کوغرق کیاگیا مجرمین کو اس لئے کہ وہ حضرت نوح کی تکذیب کرتے تھے اور باقیوں کو اس لئے کہ وہ تکذیب کرنے والوں کو روک سکنے کے باوجود روکتے نہیں تھے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام   سے منقول ہے کہ رسول اللہ فرمایاکہ اہل معاصی سے ترش روٹی کے ساتھ پیش آیا کرو یعنی ان کو محسوس ہو کہ تم ان کے فعل بد پر راضی نہیں ہو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام  نے فرمایاکہ اگر تم ہاتھ اور زبان سے برائی کو نہیں روک سکتے تو دل سے بیزاری اختیار کرلو اور اس شخص سے بائیگاٹ کرلو تاکہ وہ برائی سے باز آجائے خداوندکریم ہم سب کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سبکدوش ہونے کی سعادت نصیب فرمائیں

ایک تبصرہ شائع کریں